ماضی سے الگ رہ کر حال کو بیان کرنا مشکل

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے سیاسی ماحول میں متضاد آوازیں اس طریقے سے دن رات آپس میں کڑ کڑا رہی ہیں کہ ہر سیاسی ذہن پریشان ہے۔ اس کڑکڑاہٹ کا سکون شکن ان سیاستدانوں کے ذہنوں پر خصوصی طور پر گہرا ہورہا ہے جو واستو پر ایقان رکھتے ہیں۔ سکریٹریٹ کی چار دیواری میں گھٹن محسوس کرنے والوں نے اپنے لئے نئی چار دیواری بنانے کا اعلان کیا ہے۔ عوام کے محنت کی کمائی کو واستو کی نذر کرنے والی حکومتوں کا آخر عوام گریبان کب پکڑیں گے؟ واستو پر یقین رکھ کر یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ تلنگانہ ریاست میں اب کسی اور پارٹی کی حکومت نہیں ہوگی۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے کیوں کہ نئی ریاست تلنگانہ کی حکومت نے عوامی بہبودی اسکیمات اور ترقیاتی کاموں کے ذریعہ اپنا مضبوط اثر پیدا کرلیا ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے تخیل سے بھی پرے ہے۔ تلنگانہ کی حکمراں پارٹی پر عوام کے بے حد بھروسہ نے لیڈر کو جب خود اعتمادی کی اونچی دہلیز پر پہنچادیا ہے تو تکبر اور غرور جھلکتا ہے۔ ایسے لیڈروں کو یہ نہیں معلوم کہ ماضی سے الگ رہ کر حال کو بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اول تو کوئی لیڈر ماضی کو بھول ہی نہیں سکتا۔ اگر ایسا کیا جائے تو حال پر اعتماد و اعتبار ختم ہوجائے گا۔

تلنگانہ حکومت کے سربراہ کے چندرشیکھر راؤ اگر ماضی کو بھولنے کی غلطی کررہے ہیں تو ان کی برائیوں کا چرچا ہونا شروع ہوجائے گا۔ ویسے جب سیاستدانوں اور حکمرانوں کی برائیوں کا چرچا ہونا شروع ہوتا ہے تو کسی کو زیادہ حیرت نہیں ہوتی اس لئے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہاں بُرائیاں عام برائیوں سے بہت خراب نوعیت کی ہوتی ہیں اور ان کے اثرات پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں اور ان کی سزا پوری قوم کو جھیلنی پڑتی ہے۔ تلنگانہ ہو یا آندھرا کے عوام آنے والے دنوں میں اپنے حکمرانوں کی غلطیوں کے باعث پیدا ہونے والے بحرانوں سے گذرنے لگیں گے خاص کر تلنگانہ میں برقی کا بحران مہنگی اشیاء کی خریدی میں نہال عوام مزید پسینے میں شرابور ہوں گے۔ عوام کو دلاسہ دینے کا ہنر رکھنے والے کے چندرشیکھر راؤ نے حال ہی میں کوم پلی میں ٹی آر ایس کی توسیع شدہ عاملہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس اجلاس کے ذریعہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ان کے کاموں سے عوام خوش ہیں لیکن انھیں اپنی پارٹی کے اندر ناراض کیڈر کا علم نہیں ہے تو وہ حقیقت سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ آنے والا کل کس کے لئے کیا لائے گا لیکن یہ تو آشکار ہے کہ ریاکاروں کا وقت تمام ہونے والا ہے۔ کل یہ نہیں ہوں گے کوئی اور ہوگا۔ اے سیاستداں تو نے کبھی عوام کے جذبہ جوش و خروش سے خراج حاصل کیا تھا لیکن آج حاجت مندی کی وجہ سے تیری فطرت لومڑی جیسی ہوگئی ہے۔ تیرے توانا و طاقتور ہونے کا سبب عوام کی غربت اور مجبوری ہے۔ یہی عوامی مجبوری تیرے عروج کا باعث ہے۔ سرکاری خزانے کو خالی کردینے والی حکومت کو جب اپنے ہی ملازمین کی تنخواہیں اضافہ کے لئے ہونے والے احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا تو تمام سرکاری کام کاج ٹھپ ہوجائے گا۔ تلنگانہ کے سرکاری ملازمین نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ شروع کردیا ہے یعنی اس سے سرکاری خزانہ پر سالانہ 13,800 کروڑ روپئے کا زائد بوجھ پڑے گا۔

