لینڈ سروے کے پہلے مرحلے میں غیرمتنازعہ اراضیات کا احاطہ

اراضی کے مالکان کا تعین ، تفصیلات گرام پنچایت اور سرکاری اسکولس میں آویزاں کی جائیں گی : چیف منسٹر
حیدرآباد۔ 31 اگست (سیاست نیوز) چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے اراضی سروے کے دوران پہلے مرحلے میں تنازعات سے پاک اراضیات کے مالکانہ حقوق کا تعین کرنے کی کلکٹرس کو ہدایت دی۔ کونسی اراضی کس کی ہے۔ اس کی اور مالکین کی تمام تفصیلات گرام پنچایتوں اور سرکاری اسکولس کی دیواروں پر چسپاں کرنے پر زور دیا۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے آج پرگتی بھون میں اضلاع کے کلکٹرس، جوائنٹ کلکٹرس اور آر ڈی اوز کے ساتھ اجلاس طلب کرتے ہوئے اراضی سروے کا جائزہ لیا جس میں ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی پلاننگ کمیشن کے نائب صدرنشین نرنجن ریڈی مشن بھاگیرتا کے نائب صدرنشین وی سریکانت ریڈی حکومت کے مشیراعلیٰ راجیو شرما چیف سیکریٹری ایس پی سنگھ کے علاوہ دوسرے اعلیٰ عہدیدار موجود تھے۔ چیف منسٹر نے کہا کہ حکومت نے کسانوں کی دو فصلوں کیلئے ایک ایکر اراضی پر 8 ہزار روپئے سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن کسانوں کے مالکان حقوق کے معاملے میں محکمہ مال اور زرعی ریکارڈ کے ناموں میں تضاد پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اراضی سروے کے تحت کونسی اراضی کس کی ہے اور مالکان حقوق کس کے ہیں، اس کی وضاحت کی جائے گی۔ چیف منسٹر نے کہا کہ کسانوں کے پاس سے لاکھوں ایکر اراضی حاصل کرتے ہوئے ریلوے لائن، پراجیکٹس، سڑکیں، سرکاری دفاتر، اسکولس، ہاسپٹلس وغیرہ کی تعمیرات کی گئی ہے، تاہم یہ تمام تفصیلات ریکارڈ میں درج نہیں ہوئی ہے۔ یہ تمام اراضیات کسانوں کی تحویل میں ہونے کا ریکارڈ موجود ہے جس سے دشواریاں پیدا ہورہی ہیں۔ اراضیات کے معاملے میں شفافیت لانا ضروری ہے۔ پہلے مرحلے میں تنازعات سے پاک اراضیات کا سروے کیا جائے گا۔ ہر گاؤں میں 80% تا 95% اراضی تنازعات سے پاک ہے۔ دوسرے مرحلے میں عدالتی تنازعات کا شکار اراضیات کی نشاندہی کی جائے گی۔ سرکاری، جنگلات، مختص کردہ، انڈومنٹ اور وقف اراضیات کے علاوہ دوسری اراضیات کی تفصیلات درج کرنے کی چیف منسٹر نے کلکٹرس کو ہدایت دی۔ اراضیات کا سروے کرنے کیلئے ٹیموں کا انتخاب کرنے کی مکمل ذمہ داری کلکٹرس کو سونپ دی۔ ضرورت پڑنے پر چند افراد کا عارضی تقرر کرنے کا بھی اختیار دیا۔ اراضی سروے کیلئے کلکٹرس کو اخراجات کیلئے فی کس 50 لاکھ روپئے تک خرچ کرنے کی آزادی دی۔ کے سی آر نے کہا کہ کسانوں کو تین چیزوں، پانی، سرمایہ کاری، اقل ترین قیمت کی ضرورت ہے۔ ان تین معاملات میں کسانوں سے تعاون کیا گیا تو زرعی اغراض و مقاصد کی تکمیل ہوگی۔ حکومت ان تین چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پراجیکٹس کی تعمیرات پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ کالیشورم، پالمور، شیارام جیسے پراجیکٹس کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ مشن کاکتیہ کے ذریعہ تالابوں کا احیاء کیا جارہا ہے۔ ہفتہ میں 9 گھنٹے معیاری برقی سربراہ کی جارہی ہے۔ تلنگانہ کے 45% پمپ سیٹس کو تجربہ کے طور پر 24 گھنٹے برقی سربراہ کیا جارہا ہے۔ کسانوں کی تیار کردہ فصلوں کو اقل ترین قیمت فراہم کرنے کیلئے کسانوں کی رابطہ سمیتیوں تشکیل دی جارہی ہیں۔ ان سمیتیوں میں ایس سی، ایس ٹی پی سی اور اقلیتوں کو مناسب نمائندگی دی جائے گی جن میں خواتین کو ایک تہائی نمائندگی شامل رہے گی۔ اقل ترین قیمت کو یقینی بنانے کیلئے حکومت 500 کروڑ روپئے مختص کرے گی۔ مزید 5 تا 6 ہزار کروڑ روپئے قرض حاصل کرنے کیلئے حکومت گیارنٹی دے گی۔ کور بینکنگ کی طرز پر اراضی ریکارڈ دستیاب رکھا جائے۔ چیف منسٹر نے کہا کہ عالمی سطح پر اے ٹی ایم سے رقم نکالتے ہی آن لائن اَپ ڈیٹ ہوتا ہے اور فوری تفصیلات حاصل ہوتی ہیں۔ کروڑہا اکاؤنٹ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے تو 55 لاکھ کسانوں سے متعلق کسانوں کے ریکارڈ کو محفوظ رکھنا کیوں ممکن نہیں ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ کسانوں کے رابطہ کمیٹیوں کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 75 ہزار ہوتی ہے جو فوج کے مماثل ہے۔