لیڈرشپ کا بنیادی کام اپنے ہدف کو پانا

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
لیڈرشپ کا بنیادی کام اپنے ہدف پر متحد اور منظم ہو کر اس کو حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ اس ٹارگٹ تک پہونچنے کے لئے مختلف مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ۔ ہر مرحلے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ تلنگانہ کی کامیاب لیڈرشپ کے چندر شیکھر راؤ کو تسلیم کرتے ہوئے عوام نے نئی قیادت کا ایک سالہ جشن بھی منالیا ہے ۔ شہر حیدرآباد کے شہر تلنگانہ کے ہر ضلع کو ترقی دینے کی کوشش میں سرگرم کے سی آر نے ہندوستان کے ترقی یافتہ شہروں کا جائزہ لینے کے لئے اپنے وزراء اور نمائندے روانہ کئے ۔ ان کے فرزند نے امریکہ میں سرمایہ داروں سے مل کر سرمایہ کاری کی راہیں آسان کرلی ہیں ۔ شہر حیدرآباد کو اسمارٹ سٹی کے ساتھ حسین ساگر کے اطراف بلند و بالا عمارتوں کے لئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا منصوبہ اگر کامیاب ہوتا ہے تو شہر حیدرآباد کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوگا ۔ نیویارک کا ڈان ٹاون ان میں نمبر ایک مانا جاتا ہے یہاں کی آزادی کا مجسمہ Statue of Libertyکے کنارے ایستادہ عمارتیں یہاں کی لیڈرشپ کی اپنے ہدف کو پہونچنے کی کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔ نیویارک میں میرے چند دن کے قیام کے دوران یوم تاسیس تلنگانہ کا جشن بھی اختتام پذیر ہوا۔ چیف منسٹر نے اس جشن کے ساتھ کئی وعدے بھی کئے اور ان پر عمل شروع کیا ہے ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو اور ان کی کابینہ کے وزراء کے فون ٹیپنگ کا تنازعہ پیدا ہوا ہے تو یہ مسئلہ دیرینہ مسائل پیدا کرتے ہوئے کے چندر شیکھر راؤ کے سیاسی مستقبل کو تاریک بناسکتا ہے ۔ اس لئے چیف منسٹر کے سی آر کو ثابت قدم رہتے ہوئے لیڈرشپ کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ لیڈرشپ رحم اور بے رحمی سزا اور جزا سختی اور نرمی کا عجیب امتزاج ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو میں کمزوری کے بغیر نرمی اور تشدد کے بغیر جبر والی لیڈرشپ کرنے کی عادت ہے ۔ اس لئے وہ تلنگانہ پر اپنا غلبہ بڑھانے کا کوئی بھی موقع ضائع ہونے نہیں دیں گے ۔ شہر حیدرآباد کی ترقی کے لئے منصوبوں کو پورا کرنے میں کے سی آر کو کامیاب ہونے کے لئے امریکہ اور دیگر کامیاب شہروں کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ نیویارک شکاگو کے سفر کے دوران مجھے یہاں کی لیڈرشپ میں پختگی اور اپنے عزم کو پورا کرنے کا جذبہ نظر آیا ۔ تب ہی شکاگو کو تمام دنیا کے شہریوں کا مرکز مانا جاتا ہے ۔ یہاں ہر مذہب اور رنگ و نسل اور دنیا کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں ۔ اگرچیکہ ان کی تعداد کم ہے مگر ان میں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ ہندوستان میں ریاست پنجاب کے شہریوں کی تعداد زیادہ ہے اس سے پہلے میں نے ذکر کیا تھا کہ پنجاب کے ٹیکسی ڈرائیورس یا اس طرح کے کئی غیر مقیم ہندوستانیوں نے یہاں اپنے کاروبار و روزگار کو مضبوط کرلیا ہے ۔ ان کی روزمرہ زندگی گوروں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ انفرادی تہذیب کی جھلک الگ نظر آتی ہے ۔ گوروں کے ساتھ اتنے گھل مل گئے ہیں کہ ہر ایک کے ساتھ پیار بانٹتے پھرتے ہیں اور گوروں نے بھی انھیں ترقی کا موقع دیا ہے ۔ بعض ناکام لوگ بھی ہیں جو ہنوز اپنی زندگیوں کو جد وجہد کی پٹری پر دوڑارکھی ہے ۔ شکاگو میں ہم خوشگوار موسم میں پہونچے ہیں ورنہ یہاں برفباری کے دنوں میں گھروں سے باہر نکلنا محال ہوجاتا ہے ۔ یہاں کے موسم سے لطف اندوز ہونے والے گوروں کے ساتھ کچھ دن گذارے ہیں ۔ کشادہ سڑکیں اور مضافاتی علاقوں میں آباد خوبصورت بستیوں کا نظارہ سرسبز و شاداب ماحول لکڑی سے بنی عمارتوں نے انسانوں کو پرسکون زندگی گذارنے کا ہر موقع فراہم کیا ہے ۔ شکاگو میں مساجد کی تعداد کو دیکھ کر یہاں مسلمانوں کی آبادی اور اسلام کے فروغ پانے کا اندازہ ہوتا ہے ۔ شکاگو کے دیوین اسٹریٹ یا دیوان اسٹریٹ کو غیر مقیم ہندوستانیوں کا اہم مرکز مانا جاتا ہے ۔

