لیاپ ٹاپ سے چلنے والی کابینہ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومتوں کی کارکردگی کا تقابل کرنے والوں کو یہ دیکھ کر افسوس ہورہا ہے کہ حکمرانی کے فرائض انجام دینے کی باری ابھی کسی نے شروع نہیں کی ہے۔ صرف بھاگ دوڑ کی حکمرانی کے ذریعہ عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ آندھرا نے اپنے لئے دارالحکومت کا انتخاب کرلیا لیکن تلنگانہ میں اس کا اپنا ترقی پذیر دارالحکومت ہے، اس کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کے اعلانات سے آگے کوئی قدم نہیں اُٹھ رہا ہے۔شہریوں کو روزانہ گھنٹوں برقی سے محروم کرکے چیف منسٹر ہر روزحیدرآباد کو عالمی درجہ کا خواب دکھا رہے ہیں۔ بلدیہ کی کارکردگی کا کوئی پرسان حال نہیں، اس لئے شہریوں کو درپیش مسائل جوں کے توں ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنی ابتدائی حکمرانی میں ہی قانون کی سرزنش کا شکار ہوئے ہیں۔ فیس بازادائیگی مسئلہ یا موٹر گاڑیوں کو دوبارہ رجسٹریشن کرانے سے متعلق جی اوز کی اجرائی پر ہائی کورٹ نے شدید تنقید کرتے ہوئے ان پر حکم التواء جاری کیا ہے۔

یہ کے سی آر کی پہلی آمرانہ کوشش پر قانون کی روک لگی ہے۔ حیدرآباد کو 6تا8گھنٹے تاریکی میں غرق کرکے کے سی آر عوام کو جھوٹے خواب دکھانے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے کے سی آر پر کڑی نظر رکھی ہے۔ اس لئے ان کا پہلا گھر گھر سروے پروگرام بھی سرد خانے کی نذر معلوم ہوتا ہے۔ اس ایک روزہ گھر گھر سروے کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے اور نہ ہی ریاست کے شہریوں کا ڈاٹا جاری کیا گیا ہے جبکہ سروے سے قبل کہا جارہا تھا کہ اس ڈاٹا کو 15دن کے اندر ویب سائٹ پر پیش کیا جائے گا۔ عام طور پر عوام کو دھیرے دھیرے محسوس ہورہا ہے کہ تلنگانہ کے حق میں جدوجہد کا کوئی ثمر نہیں ملے گا اور ٹی آر ایس کو ووٹ دے کر انہوں نے بھیانک غلطی کی تھی۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندر شیکھر راؤ کی شاہ خرچیاں بھی عام ہورہی ہیں اور فضول مصارف کے خلاف احتجاج بھی ہورہا ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر کیمپ آفس کی تعمیر کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جبکہ نئی ریاست کو اپنی بہترین شروعات کے لئے محتاط اقدامات کے ذریعہ مالیاتی موقف کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاست کے سربراہ کی شاہ خرچی سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ بہت جلد سرکاری خزانہ خالی کرکے عوام پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈالنے والے ہیں۔
تلنگانہ عوام کی بڑھتی بے چینی کے درمیان حیدرآبادیوں کو روزانہ 6تا8 گھنٹے برقی سے محروم کردیا جارہا ہے۔ حکومت بظاہر داخلی عوامل اور کمزوریوں کی طرف کم توجہ دے رہی ہے اور سازشی نظریات پر ضرورت سے زیادہ یقین کررہی ہے تو یوں سمجھئے کہ تلنگانہ عوام کو آنے والے دنوں میں تلخ حالات اور واقعات کے باعث پریشان ہونا پڑے گا۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش نے اپنے علاقہ کی ترقی اور نئے دارالحکومت کے اطراف کی زمینات کے ذریعہ ریاست کے حق میں دولت بٹورنے کا انتظام کرلیا ہے اس لئے آج وجئے واڑہ کی جائیدادوں کی قدر حیدرآباد کے اہم علاقوں کی جائیدادوں سے زیادہ ہے۔

اس لئے تلنگانہ کی صنعتیں آندھرا کا رُخ کررہی ہیں۔ تقریباً 3000 ڈیلرس، بزنس اور تجارتی گھرانے تلنگانہ سے نکل چکے ہیں اس کی وجہ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے ٹیکس راحتوں کا اعلان کیا ہے۔ دونوں ریاستوں کے عوام کو ایک دوسرے کے خلاف رسہ کشی کرنی ہے تو دوسری طرف اپنی اپنی حکومتوں کی ناکامیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بھی سامنا ہے۔ تلنگانہ میں کسانوں کے قرض معاف کرکے حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ انتخابی وعدوں کو پورا کرنا شروع کیا ہے۔ یہ خوش آئند علامت ہے مگر چندر شیکھر راؤ کو اس طرح کے انتخابی وعدوں کو پورا کرکے دکھانا بھی ہے۔ حکومت کو تلنگانہ کی سرزمین کا بوجھ اٹھانا ہے۔ زمین پر بوجھ ڈالنے والے بہت آچکے ہیں مگر اس کے بوجھ کو کم کرنے ٹی آر ایس آئی ہے تو وہ اپنے طور پر بہتر کام انجام دے سکتی ہے۔ عوام کو دن بہ دن بُری خبریں مل رہی ہیں، یہ خبریں بڑا دکھ دیتی ہیں۔ ہر روز حکومت کی ناکامیوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اس نئی ریاست اور نئی حکومت کے سامنے جو دکھ ودرد اس بات کا ہے کہ ایک روز سانحہ ہوجائے گا۔ عوام کے لئے ضروری ہے کہ وہ حکومت پر کڑی نظر رکھیں۔

