لڑکیوں کو بالکلیہ محروم کرنا گناہ ہے

سوال : میرے والد محترم کو 2 لڑکے اور 4 لڑکیاں ہیں اور میری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ میرے والد محترم کے 2 عدد مکانات ، 1 عدد دوکان ہے، ایک سال قبل میرے والد نے 2 مکانات میرے 2 بھائیوں میں قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کرچکے ہم چار بہنوں میں کوئی رقم تقسیم نہیں کئے اور نہ ہی رقم دینے کا وعدہ کیا اور اب حال ہی میں والد صاحب اور ہمارے بھائیوں نے مل کر 70 سالہ قدیم دوکان کثیر رقم کے عوض دوسروں کو دینے کا معاہدہ طئے کر کے بطور اڈوانسڈ کچھ رقم لے چکے ہیں اور بعد میں قبضہ دے کر رقم لینے والے ہیں اور ہم نے والد صاحب اور بھائیوں کی زبانی یہ کہتے ہوئے سنا کہ دوکان میں سے کوئی رقم بہنوں کو نہیں ملے گی۔
مہربانی فرماکر قرآن اور حدیث کی رو شنی میں فتویٰ دیں کہ ہم چار بہنوں کو دو مکانات اور ایک دوکان میں سے بطور شرعی حساب کتنا حصہ ملے گا یا صرف مکانات سے یا مکانات اور دوکان سے دونوں میں حصہ ملے گا تو کتنا حصہ ملے گا ؟
عطوفہ بانو، مراد نگر
جواب : صاحب جائیداد کا اپنی زندگی میں جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا درحقیقت ہبہ ہے۔ وہ حسب مرضی تمام اولاد میں سب کو برابر برابر یا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ کسی کو نقصان پہنچانے کا قصد نہ ہو ورنہ بلا لحاظ ذکور و اناث سب کو برابر برابر دینے کا حکم ہے ۔ اولاد میں بعض کو دیکر بعض کو بالکلیہ محروم کردینا گناہ ہے۔
در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 4 کتاب الھبتہ میں ہے : وفی الخانیۃ لابأس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ لانھا عمل القلب و کذا فی العطایا ان لم یقصدبہ الاضرار وان قصدہ یسوی بینھم یعطی البنت کلابن عندالثانی و علیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز واثم۔ لہذا مذکور السئوال صورت میں صاحب جائیداد کا اپنے مکانات اور دوکان نرینہ اولاد میں تقسیم کرنا اور لڑکیوں کو مال و متاع جائیداد سے بالکلیہ محروم کرنا شرعاً گناہ ہے۔ لڑکیوں کو کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہئے ۔

نیم حکیم
سوال : میرا سوال یہ ہے کہ میرے محلہ میں نیم حکیم لوگ (Fake doctors) پراکٹس کر رہے ہیں جو کہ مردانہ طاقت کی دوا کے نام پر صرف اور صرف ’’ سہاگرا‘‘ ٹیابلٹ کو پیس کر کیپسول کی شکل دیکر عوام الناس و معصوم نوجوانوں کو گمراہ کر کے پیسہ بٹور رہے ہیں۔مزید یہ کہ یہ دوا (سہاگرا) انسانی جگر و گردہ کیلئے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ کیا ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں تو خدائی ناراضگی کا سبب ہوگی یا انسانی خدمت براہ کرم مفصل جواب عنایت کیجئے۔
عاکف، ملے پلی
جواب : واقعی وہ لوگ نااہل و غیر مستند اور ناتجربہ کار ہیں اور ان کی دوا سے نقصانات کا اندیشہ قوی ہے تو آپ کو چاہئے کہ حکمت اور سنجیدگی سے متعلقہ افراد کو منع کریں اور وہ افہام و تفہیم کے باوجود باز نہ آئیں تو ان کے خلاف ضروری کارروائی کرنا خلاف شرع نہیں۔ نیت میں اخلاص ہو تو اجر و ثواب کا موجب ہے۔

