لڑکیوں کی جماعت کیلئے اذان

سوال :  مجھے پانچ لڑکیاں ہیں، سب کے سب صوم و صلوۃ کی پابند ہیں، میری بڑی لڑکی حافظہ ہے ، دوسری دو لڑکیاں بھی سورۃالبقرہ اور سورۃ آل عمران حفظ کرچکی ہیں، کالج میں آنے کے بعد سے وہ قرآن کا دور کرنا چھوڑ دیئے ہیں، ان کی مشق کیلئے گھر میں وہ لوگ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھتے ہیں اور روزانہ ایک ایک لڑکی پاؤ پارہ قرآن مجید پڑھتی ہے جس کی وجہ سے ان کی والدہ ، دادی اور چاچی جماعت میں شریک ہوجاتی ہیں۔
دریافت کرنا یہ ہے کہ کیا اس جماعت کیلئے اذان اور اقامت دینا درست ہے یا صرف اقامت کافی ہے ؟
محمد عبدالشکور، یاقوت پورہ
جواب :  شرعاً نماز کیلئے جماعت مردوں کیلئے مشروع ہے ، خواتین کیلئے نہیں۔ اس لئے خواتین اگر جماعت بنا بھی لیں تو ان کیلئے اذان اور اقامت نہیں ہوگی ۔ بدائع الصنائع جلداول ص : 376 میں ہے : ولا اذان ولا اقامۃ فی جماعۃ النسوانِ والصبیان والعبید لان ہذہ الجماعۃ غیر مستحبۃ وقد روی من النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال : لیس علی للنساء اذان ولا اقامۃ ولا نہ لیس علیھن الجماعۃ فلا یکون علیھن الا ذان والاقامۃ۔
نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
سوال :  ایک اہم مسئلہ سے متعلق آپ سے دریافت کرناہے کہ میری دوست ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے ، سمجھدار ہیں، وہ بار بار مجھ سے خواہش کرتے ہیں کہ میں نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے نہ باندھوں، ان کا دعویٰ ہے کہ یہ حدیث اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔ آپ سے خواہش ہے کہ اس ضمن میں کوئی حدیث یا صحابہ کرام کا عمل ہو تو بیان فرمائیے ؟
محمد خالد ، ای میل
جواب :  حالت قیام میں سیدھا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا مسنون ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں پیغمبران کرام کی سنتوں سے ہیں ۔ (1) افطار میں عجلت کرنا (2) سحر میںتاخیر کرنا (3) نماز میں بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے تھامنا ۔ امام بیھقی نے اس کی روایت ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مرفوعا کی ہے ۔ اس روایت کو امام احمد نے مسند احمد میں درج ذیل اضافہ کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ ’’وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ فی الصلاۃ۔ یعنی دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر نماز میں ناف کے نیچے رکھنا (انبیاء کرام کی سنت ہے) تفصیل کیلئے دیکھئے : مسند امام احمد بن حنبل (110/1) ، سنن ابو داود حدیث نمبر (756) ، سنن دار قطنی (186/1) ، امام بیھقی نے سنن کبری (21/2) میں حضرت علی مرتضی کرام اللہ وجہہ مرفوعاً ان الفاظ سے روایت کی ہے ’’من السنۃ وضع الیمنی علی شمال تحت السرۃ ‘‘ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا مسنون ہے ۔ بدائع النصائع جلد اول ص : 470 میں ہے کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ۔ ’’واما فی صلاۃ الجنازۃ ، فالصحیح ایضاً انہ یضع ، لماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ صلی علی جنازۃ و وضع یمینہ علی شمالہ تحت السرۃ۔
طلاق بائن اور قاضی صاحب
سوال :  میرے فرزند کی شادی کے اندرون دو ماہ دونوں میاں بیوی میں اختلافات اس قدر ہوگئے کہ لڑکی (بہو) نے قاضی صاحب کے دفتر سے رجوع ہوکر خلع کا پیشکش اپنے شوہر کو کیا۔ قاضی صاحب بعد تفصیلی جائزہ خلع نامہ منجانب لڑکی تحریر کیا ۔ طلاق نامہ لڑکے کی جانب سے علحدہ اسٹامپ پیپر پر تحریر کیا۔ لڑکے سے قاضی نے کہا کہ تم لڑکی کو طلاق بائن دے دو۔ اگر اندرون 100 یوم (عدت) تم چاہتے ہو تو بیوی کو رجوع کرسکتے ہو ۔ بعد مرور مدت طلاق بائن طلاق ثلاثہ میں تبدیل ہوجائے گی اور رجوع کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ طلاق بائن کے الفاظ لڑکی کے روبرو لڑکے سے زبانی اور تحریری بلوائے اور لکھوائے گئے روبرو گواہان اور حضار محفل کے ۔ کیا اس معاملہ میں اندرون 100 دن لڑکی اپنے شوہر سے رجوع ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ کیا لڑکا دوسرا نکاح اندرون 100 یوم کرسکتا ہے یا کوئی شرعی عذر ہوگا۔ طلاق بائن کی شرعی حیثیت کی وضاحت چاہتا ہوں۔