سیما آندھرا میں نئی حکومت کو اپنی کارکردگی کے لئے عصری ٹکنالوجی اور کمپیوٹر کے استعمال میں سب سے آگے جانے کی فکر ہے اس لئے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے سرکاری کاموں کو کاغذی کارروائی کے بغیر انجام دینے کی ہدایت دی ہے۔ جس کے بعد آندھرا کے تمام وزراء نے اپنے اپنے لیاپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ کمپیوٹرس پر کابینہ کا ایجنڈہ پیش کیا ہے۔ آندھرا کی ای کابینہ نے سنسنی پیدا کرتے ہوئے نہ صرف کابینی وزراء کو حیرت زدہ کردیا بلکہ وزیر اعظم کے دفتر نے بھی اس طرح کی ای کابینہ کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ آندھرا کی حکومت نے پہلی مرتبہ ای کابینہ منعقد کی جو شاید نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں سب سے پہلا مظاہرہ ہے۔ چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کو کمپیوٹر اور ای ٹکنالوجی کے ویژن میں مقبولیت حاصل ہے اس لئے انہوں نے سیما آندھرا کی حکومت کو ای گورننس بنانے میں پہل کی ہے۔ آندھرا کی حکومت اب سرکاری کاموں میں کاغذی کارروائیوں سے پرہیز کرے گی۔ کابینہ میں بھی کوئی وزیر اپنی جانب سے کاغذات پیش نہیں کرے گا بلکہ لیاپ ٹاپ یا ٹیبلیٹ کی مدد سے اپنا ایجنڈہ پیش کرے گا۔ کابینہ کے اجلاس میں ایک وزیر نے باہر جاکر چند کاغذات لانے کی کوشش کی تو چیف منسٹر نائیڈو نے ان سے کہا کہ وہ اپنے ٹیبلیٹ کمپویٹر پر اس کو ڈاؤن لوڈ کرلیں۔ اس طرح آندھرائی حکومت کاغذ کے بغیر کام کرکے کاغذی گھوڑے دوڑائے گی یا کارکردگی کے مظاہرہ کے بعد تلنگانہ حکومت کے لئے مثال قائم کرے گی۔ چیف منسٹر تلنگانہ کو ای گورننس کے بارے میں زیادہ دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ اگرچیکہ تلنگانہ کا دارالحکومت ای حکمرانی کیلئے مقبول ہوچکا ہے۔

تلنگانہ کے وزراء اور قائدین کو لیاپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ کے استعمال کی عادت ڈالنے کے لئے خاص تربیت کی ضرورت ہوگی۔ اگرچیکہ آندھرا کے کئی قائدین کو اپنے لیاپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ کو آپریٹ کرنے میں دقت پیش آئی ہے ایسے میں عہدیداروں نے انہیں بتایا کہ لیاپ ٹاپ کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ جو حکومت لیاپ ٹاپ کے استعمال کے ذریعہ حکمرانی کے فرائض انجام دے گی اس کی حکومت میں عوام الناس کو کوئی مسائل درپیش نہ ہوں تو یہ مناسب ہے، مگر حکومت صرف لیاپ ٹاپ استعمال کرتی رہے گی اور عوام کے مسائل حکومت کی لاپرواہی سے عوام کی گود میں جھولتے رہیں تو اس طرح کی ای حکمرانی کا کیا فائدہ ہوگا۔ تلنگانہ کی حکومت کو ای حکمرانی سے گذرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کے سی آر کے پاس بھی وزراء کی صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں ہے، لیکن تلنگانہ میں ایسے کتنے وزیر ہیں جنہیں لیاپ ٹاپ یا ٹیبلیٹ آپریٹ کرنا آتا ہوگا، اگر نہ بھی آئے تو وہ سیکھ بھی لیں گے۔ نئی ریاست میں کئی لوگوں کو بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ عوم کو اپنی منتخب حکومت کی پالیسیوں پر عمل آوری کا انتظار ہوگا۔ اگر پالیسیاں دھری کی دھری رہ جائیں تو یہ عوام کو بھی سبق ملے گاکہ افسوس کہ ووٹ دینے میں غلطی کی تھی۔
kbaig92@gmail.com