یہ رقم جاریہ مالیاتی سال میں ہونے والی آمدنی کے مساوی ہے تو پھر حکومت دیگر اسکیمات اور منصوبوں کو کس طرح بروئے کار لائے گی۔ حال ہی میں تلنگانہ کے سرکاری ملازمین میں پیدا ہونے والی ناراضگی منظر عام پر آئی ہے۔ ایسی صورت میں حکومت تلنگانہ کے اسپیشل سکریٹری پردیپ چندر کو احتجاجی ملازمین کو رضامند کرانے کی ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ اپنے مطالبہ سے فی الحال دستبردار ہوجائیں کیوں کہ نئی ریاست تلنگانہ ان کے مطالبہ کو پورا کرنے کی متحمل نہیں ہے۔ تلنگانہ کے 3.5 لاکھ سرکاری ملازمین نئی ریاست کے قیام کے لئے جو خواب دیکھا تو وہ چکنا چور ہوگیا۔ یہ لوگ اپنی تنخواہ میں 69 فیصد فٹمنٹ کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ 10 ویں پے پیانل نے پی کے اگروال کی قیادت میں 27 فیصد کی سفارش کی ہے۔ اگر ملازمین کو ان کے مطالبہ کے مطابق ایک فیصد بھی فٹمنٹ دیا گیا تو سرکاری خزانے پر 200 کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو 13,800 کروڑ روپئے ملازمین کے لئے خرچ کرنے پڑیں گے اور یہ رقم ریاست کو حاصل ہونے والے جملہ مالیہ کے تقریباً مساوی ہے۔بہرحال ملازمین کے مطالبہ کے عوض چیف منسٹر نے تنخواہوں میں معمولی اضافہ کیا ہے ۔ انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی نیت سے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے سرکاری ملازمین کو خصوصی اضافی تدریجی جاری کی تھی۔ جس سے سرکاری خزانے سے 9600 کروڑ روپئے کا اضافی بوجھ پڑگیا۔ اب ملازمین مزید کا مطالبہ کرنے لگے ہیں تو چیف منسٹر کے لئے سختی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور جب سختی کی جاتی ہے تو اس کے بعد مسائل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ایسے میں آئندہ 2019 ء کے اسمبلی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کا خواب اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے بُری نیت رکھنے کا انجام کیا ہوگا

یہ بے خبری کا نتیجہ ہوگا۔ ٹی آر ایس کو ناقابل تسخیر پارٹی سمجھنے والے چیف منسٹر کو تلگودیشم سے خطرہ ہے۔ چندرابابو نائیڈو نے اپنے عوام کو میٹھے خواب دینا شروع کیا تھا مگر اب ان کی پالیسیاں بھی خلاء بازیاں کھارہی ہیں۔ انھیں بھی خالی سرکاری خزانے سے پریشانی لاحق ہے۔ حال ہی میں اُنھوں نے تمام اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے فنڈس مختص کرنے کو روک دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ آرڈر اس لئے جاری کیا گیا چوں کہ ان کی حکومت کو آئندہ ماہ سرکاری ملازمین کے لئے تنخواہیں دینا مشکل ہوگا۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کا عمل اس وقت تک روکا جانے والا تھا تاوقتیکہ حکومت 2500 کروڑ روپئے جمع کرے۔ ایسے مالیاتی بحران میں آندھراپردیش کی مدد کرنے وہ مرکز سے التجا کرنے والے ہیں۔ تلگودیشم صدر کا خیال ہے کہ ان کی ریاست کو مارچ تک سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان تلخ حقائق کے باوجود آپ مانیں یا نہ مانیں دونوں ریاستوں کے چیف منسٹرس کے چندرشیکھر راؤ اور چندرابابو نائیڈو میں ضرور خاص بات ہے جسے آپ کرشماتی طلسم یا چادر یا کشش بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ ان کی لاکھ خرابیوں کے باوجود وہ عوام کے دلوں پر راج کررہے ہیں۔ اب کانگریس کے پاس ایسا کوئی سیاسی بارود نہیں ہے کہ وہ کوئی دھماکہ کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود نہیں جس سے کہ وہ دونوں ریاستوں کی حکومتوں کے مضبوط مورچہ کو اڑا سکے۔ وہ پچھلے 7 ماہ کے دوران پیچھے ہٹتے ہٹتے پہلے ہی آخری مورچے میں پہنچ چکی ہے۔
kbaig92@gmail.com