لیڈر کی محنت کا پھل

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
لیڈر کی محنت و جدوجہد ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس کا پھل عوام الناس کو ملے، اور جو بیچارے رائے دہندے ایک دن طویل قطار میں کھڑے ہو کر اپنے لیڈر کو ووٹ دیتے ہیں۔ انہیں اپنی پسند کا لیڈر منتخب کرنے کا پھل اگر کڑوا ملے تو ان کی محنت اکارت سمجھی جاتی ہے۔ تلنگانہ جدوجہد اور تحریکوں و احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ حاصل کردہ نئی ریاست تلنگانہ پر تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت کررہی ہے، اب اس نے حکمرانی کے 100 دن بھی پورے کرلیئے ہیں۔ تحریک تلنگانہ میں تمام باشندوں نے حصہ لیا ان میں مسلمانوں کا رول بھی اہم تھا۔ مسلم قائدین اوراُردو اخبارات نے بھی تلنگانہ کے قیام کی جدوجہد میں اپنا اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ حکومت کی 100دن کی کارکردگی کے بعد یہ اندازہ اخذ کیا جارہا ہے کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندر شیکھر راؤ کچھ کام کررہے ہیں اور ان کاموں کے نتائج آنا باقی ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو دیکھنے کیلئے پہلے 100دن بڑے اہم ہوتے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام کی توقعات کیسے پوری ہوں گی۔ بلاشبہ چندر شیکھر راؤ تلنگانہ میں دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں بہا سکتے تھے مگر انہوں نے عوام سے جو وعدے کئے تھے کہ حقیقی معنوں میں وہ راحت پہنچانا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ کی معیشت اور حکومت کا بجٹ کیا ہے اور فلاحی اسکیمات پر کتنی رقم خرچ کی جائے گی ابھی طئے ہونے جارہی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کے لئے اب کڑا امتحان شروع ہوچکا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرے۔ حکومت نے تلنگانہ عوام کے جذبات کو اُبھارنے میں اپنا رول جاری رکھا ہے۔ تلگو کے دو ٹی وی چینلس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے جن پر تلنگانہ عوام کی توہین کرنے کا الزام ہے۔چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریمارکس کئے کہ اگر کوئی تلنگانہ، تلنگانہ اسمبلی یا پھر تلنگانہ عوام کی عزت نفس کی توہین کرتا ہے تو ہم ان کی گردنیں توڑ دیں گے اور انہیں 10کلو میٹر گہرائی تک دفن کردیں گے۔ چیف منسٹر کے اس ریمارک کے خلاف ریاستی اور قومی سطح پر صحافیوں نے زبردست احتجاج شروع کیا ہے۔

دو سرکردہ صحافتی اداروں جیسے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور نیوز براڈ کاسٹرس اسوسی ایشن نے چندر شیکھر راؤ کے ریمارک کو بدبختانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ اظہار خیال کی آزادی پر راست حملہ تصور کیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کو اپنی نوخیز حکمرانی کے دوران میڈیا سے تصادم کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ میڈیا ہی ہے جس نے ان کی تلنگانہ تحریک کو پروان چڑھایا تھا۔ حکومت پر نظر رکھنے والوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر میڈیا نے اپنی ناراضگی کے ساتھ ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا نوٹ لینا شروع کردیا تو جس عوام نے انہیں سر پر بٹھایا ہے وہی عوام انہیں اقتدار سے دس کلو میٹر کے بجائے ہزاروں کلو میٹر دور ڈھکیل دیں گے۔ میڈیا سے تصادم کی راہ اختیار کرنا گویا اپنے سیاسی مستقبل کو تنازعہ میں گھسیٹنا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر سیاسی طور پر سمجھدار اور تجربہ کار ہیں۔ اقتدار کا نشہ بلاشبہ سر چڑھ کر بولتا ہے لیکن اس نشہ سے دور رہنا چاہیئے۔ ماضی میں کئی قائدین نے اقتدار کے نشہ میں غلطیاں کی تھیں جنہیں میڈیا نے انہیں گھر کی راہ دکھائی ہے۔ چیف منسٹر نے اپنی ریاست اور زبان کی توہین کرنے والے میڈیا پر اس طرح کی برہمی ظاہر کی ہے جو فطری امر ہے۔ کسی بھی علاقہ ، زبان اور تہذیب کی توہین کرنااخلاق کے مغائر ہے۔ صحافت ایک بااخلاق اور معزز شعبہ ہے۔ چیف منسٹر کے خیال میں میڈیا نے ریاست تلنگانہ اور اس کے قائدین کا مذاق اڑایا۔

