لیڈر کی چالاکی بھی ایک دن ناکام ہوتی ہے

تلنگانہ ۔ اے پی ڈائری           خیر اللہ بیگ
پارلیمنٹ و اسمبلی میں جن اہم موضوعات پر توجہ دینی تھی انھیں نظر انداز کرکے دیگر غیر ضروری مسائل پر اُلجھ کر وقت ضائع کیا جانا سیاستدانوں ، حکمران ارکان کی پرانی عادت ہے۔ تلنگانہ اسمبلی ایوان میں بعض مسائل پر تُوتُو، مَیں مَیں کرنے والے قائدین میں مقامی جماعت کے لیڈر کو ٹی آر ایس حکومت کے ساتھ اُلجھ کر اپنے بھونڈے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا گیا تو ان کے حامیوں کو حیرانی ضرور ہوئی ہوگی۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات سے قبل حکمراں پارٹی کے خلاف آواز بلند کرنا مقامی جماعت کا نیا حربہ نہیں ہے، مقامی جماعت سے قومی جماعت بننے کا خواب دیکھنے والی پارٹی کے لئے ضروری ہے کہ وہ حکمراں پارٹی سے ملے ہاتھ دور کرلے، بلدی انتخابات آئندہ ایک دو ماہ میں منعقد ہوں گے۔ ایوان اسمبلی میں حکمراں پارٹی سے تنازعہ پیدا کرکے اس کا مظاہرہ کرنا بھی ایک افسوسناک کوشش ہے۔ ایوان اسمبلی میں وزیر پنچایت راج کے ٹی راما راؤ سے بحث و تلخ کلامی کرتے ہوئے قائد ایوان نے حکمراں پارٹی سے اپنی دوستی کو خیرباد کردینے کا مظاہرہ کیا۔ سیاستدانوں میں وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے، پتہ نہیں یہ بات سچ ہے یا جھوٹ کہ وقت کے ساتھ ہرچیز بدل جاتی ہے۔ قول، قرار، وعدے، عہد، قصے کہانیاں یہاں تک کہ تاریخ بھی بدل جاتی ہے اور ہئیت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔ سیاسی لالچ اور عوامی مسائل کا انبار ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو سیاستدانوں نے اپنی مرضی سے زندہ رکھا ہے، لیکن بعض اوقات لیڈر کی چالاکی بھی اس گدھے کی طرح ناکام ہوجاتی ہے جو اس کہانی میں پوشیدہ ہے:
’’ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ دو گدھے ایک ندی پار کرنے چلے، ایک کی پیٹھ پر نمک لدا ہوا تھا اور دوسرے کی پیٹھ پر روئی تھی۔ ندی کنارے کھڑے ہوکر سوچ رہے تھے کہ پانی میں اُتر کر اس کنارے تک پہونچیں یا نہیں۔ جس گدھے کی پیٹھ پر نمک لدا ہوا تھا اس نے کہا کہ میں تو پانی میں اُتر رہا ہوں، ساتھ ہی اس نے روئی والے گدھے سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ ساتھ چلے آؤ۔ دونوں گدھے ندی میں اُتر گئے، پہلے گدھے کی پیٹھ پر لدا نمک پانی میں گھلنے لگا اور اس کا بوجھ ہلکا ہونے لگا۔ دوسرے کی پیٹھ پر لدی ہوئی روئی بھیگ کر وزنی ہونے لگی، جب اس نے دیکھا کہ پہلا گدھا خوشی خوشی پانی میں لپکا چلا جارہا ہے اور اس کو چلنا دوبھر ہورہا ہے تو اس نے اپنی کمر میں بندھی ہوئی خودکش جیاکٹ کا بٹن دبادیا اور دونوں مرگئے، البتہ دوسرے نے مرتے مرتے کہا ’’ نہ خود کھیلوں گا اور نہ دوسروں کو کھیلنے دوں گا۔‘‘