کیا سید کی بیوی‘ سید ہوتی ہے ؟
سوال : اگر کوئی شخص سید ہو اور اس کی بیوی شیخ ہو کیا سید کی بیوی بھی سید کہلائیگی۔ اگر کوئی زکوۃ و صدقات سید کی بیوی کو دے تو کیا وہ لے سکتی ہے اور کسی مرحومہ کی برسی کے موقع پر مرحومہ کے یا دوسرے کپڑے وہ لے سکتی ہے۔ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
عبیدہ بیگم، بارکس
جواب : زکوۃ اور صدقات واجبہ مثلاً فطرہ وغیرہ سادات بنی ہاشم کو دینا درست نہیں۔ کوئی خاتون سادات بنی ہاشم سے نہ ہو البتہ اس کا نکاح کسی سید سے ہوجائے تو سید سے نکاح کی وجہ سے وہ سادات بنی ہاشم میں شامل نہیں ہوگی۔ اگر وہ مستحق زکوۃ ہے تو اس کو زکوۃ اور صدقات واجبہ دے سکتے ہیں اور وہ خاتون زکوۃ کی رقم لیکر اپنے شوہر اور اولاد پر خرچ کرے تو شرعاً جائز ہے۔
مرحومہ کے کپڑے یا برسی کے موقع پر اگر کوئی ضرورتمند کوایصال ثواب کیلئے کپڑے دینا چاہتا ہے تو یہ نفل صدقات سے ہوگا اور صدقات نافلہ ضرورتمند کو دے سکتے ہیں۔ سید و غیر سید کی کوئی تخصیص نہیں۔

نکاح میں ’’ کفو‘‘ کا سبب
سوال : ایک مسئلہ میں مجھے ایک عرصہ سے اشکال ہے‘ اگر آپ اس کو دور فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔ یہ مشہور ہے کہ اسلام میں عظمت و فضیلت صرف تقوی کی وجہ سے ہے ‘ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں ۔ نمازمیں آقا و غلام ‘ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلام نے دنیا کو مساوات کا درس دیا ہے تو نکاح کے مسئلہ میں ’’ کفو‘‘ کا اعتبار کیوں کیا گیا۔ کیا صرف مسلمان ہونا کافی نہیں ہے ؟ کیا یہ اسلام کے درس مساوات کے خلاف نہیں ہے کہ مرد ‘ عورت کا برابر ہو۔اس بارے میں اگر آپ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں گے تو نوازش ہوگی۔
نام …
جواب : شریعت مطھرہ میں نکاح کے احکام پر غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان رشتہ نکاح مستحکم ہو اور ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی و موافقت ہو تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوشحال رہے اور جب رشتے بے میل اور بے جوڑ ہوتے ہیں تو بالعموم زوجین میں موافقت اور ہم آہنگی باقی نہیں رہتی اور یہی چیز عموماً رشتہ نکاح کے ٹوٹنے کا سبب بن جاتی ہے اور بے جوڑ رشتے لڑکی کے خاندان والوں کے لئے شرمندگی و عار کا سبب بن جاتے ہیں اس لئے شریعت میں کفو کے مسئلہ کو اہمیت دی گئی کہ لڑکا نسب ‘ حریت ‘ اسلام ‘ دینداری ‘ مال ‘ پیشہ میں عورت کے برابر یا اس سے بہترہو اور یہ حکم صرف دنیوی مصلحتوں کی وجہ سے ہے۔ اخروی فضیلت کا دارومدار تو تقوی وپرہیزگاری پر ہے ۔ امام کردری صاحب فتاوی بزازیہ نے مناقب امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جلد دوم صفحہ 240 میں لکھا ہے: بل أمراشتراط الکفاء ۃ لتحقق المقاصد المطلوبۃ من النکاح من انتظام المصالح والمعاش فان الزوج یعلو علیھا بحکم المالکیۃ وھی تتعاظم بحکم ما فیھا من الشرف والدعۃ فلا یلتئم کل التصرف فانہ المقصد الاصلی والحکم الموضوع فلا یعادلہ ۔ پس خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو نگران بنایا‘ بیوی پر ایک درجہ فضیلت عطا کی اور بیوی جب شوہر سے حسب نسب مال و پیشہ وغیرہ میں اعلیٰ ہو تو شوہر اپنی بلندی ظاہر کرنا چاہے گا اور بیوی اپنے آپ کو اس سے بلند متصور کریگی اور دونوں میں میل اور ہم آہنگی باقی نہیں رہے گی اسی وجہ سے شریعت میں کفو کو مقرر کیا گیا ہے اور یہ حکم اسلامی مساوات کے منافی یا مخالف نہیںہے۔

