لیڈر کے اوصاف و کمالات

 

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
لیڈر کے اوصاف کے بارے میں ہر عام و خاص کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے ایک نیک اور دیانتدار لیڈر ہونا چاہئے ۔ لیڈر وہی کہلاتا ہے جس کے اوصاف و کمالات سے محبت و عقیدت رکھی جائے ۔ قائد امیر ہو یا غریب ، برسر اقتدار ہو یا نہ ہو وہ اپنے رائے دہندوں کے لیے بے لوث کام کرتا ہے ۔ ایسے لیڈر سے عوام بھی قلبی محبت رکھتے ہیں ۔ تلنگانہ کی لیڈر شپ کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کے درمیان اگر تلنگانہ تلگو دیشم کے ریونت ریڈی کو کانگریس میں شامل کرلیا گیا ہے تو یہ خود حکمراں ٹی آر ایس پارٹی کے لیے ایک بہترین موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات 2019 سے قبل ہی ریاست میں اپنی ساکھ کی آزمائش کرے ۔ کوڑنگل کی نمائندگی کرنے والے ریونت ریڈی نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے کر کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ۔ ان کے حلقہ اسمبلی کوڑنگل میں ضمنی انتخاب ہوتا ہے تو اس نشست سے کامیابی حاصل کرنے کے لیے ریونت ریڈی کے مقابل ایک مضبوط لیڈر کو کھڑا کرنے کا ٹی آر ایس کو موقع ملے گا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے کٹر نقاد ریونت ریڈی کو سیاسی وقت دکھانے کے لیے ٹی آر ایس بھی ضمنی انتخاب میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گی ۔ ریونت ریڈی کا استعفیٰ دراصل ٹی آر ایس کے لیے ایک نعمت بن گیا ہے ۔ چیف منسٹر اپنے اس کٹر نقاد کو سیاسی طور پر ناکام بنانے کے لیے کوڑنگل میں ساری طاقت جھونک دے سکتے ہیں اور کانگریس نے جس لیڈر کو اہمیت دے کر اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے ۔ اس کی ساکھ کمزور کرسکتے ہیں ۔ جب ضمنی انتخاب ہوں گے ٹھیک اس سے ایک سال بعد ہی اسمبلی انتخابات مقرر ہوں گے ۔ لہذا یہ ضمنی انتخاب ٹی آر ایس پارٹی کے لیے اسمبلی انتخابات جتنے کے لیے سیمی فائنل ثابت ہوں گے ۔ ٹی آر ایس قائدین نے ریونت ریڈی کے خلاف طاقتور ٹی آر ایس امیدوار کھڑا کرنے پر غور کرنا شروع کیا ہے اور جن ناموں کو زیر غور لایا جارہا ہے ۔ ان میں پی نریندر ریڈی ایم ایل سی اور وزیر ٹرانسپورٹ پی مہیندر ریڈی کے بھائی کا نام سرفہرست ہے ۔ گروناتھ ریڈی کو بھی ٹی آر ایس اپنا امیدوار بنا سکتی ہے جن کو 2014 کے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا گیا تھا ، لیکن ریونت ریڈی نے انہیں شکست دی تھی ۔ تلنگانہ تلگو دیشم سے ریونت ریڈی کے استعفیٰ سے ریاست میں تلنگانہ تلگو دیشم اور ٹی آر ایس میں اتحاد کی راہ مضبوط ہوسکتی ہے لیکن ٹی آر ایس کے ساتھ تلگو دیشم کا اتحاد ایک عجیب سا محسوس ہوگا ۔ ٹی آر ایس تو یہ چاہتی ہے کہ تلنگانہ میں کسی اور پارٹی کا وجود ہی نہ رہے اور وہ اسی مقصد سے کام کررہی ہے ۔ ٹی آر ایس نے آندھرا پردیش کی تقسیم سے قبل تک تلگو دیشم کو ’ آندھرا پارٹی ‘ قرار دیا تھا ۔ اب اس کے ساتھ سیاسی اتحاد خود ٹی آر ایس کی سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا ۔ لیکن سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ دونوں پارٹیاں کانگریس کی بڑھتی طاقت کے آگے باہمی مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کریں گی ۔ تلنگانہ میں تلگو دیشم کا پارٹی کیڈر ہنوز مضبوط ہے اور اس نے 2014 کے تلنگانہ تحریک کے بعد ہونے والے انتخابات میں بی جے پی سے اتحاد کر کے 20 نشستیں جیتی تھیں ۔ گوکہ ٹی آر ایس یہ عزم کرچکی ہے کہ وہ اپنے مد مقابل کسی بھی پارٹی کو قدم جمانے نہیں دے گی ۔ ٹی آر ایس حکومت ایک طرف اپنی طاقت کے ذریعہ سیاسی مستقبل کو مضبوط بنانا چاہتی ہے ، دوسری طرف ریاست کے بیوریو کریٹس حکومت سے شدید ناراض و بیزار دکھائی دے رہے ہیں ۔ خاص کر آئی اے ایس عہدیدار اور ضلع کلکٹرس کو حکومت سے بے شمار شکایات ہیں ۔

 

بیوریو کریٹس اور ضلع کلکٹرس کو حکمراں پارٹی کے وزراء اور ارکان اسمبلی سے لے کر ادنیٰ ورکر کی جھڑکیوں اور زیادتیوں کا شکار ہونا پڑرہا ہے ۔ حال ہی میں دو خاتون ضلع کلکٹرس نے چیف سکریٹری سے شکایت کی کہ انہیں رخصت پر جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اذیت کی ڈیوٹی سے کچھ دن کے لیے راحت حاصل کرسکیں ۔ اگر ریاست تلنگانہ کے مختلف اضلاع سے آنے والی اطلاعات درست ہیں تو پھر یہ حکومت کے لیے غور طلب ہے کہ کئی نوجوان کلکٹرس نے جنہیں نو تشکیل شدہ اضلاع میں ذمہ داری دی گئی ہے تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی حکومت سے بے حد نالاں ہیں اور یہ کلکٹرس اپنے فرائض سے بچ کر کسی دوسرے محکموں میں تبادلے کے خواہاں ہیں ۔ ان نوجوان آئی اے ایس آفیسرس کو گذشتہ سال 31 اضلاع کی تشکیل اضلاع کی حد بندی کے بعد کلکٹرس کے طور پر تقرر کیا گیا تھا ۔ اگرچیکہ ان نوجوان آئی اے ایس آفیسرس نے اپنے تقرر کے چند ماہ تک خوشی خوشی کام انجام دیا لیکن کچھ دنوں بعد انہیں محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے علاقہ کے عملاً ایک تحصیلدار کے عہدہ سے بھی بدتر درجہ پر کام کررہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مقامی ارکان اسمبلی اور ٹی آر ایس کے دیگر قائدین نے ان کے ساتھ ماتحت کی طرح برتاؤ شروع کیا ہے ۔ شمالی تلنگانہ کے ایک ضلع میں تعینات نوجوان خاتون کلکٹر کو وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤ سے شدید شکایت ہے کہ وہ ترقیاتی کاموں کو لے کر ان پر برس پڑے جب کہ حکومت نے ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈس کا اعلان کر کے یہ رقم جاری ہی نہیں کی ۔ وزیر آئی ٹی نے عوام پر رعب جمانے کے لیے کلکٹرس کو عدم کارکردگی پر سر عام نشانہ بنایا ۔ کے ٹی راما راؤ اس خاتون کلکٹر کی اصل بات سننے تیار ہی نہیں تھے ۔ ان کلکٹرس کا احساس ہے کہ ٹی آر ایس حکومت ترقی کے نام پر فنڈس جاری نہ کر کے کلکٹرس کو بدنام کررہی ہے ۔ اس لیے ان کلکٹرس نے عوامی بدنامی سے بچنے کے لیے رخصت پر جانے کو ترجیح دی ہے ۔ ایک اور کلکٹر نے جو مقامی رکن اسمبلی کے ناجائز قبضوں کے خلاف کارروائی کی تھی ۔ ٹی آر ایس قائدین کے خراب برتاؤ کا شکار ہو کر رخصت طلب کی ہے ۔ اس مقامی رکن اسمبلی کو اب اسمبلی میں ایک تحریک مراعات کا سامنا ہے ۔ اسمبلی سیشن جاری ہے ،کہا جارہا ہے کہ اس میں بھی اپوزیشن کو عوامی مسائل اٹھانے سے روکنے کے لیے حکمراں پارٹی نے کئی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں جیسا کہ کانگریس کے اپوزیشن لیڈر کے جانا ریڈی نے الزام عائد کیا کہ اسمبلی میں عوامی مسائل کو پیش کرنے سے روکا جارہا ہے ۔ جمہوری طرز پر اگر کوئی لیڈر عوامی مسائل پیش کرتا ہے تو اس کی سماعت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ مگر حکومت شائد عوامی طاقت کے ہی سہارے عوام کے منتخب دیگر نمائندوں کو چپ کرانے میں اپنا حق سمجھنے لگی ہے ۔ بہر حال کانگریس ، ریونت ریڈی کو شامل کر کے ایک باہوبلی کو اپنی صف میں لانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو وہ ایوان اسمبلی سے لے کر عوام کے درمیان پہونچنے تک اپنے باہوبلی کو لے کر کتنی سیاسی طاقت مجتمع کرلے گی یہ وقت ہی بتائے گا ۔ 47 سالہ لیڈر ریونت ریڈی نے کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ ان کا واحد اور ٹھوس مقصد تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت کو بیدخل کرنا ہے جس کے تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹی آر ایس حکومت کچھ نہیں بلکہ ایک خاندان کے چارافراد کی حکومت ہے جہاں صرف خاندانی امور پر ہی توجہ دی جاتی ہے ۔ پوری ریاست پر کے سی آر خاندان کے صرف چار ارکان ہی کنٹرول کئے ہوئے ہیں ۔ اس لیے ریونت ریڈی نے ٹی آر ایس کے خلاف اپنا محاذ مضبوط بنانے کے لیے درست پلیٹ فارم حاصل کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ غیر منقسم آندھرا پردیش کے اب تک کے چیف منسٹرس کا تعلق یا تو کما طبقہ سے یا پھر ریڈی طبقہ سے تھا ۔ یہ دونوں طبقے جنوبی ہند میں اثر رکھتے ہیں ۔ نئی ریاست کے قیام کے بعد کے چندر شیکھر راؤ جو ویلما طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک اور اعلیٰ ذات طبقہ ہے تلنگانہ کے پہلے چیف منسٹر بن گئے ۔ اس لیے ریڈی طبقہ میں ناراضگی بڑھنے لگی اور اس کو اقتدار کی راہ داریوں سے محرومی کا احساس ستانے لگا ۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے بھی تلنگانہ میں پارٹی یونٹ میں اس طبقہ یعنی ریڈی طبقہ کے قائدین کو لانے کی کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہے ۔ کانگریس کو ریڈی طبقہ کے ارکان کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے تو ریونت ریڈی کو اس پارٹی میں موزوں جگہ ملی ہے ۔ اب وہ کانگریس کے لیے باہو بلی ثابت ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو 2019 کے انتخابات میں ثابت کریں گے ۔ کانگریس کو تلنگانہ میں سوکھے پتوں کی طرح بکھرے ہوئے دیکھا جارہا تھا ۔ اب اس نے کسی کو سمیٹا ہے تو دیکھتے ہیں کہ وہ حکمراں کے بڑھتے قدموں کو روکنے میں کس حد تک کامیاب ہوگی ۔۔