سیاسی زندگی میں اونچ نیچ بھی ہوتی ہے اور نشیب و فراز بھی آتے ہیں مگر حیدرآباد کی سیاست میں یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اتنی خرابی حکومت میں نہیں ہوتی جتنی اس کے نالائق عہدیداروں میں ہوتی ہے۔ مسلم تحفظات کیلئے روز نامہ ’سیاست‘ کی تحریک کے حصہ کے طور پر جب شہر میں ہورڈنگس لگائے گئے اور عوام میں شعور بیدار ہونے لگا تو ان ہورڈنگس کو مخالف حکومت متصور کرکے نالائق عہدیداروں کو ہدایت دی گئی کہ ان ہورڈنگس کو نکالا جائے لیکن عوام کے احتجاج کے بعد ہورڈنگس دوبارہ نصب کئے گئے۔ حکومت نے انتخابی وعدہ کے ذریعہ مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کا وعدہ کیا تھا۔ مسلمانوں کی فلاح کیلئے کسی پروگرام کا آغاز ہوتا ہے تو سرکاری اہلکار اس پروگرام کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ حکومت کی ساکھ بہتر ہونے کے بجائے اُلٹا حکومت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔ مسلم تحفظات کیلئے جاری جدوجہد میں اب تلنگانہ کے اضلاع کے علاوہ دیگر علاقوں اور عوام کو بھی شریک تحریک کروانے کی مہم شروع کی گئی ہے۔ ایوان اسمبلی میں بیٹھ کر خود کو قوم کا سرمایہ اور عوام پر 50سال سے راج کرنے کا دعویٰ کرنے والے لیڈر نے یہ بھی واضح کردیا کہ وہ 50سال سے عوام کو بے وقوف بناکر اسمبلی میں اپنی جگہ محفوظ کرتے آرہے ہیں مگر عوام کو سرکاری فوائد پہنچانے کی فکر نہیں ہے۔ غریبوں کی بستیوں میں ووٹ لینے کے لئے پھرنے والے لیڈروں نے اتنا پیسہ کمالیا ہے کہ ان کی دولت اربوں، کھربوں تک پہونچ گئی ہے۔ جب اتنا پیسہ اس شہر میں ہے تو پھر عوام اتنے کیوں غریب ہیں؟ ضرور یہاں دولت چند ہاتھوں کے قبضے میں ہے۔ طاقتور ہونے والے سیاستدانوں کے پاس دولت پر قبضہ ہے اور غریبوں کے پاس فقط قبض کی شکایت ہے، اس کا علاج بھی اگر ان کا لیڈر کرتا ہے تو اس میں بھی مصلحت ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ لیڈروں کی پرانی عادت ہے کہ وہ ہمہ وقت قوم کی حیاتِ نو کا ڈھول بجاتے رہتے ہیں۔ یہ ڈھول چاہے آلیر فرضی انکاؤنٹر کے مسئلہ پر بجے یا کسانوں کے مسئلہ پر بجایا جائے،ڈھول تو ڈھول ہی ہے۔ اگر کوئی ان سے یہ سوال کرے کہ قوم کے حق میں کئے گئے کاموں کی دیانتداری سے تفصیل پیش کریں تو ناراض و برہم ہوں گے کیونکہ انہیں سیاسی مارکیٹنگ میں مکمل عبور حاصل ہے اس لئے وہ انتخابات کے سیزن میں اپنی مارکیٹنگ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
’’ مصر کے بازار میں ایک آدمی قمیض بیچ رہاتھا، وہ آواز لگارہا تھا ’’ حضرت یوسف کی وہ قمیض لے لو جو انھوں نے اس وقت پہنی تھی جب انھیں بھیڑیئے نے کاٹا تھا۔‘‘ ایک عالم، فاضل و محقق ادھر سے گذررہے تھے، انہوں نے جب یہ سنا تو اس آدمی کو ڈانٹا کہ ’’ یہ کیا بکواس کررہا ہے، حضرت یوسف کو بھیڑیئے نے کب کاٹا تھا؟۔‘‘ یہ سُن کر اُس آدمی نے آواز لگانا شروع کردیا ’’ حضرت یوسف کی وہ قمیض لے لو جو انہوں نے اس وقت پہنی ہوئی تھی جب انہیں بھیڑیئے نے نہیں کاٹا تھا ۔ ‘‘

