ماضی کے جھروکے … اور جب نظام نے حکومت ِہند کو 5 ٹن سونا عطیہ کیا!

کیپٹن
ایل پانڈو رنگا ریڈی

حکومت ِ حیدرآباد نے ’صرفخاص‘ یعنی نظام کے ذاتی اراضیات کو قبضے میں لیتے ہوئے بیس سال تک سالانہ 10 لاکھ روپئے ادا کرنے سے اتفاق کیا تھا۔ تاہم، نظام سابع نے وہ رقم نہیں لی بلکہ اسے حکومت ِ حیدرآباد کو بلاسودی قرض بطور دے دیا کہ تنگبھدرا پروجکٹ کو روبہ عمل لایا جائے (تاحال وہ رقم اُن کی فیملی کو لوٹائی نہیں گئی ہے)۔ اس بارے میں چیف منسٹر حیدرآباد اسٹیٹ بی رام کرشنا راؤ نے اسمبلی میں ایم ایل اے کونڈا لکشمن باپوجی کے یہ سوال پر جواب میں بیان کیا تھا کہ نظام سابع کو کتنی رقم ادا کی گئی؟
یہ تذکرہ بے محل نہیں ہے کہ حکومت ِ حیدرآباد نے نظام کو اپنی صرفخاص اراضی میں سے جوبلی ہلز میں 350 ایکڑ پر قبضہ برقرار رکھنے دیا تھا۔ نظام سابع نے اس اراضی کی حصاربند دیوار اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کرائی تھی۔ تاہم، آندھرا پردیش حکومت نے یہ اراضی اَربن لینڈ سیلنگ ایکٹ کے نام پر قرق کرلی اور اسے گارڈن میں تبدیل کرتے ہوئے کاسو برہمانند ریڈی سے موسوم کردیا۔ یہ اقدام نہ صرف غیرقانونی، غیراخلاقی بلکہ جانبدارانہ بھی ہے۔ کیوں سرینگر میں کشمیر کے مہاراجہ اور میسور کے مہاراجہ کی بنگلور و میسور میں اراضیات ضبط نہیں کی گئیں؟
آخری نظام نے حیدرآباد اسٹیٹ کے ’راج پرمکھ‘ کی حیثیت سے نہ کبھی تنخواہ لی اور نا ہی گورنمنٹ مشینری کا استعمال کیا۔ دفتر ’راج پرمکھ‘ کے جملہ اخراجات کی رقم ’شاہانہ‘ 1 روپیہ ماہانہ تھی۔ چھ سال اور دس ماہ (26 جنوری 1950ء تا 31 اکٹوبر 1956ئ) میں جملہ رقم جو انھوں نے لی، محض 82 روپئے رہی۔ یہ مخفی معلومات ہے کہ 1962ء میں چینی حملے کے فوری بعد حکومت ِ ہند کو ہتھیاروں کی خریدی کیلئے بیرونی زرمبادلہ درکار ہوا۔ اس سے سونے کے ذخائر پر بوجھ پڑا۔ ہندوستان کو درپیش حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے نظام نے 1965ء میں وزیراعظم ہند لال بہادر شاستری کی ’نیشنل ڈیفنس فنڈ‘ کے سلسلہ میں اپیل پر بڑی فیاضی سے 5 ٹن گولڈ حکومت ِ ہند کو عطیہ کردیا۔ کس ہندوستانی راجکمار یا کس بزنس ہاؤس نے اتنی مقدار میں سونا ہندوستان کو بطور عطیہ دیا ہے؟ نظام سابع کو خوب پتہ تھا کہ جمہوریتوں کا زوال عیش و عشرت کے ذریعے ہوتا ہے (دورِ جدید کے ہندوستانی سیاستدانوں کو احتیاط برتنا چاہئے) اور بادشاہتوں کا غربت کے ذریعے۔
میر عثمان علی خان اپنے فلسفیانہ افکار کیلئے معروف تھے۔ چونکہ اُن کی رعایا میں اکثریت ہندوؤں کی رہی، اس لئے اپنی حکمرانی پر رعایا کو بھروسہ دلانے کی سعی میں انھوں نے خاص طور پر ایک ہندو کو اپنا وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ وہ رہے کشن پرشاد، جو اِس عہدہ پر 1925-36ء کے دوران فائز رہے۔ وزیراعظم بننے کے چند برس بعد کشن پرشاد نے ہندومت ترک کرکے اسلام قبول کرنا چاہا اور اپنی خواہش کا نظام سابع پر اظہار کیا۔ نظام نے کہا کہ کشن پرشاد کو قبولِ اسلام کی پوری آزادی ہے، لیکن وہ وزیراعظم حیدرآباد اسٹیٹ کیلئے کوئی ہندو شخص چاہتے ہیں، اس لئے وہ کسی اور کو تلاش کریں گے۔ اس پر کشن پرشاد نے اسلام قبول کرنے کی اپنی سعی روک دی۔