عبدالستار خان، کالاپتھر
جواب :  طلاق بائن ایسی طلاق کو کہتے ہیں جس سے اسی وقت رشتہ نکاح منقطع ہوجاتا ہے ۔ اگر ایک یا دو طلاق بائن دی ہے تو اندرون عدت (تین حیض) و بعد ختم عدت جب چاہیں جدید مہر کے ساتھ دوبارہ عقد کرسکتے ہیں۔ (غیر حاملہ) مطلقہ کی عدت تین حیض ہے۔ 100 دن نہیں۔ پس صورت مسئول عنہا میں شوہر نے بیوی کی درخواست خلع کو قبول کرتے ہوئے ایک طلاق بائن دی ہے تو دونوں میں رشتہ نکاح ختم ہوگیا ۔ شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ البتہ اندرون عدت (تین حیض) دونوں راضی ہوں تو بقرار مہر جدید دوبارہ عقد کرلے سکتے ہیں۔ قاضی صاحب کا عدت طلاق (100) دن بیان کرناعدم علم پر مبنی ہے ۔ قاضی حضرات اس جانب توجہ دیں۔ نیز طلاقِ بائن کے بعد شوہر کو رجوع کا حق قطعاً نہیں رہتا۔ قاضی صاحب کی طلاق و خلع سے متعلق عدم واقفیت ذمہ دار اصحاب کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ ان کو اس بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔
اہلیہ کے نام مکان کرنا
سوال :  میرے بڑے بھائی (مرحوم) تین کمروں کا آر سی سی مکان اپنے بیوی کے نام گفٹ رجسٹرڈ کئے ہیں۔ حال ہی میں بھابھی کا انتقال ہوا۔ ان کو کوئی اولاد ن ہیں۔ دونوں دیور ہے، جو دیکھ بھال کئے ہیں۔ بیماری میں بھی ساتھ دیئے ہیں جو دونوں دیوروں کے پاس ہی رہتے تھے ۔ مکان کی تقسیم کیسے کریں جبکہ بھابھی (مرحوم) کی ایک بہن اور دو بھائی ہیں۔
نوٹ : بھابھی خود اپنی بہن کا رشتہ ا پنے چھوٹے دیور سے کئے ہیں۔ شریعت کے لحاظ سے اس کا جواب دیں۔ بھائی صاحب کے انتقال کے بعد بھابھی خود اپنے دو دیور اور بہن کے پاس ہی رہتے تھے۔
مومن خان ، ورنگل
جواب :  شرعاً ہبہ میں قبضہ ضروری ہوتا ہے ۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 4 کتاب البتہ میں ہے ۔ و تتم الھبۃ بالقبض ا لکامل ۔
پس آپ کے بھائی نے اپنا مملوکہ مکان اپنی اہلیہ کے نام کر کے ان کے مکمل قبضہ و تصرف میں دیدیا تھا ۔ اپنا قبضہ بالکلیہ ختم کردیا تھا تو قبضہ کے ساتھ ہی آپ کی بھاوج اس کی مالکہ ہوگئیں۔ ان کے انتقال پر وہ مکان ان کا متروکہ قرار پایا جس کے بعد تقدیم ماتقدم علی الارث جملہ پانچ حصے کر کے مرحومہ کے دونوں بھائیوں کو دو دو ، بہن کو ایک حصہ دیا جائے۔ اور اگر آپ کے بھائی صرف اہلیہ کے نام گفٹ رجسٹری کئے لیکن ان کے قبضہ میں نہیں دیئے اپنا قبضہ برقرار رکھے تو محض نام پر کرنے سے وہ مکان آپ کی بھاوج کا نہیں ہوا کیونکہ ہبہ میں قبضہ ضروری ہے۔ وہ مکان عدم قبضہ کی بناء بھائی کے انتقال پر ان کا متروکہ ہے جو ان کے ورثہ میں حسب احکام شریعت تقسیم ہوگا ۔ جس میں ان کی بھاوج کو مہر کے علاوہ ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔ مابقی تین چوتھائی آپ کے بھائی کے ورثہ میں تقسیم ہوگا ۔ بھاوج کے انتقال کی بناء وہ ایک چوتھائی حصہ ان کے بھائی اور بہن میں فی بھائی دو اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔
سفر کی دعائیں
سوال :  جب ہم سفر شروع کرتے ہیں تو سفر کی دعاء پڑھتے ہیں ۔ بعض کتابوں میں سفر کی دعاء کچھ لکھی ہوتی ہے اور بعض کتابوں میں دوسری دعائیں ہوتی ہیں ۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ صحیح طور پر سفر کے موقع پر کی جانی والی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دعائیں بیان کریں تو مہربانی ہوگی اور سفر کو روانگی کے وقت دعاء پڑھی جاتی ہے ۔ کیا سفر کی واپسی کے وقت اور سفر کے دوران جو کچھ دعائیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں تو وضاحت فرمائیں ؟
فردوس آفرین، مراد نگر