مارکیٹنگ یہی تو ہوتی ہے، سیاسی مارکیٹنگ کے ذریعہ حالات کے مطابق عوام پر 50 سال سے راج کررہے ہیں جس کا دعویٰ بھی سینہ ٹھونک کر کررہے ہیں۔ آپ خود دیکھیئے مسلمانوں کو انصاف، انصاف کی رٹ لگانے والی جماعت نے تحفظات پر چُپ اختیار کرلی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب تلنگانہ تحریک چل رہی تھی تو اس نے خود کو تحریک سے دوررکھا اور جب تلنگانہ کا اعلان ہوا تو اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کرتے ہوئے حکمران پارٹی سے ہاتھ ملاکر تلنگانہ کے مسلمانوں کے حق میں کام انجام دینے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہی بھول گئی۔ ان کو ووٹ دینے والی قوم اپنی بِساط کے مطابق اپنے لیڈر کی صلاحیتوں سے نکلنے والی خوشخبری کا انتظار کررہی ہے۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی عیب ہوتا ہے، کوئی جبلت ہوتی ہے اور شہر کے لیڈر کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان میں یہ جبلت موجود ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں کی عزت نہیں کرتے پھر بھی ان کے چاہنے والے انھیں عزت دیتے ہیں۔ منہ مانگی رقم دے کر میڈیکل انجینئرنگ کالجوں میں اپنے بچوں کو داخلہ دلواکر خوش ہوتے ہیں کہ1.5کروڑ روپئے دے کر ان کا بچہ ڈاکٹر بنے گا تو کروڑہا روپئے کمائے گا۔ جس ریاست میں ایسے والدین بھی ہیں کہ اپنے بچوں کو کروڑہا روپئے دے کر تعلیم دلاتے ہیں، وہیں کریم نگر کے علاقہ پداپلی میں ایک 15سالہ لڑکے نے محض اسکول کی فیس کی عدم ادائیگی پر ملنے والی سزا پر دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلیتا ہے، اس لڑکے کے والدین نے اسکول فیس کے طور پر  پہلے ہی5000 روپئے ادا کردیئے تھے مگر مزید رقم کا مطالبہ اور کلاس روم میں اسکول انتظامیہ کی ہراسانی کو بے عزتی محسوس کرتے ہوئے طالب علم کا انتہائی اقدام افسوسناک ہے۔ دسویں جماعت کے اس طالب علم کی خودکشی ٹی آر ایس حکومت کی ناکامیوں کے تسلسل پر ایک ضرب ثابت ہوگی۔ ایوان اسمبلی میں اس مسئلہ پر بحث ہونی چاہیئے۔ لیکن تلنگانہ اسمبلی کے اسپیکر اس کی اجازت دیں گے یا نہیں یہ پیر کے دن دوبارہ شروع ہونے والی اسمبلی کی کارروائی اور ایوان کی صورتحال پر منحصر ہے، کیونکہ جمعرات کے دن اسپیکر اسمبلی نے افراتفری  میں 6منٹ کے اندر ہی ایوان کی کارروائی پیر تک ملتوی کرکے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ ایوان اسمبلی میں جب حکمران طبقہ اپنی سیاسی نااہلی کے عارضہ کو بدنیتی، فریب کاری، چالبازی اور حیلہ، بہانہ جیسی بیماریوں سے مربوط کرتا ہے تو پھر نئی ریاست کے عوام کو درپیش مسائل حل ہونے کے بجائے گہرے اور گھنے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حکمرانی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔
kbaig92@gmail.com