اہل کتاب کا ذبیحہ
سوال : میں مغربی ممالک میں رہنے والاہوں۔ ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہاں کا گوشت کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟ اکثر مسلمان Wallmart پر سے گوشت لیتے ہیں اور یہاں کے ہوٹلوں میں بھی عام گوشت کھاتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہاں کا گوشت حلال ہے لیکن بعض مسلمان ذبیحہ گوشت کا اہتمام کرتے ہیں۔
آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ کیا صحیح بھی امریکہ کے گوشت کو ہم بلا تحقیق کھاسکتے ہیں کیونکہ یہاں پراکثر عیسائی ہوتے ہیں۔
محمد یاسر ‘ ای میل
جواب : شریعت مطھرہ میں ایسے حلال جانور کے کھانے کی اجازت ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’وکلوا مما ذکر اسم اللہ علیہ (سورۃ الانعام 118/6 ) کھاؤ۔ ان جانوروں سے جن پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہے اور جن کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے وہ شرعاً حرام ہیں۔ ’’ وما أھل بہ لغیراللہ (سورۃ المائدہ 3/5 ) اور ایسے جانوروں کا گوشت کھانے کی سخت ممانعت ہے : ولاتأکلوا ممالم یذکراسم اللہ علیہ )سورۃ الانعام 121/6)
ایسے جانوروں کا گوشت نہ کھاؤ جن پر اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا۔ اہل کتاب یہود و نصاری اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے حقیقی عقیدہ میں خدا کی الوہیت و وحدانیت کے قائل ہیں اس لئے شریعت میں ان کے ذبیحہ کو حلال کہا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ’’ و طعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم‘ (سورہ المائدۃ 5/5 ) اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے ۔نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہ صرف اس کی اجازت دی بلکہ آپ نے یہودی کی دعوت کو قبول فرمایا جس میں گوشت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اس کو تناول فرمایا۔ پس صورت مسئول عنہا میں یہود و نصاری اگر ہمارے سامنے ذبح کریں یا ہمارے غائبانہ میں ذبح کریں مگر ہم کو گمان غالب ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے ذبح نہیں کرتے ہیں لیکن وہ ذبح کا عمل کرتے ہیں تو اس حالت میں ان کے ذبیحہ کا گوشت کھانا حلال ہے اور اگر یہ معلوم ہو کہ یہودی یا نصرانی غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں یا بغیر ذبح کئے گردن مروڑ کر یا کسی اور جدید طریقے سے مثلا مشین کے ذریعہ ذبح کرتے ہیں تو ایسا گوشت کھانا حرام ہے ۔ جیسا کہ عالمگیری جلد 5 کتاب الذبائج میں ہے : انما تؤکل ذبیحۃ الکتابی اذا یشھد ذبحہ ولم یسمع منہ شئی أوشھد وسمع منہ تسمیۃ اللہ وحدہ لانہ اذا لم یسمع منہ شئی یحمل علی أنہ قدسمی اللہ تعالیٰ تحسینا للظن بہ کما بالمسلم۔
اگر بوقت ذبح نصرانی حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت مریم علیھا السلام کانام لے تو یہ گوشت حرام ہے ۔ ولو سمع منہ ذکر اسم اللہ تعالیٰ لکنہ عنی باللہ عزوجل المسیح علیھا سلام قال تؤکل الا اذا نص فقال بسم اللہ الذی ھوثالث ثلاثۃ فلا یحل فاما اذا سمع منہ انہ سمی المسیح علیہ السلام وحدہ اوسمی اللہ سبحانہ وسمی المسیح لا تؤکل ذبیحتہ ۔ مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں پہلے تحقیق کرلی جائے‘ بعد تحقیق جو ثابت ہو اس پر عمل کیا جائے۔

سکرات میں تلقین
سوال : جو لوگ سکرات میں ہوتے ہیں‘ ان کو کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے ۔ شریعت میں تلقین کا کیا حکم ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اگر شریعت میں اس کی کوئی فضیلت آئی ہے تو بیان کریں؟
محمد افضل ‘ جہاں نما
جواب : آخرت میں کامیابی و سعادتمندی کا دارومدار صرف اور صرف خاتمہ بالخیر پر ہے ۔ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو وہی شحص کا میاب و کامران ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ میں جو شخص قریب الموت ہو اس کو ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم مستحب ہے ۔ ردالمحتار ج : 2 ص : 78 میں ہے : لکنہ تجوز لما فی الدرایۃ من أنہ مستحب بالا جماع۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ فانہ لیس مسلم یقولھا عندالموت الا انجتہ من النار‘‘ یعنی تم قریب الموت افراد کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو کیونکہ جو کوئی مومن موت کے وقت یہ کلمہ پڑھتا ہے۔ وہ دوزخ سے نجات پاجاتا ہے ۔ نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے : من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ‘ ‘ یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ (کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے) وہ جنت میں داخل ہوگا (ابو داؤد) اس لئے تلقین کرنا پسندیدہ ہے۔