ماضی کے جھروکے آصف جاہی سلاطین کی وسیع النظری

کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی

مشہور فرانسیسی سیاسی مفکر مونتسکیو نے نظریۂ تقسیم اختیارات کی وضاحت پیش کی تھی۔ اس نظریہ نے عاملہ، عدلیہ اور مقننہ کو علحدہ کرنے کی تجویز کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کو حکومت کا شعبہ بنایا ، جسے عمل کے اختیار کی واضح طور پر صراحت کردہ حدود کے ساتھ آزاد ادارہ قرار دیا گیا۔ نظام VII میر عثمان علی خان نے عدلیہ کو عاملہ سے علحدہ کیا اور عدالت ِ عالیہ( ہائی کورٹ ) قائم کیا۔ انھوں نے ایک ہندو جج کو ہائی کورٹ کا پہلا چیف جسٹس مقرر کیا۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ قانون کے شعبے کی ممتاز شخصیت سَر تیج بہادر سَپرو تھے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ یہ ترقی پسند اور انقلابی اقدام (اختیارات کی تقسیم) غلط طور پر باور کردہ ’جاگیردارانہ‘ مملکت حیدرآباد میں اس سے کہیں قبل لاگو کردیا گیا جب برطانوی ہندوستان کے ’ترقی پسند‘ صوبوں میں اسے اپنایا گیا۔
آصف جاہی سلاطین کا اس قول پر ایقان رہا کہ … وہ جنھیں زندگی میں کم میسر ہے انھیں قانون سے زیادہ اطمینان حاصل ہونا چاہئے۔ یہ حقیقت کم معروف ہے کہ میر عثمان علی خان نے بندھوا مزدوری کا 1923ء میں خاتمہ کیا، جو عوام کیلئے ناقابل بیان بدبختی بن چکی تھی۔ اس فرمان کے ساتھ یہ بھی بیان کردیا گیا کہ خلاف ورزی کے مرتکبین سخت سزا کے مستوجب ہوں گے۔یہ فرضی خیال ہے کہ نظام کی آرمی میں صرف مسلمانوں کا بول بالا تھا اور ہندوؤں کے ساتھ سردمہری برتی گئی۔ تاہم، جتنا زیادہ ہم تحقیق کرتے جائیں ، اُتنا ہی زیادہ مختلف حقائق کا سامنا ہوتا جائے گا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ انگریزوں کے ساتھ ماتحتی اتحاد کے ساتھ نظام نہ صرف اقتدار اعلیٰ بلکہ ملٹری طاقت بھی کھو دیئے۔ اُن کی آرمی میں مداخلت شروع ہوئی اور رِکروٹمنٹ پالیسی وائسرائے کی شرطوں پر کام کرنے لگی۔
غدر 1857ء کے فوری بعد انگریزوں نے چالاکی سے ہندوستانی سماج کو عسکری اور غیرعسکری زمروں میں تقسیم کردیا۔ نام نہاد جنگجو گوشے وہ تھے جو اس بغاوت میں انگریزوں کی طرفداری کئے اور دیگر غیرعسکری کہلائے۔ اُن کی دانست میں سکھ لوگ، گورکھا، راجپوت اور مراٹھا عسکری نسل والے رہے، دیگر برادریاں نہیں۔ اس کے علاوہ مدراس ریجمنٹ جو سابقہ مدراس صوبہ کے آندھرا خطہ سے تعلق رکھنے والے خاص تلگوداں لوگوں پر مشتمل تھا، اُس کا ایک بٹالین لڑائی کے میدان سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ چنانچہ برطانوی حکمرانوں نے تلگوداں افراد کو آرمی میں بھرتی کرنے سے روک دیا۔ اسی وجہ سے فوج میں ہندو نمائندگی کہیں کہیں دکھائی دیتی تھی۔ ماتحتی اتحاد کے بعد نظام کی فوج کی عددی طاقت بھی گھٹ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی حیدرآبادی مسلمان برٹش انڈین آرمی میں شامل ہوئے۔ یہ تذکرہ بے محل نہیں ہے کہ جب جے این چودھری اپنی یونٹ 7 گھڑسوار فوج میں بطور سکنڈ لیفٹننٹ شامل ہوئے، تب اُن کی یونٹ کے رسالدار میجر عبدالرحمن خان (حیدرآبادی شخص) تھے۔ اس ریجمنٹ میں کمانڈنگ آفیسر کے بعد دوسرا اہم ترین شخص رسالدار میجر تھا۔ عبدالرحمن خان نے ہی نوجوان چودھری کو وقت کی پابندی کی اہمیت کے تعلق سے سمجھایا، جسے جنرل چودھری نے اپنی سوانح عمری میں خوش دلی سے تسلیم کیا ہے۔