اس اسٹریٹ پر حیدرآباد کے لذت والے پکوان کی ہوٹلیں اور جنرل اسٹورس ہیں جنھیں دیکھ کر حیدرآباد کا ماحول اور گلی کوچے کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے ۔ یہاں مقیم حیدرآبادیوں کو ماہ رمضان میں مکہ مسجد ، مسجد چوک ، لاڈ بازار اور پتھر گٹی کی طرح نظر آتا ہے ۔ دیوان اسٹریٹ کا پورا علاقہ ماہ رمضان میں لاڈ بازار تھرگٹی کی طرح بقعہ نور بن جاتا ہے ۔ افطار سے لیکر سحر تک ہر مسجد میں مصلیوں کی تعداد کثیر ہوتی ہے ۔ افطار اور سحر کا مفت انتظام کرتے ہوئے نیکی حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔ خاص کر جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کی شب خصوصی اہتمام ہوتا ہے ۔ روزہ داروں کی تعداد بھی ان تین دنوں میں دیوان اسٹریٹ پر نظر آتی ہے ۔ غیر مقیم ہندوستانیوں کی آپسی محبت خلوص مقبولیت رکھتی ہے ۔ این آر آئیز یا ہندوستانی نژاد امریکی باشندوںکی خدمات کے چرچے ہوتے ہیں ۔ ایسے کئی خاندان بھی ہیں جو بے لوث خدمت کرتے ہوئے امریکیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں احترام کا مقام پالیا ہے ۔ امریکہ کناڈا میں غیر مقیم ہندوستانیوں کے خوشگوار واقعات اور سبق آموز وارداتیں بھی یہاں زبان زد خاص و عام ہیں ۔ ایسی کئی کہانیاں ہیں جن کو لوگ یاد کرکے خوش ہوتے ہیں تو کبھی اشکبار ہوتے ہیں ۔ خوشی اور دکھ کے ملے جلے اپنی زندگیوں کے سفر کو جاری رکھنے والوںنے امریکہ میں اپنا ایک منفرد مقام بنالیا ہے ۔ یہاں میرے حاصل مطالعہ اس واقعہ کا دکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور کناڈا میں این آر آئیز کے ساتھ کس طرح کے واقعات ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں رونما ہونے والے حادثے دوسروں کے لئے درس یا عبرت کا مقام رکھتے ہیں ۔ کناڈا یا امریکہ میں اس واقعہ کو بھی اکثر سراہا جاتا ہے ۔ یہ واقعہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کا ہے ۔ سردار اور سردارنی دونوں گوروں میں بے حد مقبول تھے ، دونوں کی شکل و صورت خاص بھی نہیں تھی لیکن ان میں محبت زیادہ تھی ۔ ایک دوسرے کے بغیر ایک لمحہ جدا رہنے کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ اپنے اڑوس پڑوس میں بھی فراخدلی سے محبت بانٹتے ، لوگوں کی خدمت کرتے رہتے تھے ۔ پورے محلہ کے بچوں میں بھی یہ شہرت رکھتے تھے کیوں کہ یہ بچے ہی ان کی زندگی کی جان تھے ۔ محلے کے بچوں سے یہ دونوں بے انتہا محبت اس لئے بھی کرتے تھے کیوں کہ شادی کے بارہ سال بعد بھی انھیں اولاد نہیں ہوئی تھی ۔ سردار اور سردارنی بغیر اولاد کے زندگی کا دکھ برداشت کرکے دن گذار رہے تھے تو اچانک سردارنی کی طبیعت خراب ہوگئی ۔ سردار جی اپنی نیک بخت چہیتی بیوی کو لیکر دواخانے پہنچے تو یہاں ان کے لئے سب سے بڑا دھماکہ ہوا کہ ڈاکٹروں نے بتایا کہ سردارنی ماں بننے والی ہے ۔ دونوں اس خوش خبری کو سن کر پاگل ہوگئے جبکہ دوسری طرف پورے علاقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ سردارنی اور سردارجی کے گھر پھولوں اور مبارکبادیوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ لاولد جوڑے کا صاحب اولاد ہونے کا جشن گھر گھر منایا گیا ۔ اس واقعہ کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ 9 ماہ پورے ہونے تک روز کسی نہ کسی کے گھر میں پارٹی ہوتی جس میں دونوں میاں بیوی کو خصوصی عزت کے ساتھ مہمان بنایا جاتا ۔ اس جشن میں گورے بھی پیش پیش رہتے تھے ۔ پارٹی کرنے والوں کی طرف سے ڈھیر ساری دعائیں ہوتیں کہ سردار و سردارنی کو کوئی لڑکا ہونے کی تو کوئی لڑکی ہونے کی دعا کرتا مگر اس جوڑے کو تو اولاد ہونے کی خوشی ہی کافی تھی ۔ اس جشن بھرے ماحول میں آخر وہ دن آہی گیا اور دواخانہ میں ایک اور دھماکہ ہوا ، پوری بستی میں سکتہ طاری ہوگیا کیونکہ کالے رنگ اور خراب ناک نقشہ کے سردار جی اور کالی کلوٹی بھدی سردارنی کو جو لڑکی پیدا ہوئی اس کا رنگ بالکل سفید گورا بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں ۔ انگریزوں کی بچی دکھائی دے رہی تھی ۔ سردارنی کی گود میں انگریز بچی کو دیکھ کر سب حیران ہورہے تھے ۔

لوگوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ کسی نے صرف فون پر ہی مبارکباد دے کر سردار کو شک کے دائرے میں لاکھڑا کردیا ۔ سردار کواپنی سردارنی پر شک ہونے لگا اس کے چہرے سے خوشی غائب ہوگئی ۔ آنکھوں سے چمک اور ہونٹوں سے مسکراہٹ یوں غائب ہوگئی کہ پھر کسی نے سردار جی کو خوشگوار موڈ میں نہ دیکھا لیکن سردارنی سنبھل گئی ۔ اس کے چہرے پر حیرت تو تھی لیکن اس کو کوئی ندامت یا شرمندگی نہیں تھی وہ اپنی بچی میں خوش تھی لیکن سردار کا شک بڑھتا گیا اس نے گھر سے باہر نکلنا ، لوگوں سے ملنا جلنا ترک کردیا ۔ کچھ دنوں بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ سردار یہ علاقہ چھوڑ کر جانا چاہتا ہے لیکن سردارنی اس علاقہ کو چھوڑنے سے انکار کررہی تھی وہ بضد تھی کہ دونوں اس علاقہ میں رہیں گے اور اپنے ضد پر ڈٹی رہی اور کہا کہ میں نے کوئی پاپ نہیں کیا ہے اے سردار تو مجھ پر اعتبار کر یہ لڑکی تیری ہی اولاد ہے ۔ اس طرح دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کشمکش کا سلسلہ دو سال تک جاری رہا ۔ لوگ پریشان تھے خوشیاں ختم ہوگئی اور اداسیوں نے اپنا گھر بنالیا تھا ۔ ہر گھر میں یہی کیفیت تھی ۔ بچی جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اسکا رنگ و روپ مزید نکھرنے لگا ۔ سردار جی کی بے چینی بڑھتی گئی ۔ دونوں کی خاموشی سارے علاقہ کو بھی غم زدہ کررہی تھی ۔ شکی سردار جی نے فیصلہ کیا کہ بچی کو کسی دوسرے شہر لے جا کر اس کا ڈی این اے ٹسٹ (DNA) کرائے ۔ یہاں سردار کو رپورٹ ملی کہ یہ اسی کی بیٹی ہے ۔ ایک کے بعد دیگر کئی ٹسٹ ہوئے اور تصدیق ہوئی کہ یہ سردارجی کی ہی اولاد ہے تو پھر پورے علاقہ میں غم کا ماحول ختم ہوگیا ۔ لوگوں میں خوشیاں لوٹ کر واپس آگئیں پھر سے جشن کا ماحول شروع ہوا ۔ ہر گھر میں تقریب ہوتی گئی لیکن اس مرتبہ سردارنی کا چہرہ اترا ہوا تھا وہ بجھی بجھی رہنے لگی اور جشن و خوشیاں جاری تھیں کہ ایک محفل میں سردارنی نے یہ کہتے ہوئے اپنے سردار سے مکمل علحدگی کا اعلان کیا کہ تم نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا ، اپنی برسوں کی ازدواجی خوشگوار زندگی اور پاکیزہ رشتہ کا اعتبار نہیں کیا ۔ تم نے صرف لیبارٹری کی رپورٹ کا اعتبار کیا ہے تو پھر باقی زندگی اس رپورٹ کے ساتھ ہی گذارے ۔
مغربی دنیا میں رہنے والے غیر مقیم افراد کی کئی خوشگوار و غم ناک کہانیاں ہیں ان میں سب سے افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا کی خارجہ پالیسی غیر انسانی اور دیگر اقوام کے لئے جارحیت پسندانہ ہوتی ہے ۔ امریکہ اپنے علاقہ اور شہریوں کی جتنی حفاظت کرتا ہے اتنی ہی جارحیت خارجہ پالیسی رکھتا ہے ۔ امریکہ اپنی جارحانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہی بدنام ہے دراصل اس ملک کے حکمرانوں کو اپنی کرسی بچانے کے لئے عوام کے ووٹ حاصل کرنے دوسرے ملکوں کو ڈرانے دھمکانے اور طاقت کے استعمال میں دلچسپی ہوتی ہے ۔اپنے عوام کو خوش رکھنے کے لئے ہر حکمران کو استحصالی نظام پر عمل کرنا ہوتا ہے ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے حکمرانوں میں ابھی ایک سال کے اندر ہی اپنے عوام کو خوش رکھنے کے لئے دوسروں کے ساتھ استحصالی نظام رائج کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے دیکھا جارہا ہے جو عوام کے لئے دیرپا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
kbaig92@gmail.com