تلنگانہ قائدین کے انداز بیان کا تمسخر اڑایا گیا تو ملٹی سسٹم آپریٹرس نے از خود ان دو چینلس کی نشریات کو روک دیا۔ان کا یہ عمل اپنا احتجاج درج کرنے کیلئے درست قدم تھا لیکن چیف منسٹر کے ریمارک سے ملٹی سسٹم آپریٹرس کا احتجاج سیاسی تنازعہ کا شکار ہوچکا ہے۔ملٹی سسٹم آپریٹرس نے چیانلس کے سگنلس بند کردیئے جس پر دونوں چینلس سے وابستہ صحافیوں نے حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ ٹی وی9اور بی این آندھرا جیوتی کے صحافیوں کے علاوہ دیگر صحافی بھی اس احتجاج میں شریک تھے ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تلنگانہ عوام معصوم ہیں اور وہ اتنے بھولے ہیں کہ ہر مسئلہ کو اپنے لیڈر کے اشاروں کا انتظار ہوتا ہے۔ کسی بھی علاقہ میں لسانیات اور بول چال کا مذاق نہیں بنانا چاہیئے۔ علم کا تعلق اخلاق سے ہوتا ہے۔ آندھرائی لوگ خود کو بااخلاق اور علم والے سمجھتے ہیں مگر ان کے درمیان موجود بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود کو دانا سمجھ کر تلنگانہ والوں کے احمق ہونے کا چرچہ کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلس کے ذریعہ تلنگانہ کی زبان ، تہذیب اور روز مرہ زندگی کے طور طریقوں کو بھونڈے پن سے پیش کرنے کوغیر اخلاقی حرکت قرار دیا جاسکتا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ علم، اخلاق تو ہر انسانی زندگی کے چند اہم اصول، معیار اخلاق سے نسبت رکھتے ہیں۔ ان دنوں لوگوں کو سوشیل میڈیا کی پلٹن سے امان نہیں مل رہا ہے۔ ان ٹی وی چینلس کو اپنا کردار درست کرلینا ہوگا۔ قیام تلنگانہ کے فوری بعد نوزائیدہ ریاست کو مسائل کے کوہ ہمالیہ کا سامنا ہے جن میں خاص طور پر لاکھوں نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ ہے۔ حکومت نے نوجوانوں کو روزگار سے مربوط کرنے کا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ کے بشمول تلنگانہ تحریک میں طلبہ کا رول مرکزی کردار کا حامل تھا۔

اب حکومت ان طلبہ کو فراموش کررہی ہے تو یہ اس کی بڑی غلطی ہوگی۔ کنٹراکٹ ملازمین کو باقاعدہ بنانے کے فیصلہ کے خلاف عثمانیہ یونیورسٹی طلبہ کے احتجاج کو گذشتہ 55دن سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ کے سی آر کو اس انگریزی کے لفظ ’ ٹراما ‘ (TRAUMA) پر دھیان دینا چاہیئے کیونکہ جب حکومت کی خرابی سے عوام خاص کر طلبہ کو گھاؤ لگتا ہے تو نقصانات ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں اس انگریزی لفظ ٹراما (TRAUMA) کا مطلب ہوتا تھا بدن کا گھاؤ۔ تلنگانہ کے طلباء نے جدوجہد اور تحریک کے دوران کافی زخم کھائے ہیں۔ اب اس کا مفہوم اگر حکومت کی ناکام پالیسیوں سے بدل جائے تو پھر یہ روح کا زخم ہوگا۔ طلبہ کو جب معلوم ہوجائے کہ ان کی قربانیوں سے حاصل کردہ ریاست تلنگانہ میں حکومت نے انہیں کچھ نہیں دیا ہے تو پھر ان کی روح زخموں سے بھر جائے گی ۔ دل و ما دماغ پر لگنے والا گھاؤجو یوں دیکھنے میں نظر نہیں آتا لیکن مریض کوزندگی بھر دکھ دیتاہے۔

کے سی آر کو اس مسئلہ کی جانب توجہ دینی ہوگی کہ آیا ان کی حکومت طلبہ کے جسم کے گھاؤ پر مرہم رکھتی ہے یا انہیں روح کا زخم دیتی ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے اس وقت تلنگانہ کی نئی حکومت سے کئی اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی حکومت کا یہ پہلو نہایت خوشگوار اور طمانیت بخش ہے کہ وہ گزشتہ100دن سے کچھ نہ کچھ اچھی خبریں لارہے ہیں مگر جب تک ان خبروں سے خوشی کی نہر نہیں پھوٹے گی تو سب سے پہلے طلبہ برادری ہی ناراض ہوگی۔ کے سی آر کے لئے اگر ماضی کے تجربات بہت زیادہ ہوشمندی کا تقاضہ کرتے ہیں تو انہیں اپنی حکومت کے 100دن کے بعد کی پالیسیوں پر دکھائی دینے والے کام انجام دینے ہوں گے۔ صرف یہ کریں گے یا وہ کریں گے میں دن گزر گئے، اب کردکھانے کا وقت آگیا ہے۔ کسان ان سے ناراض ہیں اور اگر طلبہ بھی ناراض ہوجائیں تو کیا ہوگا، یہ کے سی آر خود اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ جن طلبہ نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر تحریک کو پروان چڑھایا تھا، ان کی نعشوں پر سیاست کرنے والوں کو ایک وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ طلبہ کے گھروں میں اندھیرا کرنے والے سرکاری اہلکاروں اور عوامی حکومت کے محلات روشن ہیں۔ دوسرو ں کی طرح یقین سے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت ناکام ہورہی ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کے بارے میں سوچ کر کام کررہی ہے۔ یہی حال تلگودیشم حکومت کا بھی ہے، وہ جب تمام وعدوں کو پورا نہیں کرے گی تو کانگریس کو اقتدار کے قریب کرنے کا موقع دے گی۔
kbaig92@gmail.com