جواب :  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے اور سواری کے رکاب پر اپنے قدم مبارک رکھتے تو آپ بسم اللہ  فرماتے ، پھر جب سواری پر اچھی طرح بیٹھ جاتے تو یہ دعا فرماتے : ’’ سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِینَ وَ اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ۔ الحمدللہ (تین مرتبہ ) اللہ اکبر (تین مرتبہ)  لاَ اِلٰہَ اِلّاَ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِینَ سُبْحَانَکَ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْلِی فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ اِلّاَ اَنْتَ (ابن قیم : زاد المعاد ، 245:3 ، ابو داؤد 77:3 ، حدیث 2602 ) ، یعنی وہ ذات پاک ہے جس نے ہمارے لئے  اسے قابو میں کیا ، ورنہ ہم اسے تابع نہ کرسکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کی جانب ہی لوٹنے والے ہیں، تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ، کوئی معبود نہیں۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بے شک میں ظالم ہوں تو پاک ہے ، میں نے خود پر ظلم کیا تو میرا گناہ بخش دے ، اس لئے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔
اسی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کے بعد مسکرائے ، پوچھا گیا تو فرمایا : ’’ خدا اپنے اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو یہ کہتا ہے (اے رب) میرے گناہوں کی مغفرت فرما ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا ‘‘ (الترمذی ، 501:5 ، حدیث 3446 ) ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے مطابق  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بیٹھ جانے کے بعد یہ دعا پڑھتے : اللہ اکبر (تین مرتبہ) ، سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِینَ وَ اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ فِی سَفَرِنَا ھٰذَا اَلْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَاتَرْضٰی ، اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَ اطْوِ عَنَّا بُعْدَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِ ، اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِنْ وَ عَثَائِ السَّفَرِ وَ کَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَ سُوْئِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَھْلِ، یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اسے تابع کیا ۔ ورنہ ہم اسے قابو کرنے والے نہ تھے اور ہم اپنے پروردگار کی طرف ہی لوٹنے والے ہیں، اے اللہ ہم ا پنے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ اور تیرے پسندیدہ عمل کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ہمارے لئے اس سفر کو آسان فرما۔ اس کی دوری کو لپیٹ دے ، اے اللہ تو ہی سفر میں ہمارا ساتھی ہے ، گھر والوں میں ہمارا نائب ہے ، اے اللہ میں سفر کی صعوبتوں ، برے منظر اور گھر والوں اور مال میں برے حالات سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔
جب سفر سے واپسی ہوتی تو یہ اضافہ فرماتے : آئبون ان شاء اللہ تائبون عابدون لربنا حامدون (مسلم ، 978:2 ، حدیث 1342 ، معمولی اختلاف کے ساتھ : الترمذی ، 502:5 ، حدیث 3438 تا 3439 ) یعنی لوٹنے والے ، اگر اللہ نے چاہا توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے اور اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں۔ دوران سفر ہر بلندی پر چڑھتے اور ہر نشیب کی طرف اترتے ہوئے تکبیر کا ورد جاری رکھتے  تھے (الترمذی، 500:5 ، حدیث 3445 ) ۔ جب کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو فرماتے : ’’ اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق ‘‘ (کتاب مذکور ، ص 496 ، حدیث 3437 ) یعنی میں تمام کامل کلمات کے ساتھ ، ہر اس شئے کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو اس نے پیدا کی ۔