لڑکیوں کو بالکلیہ محروم کرنا گناہ ہے

سوال : میرے والد محترم کو2 لڑکے اور 3 لڑکیاں ہیں اور میری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ میرے والد محترم کے 2 عدد مکانات ، 1 عدد دوکان ہے، ایک سال قبل میرے والد نے 2 مکانات میرے 2 بھائیوں میں قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کرچکے ہم تین بہنوں میں کوئی رقم تقسیم نہیں کئے اور نہ ہی رقم دینے کا وعدہ کیا اور اب حال ہی میں والد صاحب اور ہمارے بھائیوں نے مل کر دکان کی کثیر رقم کے عوض دوسروں کو دینے کا معاہدہ طئے کر کے بطور اڈوانسڈ کچھ رقم لے چکے ہیںاور ہم نے والد صاحب اور بھائیوں کی زبانی یہ کہتے ہوئے سنا کہ دوکان میں سے کوئی رقم بہنوں کو نہیں ملے گی۔
مہربانی فرماکر قرآن اور حدیث کی رو شنی میں فتویٰ دیں کہ ہم تین بہنوں کو مکانات اور دکان میں سے بطور شرعی حساب کتنا حصہ ملے گا یا صرف مکانات سے یا مکانات اور دوکان سے دونوں میں حصہ ملے گا تو کتنا حصہ ملے گا ؟
عاصمہ خاتون ، قاضی پورہ
جواب : صاحب جائیداد کا اپنی زندگی میں جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا درحقیقت ہبہ ہے۔ وہ حسب مرضی تمام اولاد میں سب کو برابر برابر یا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ کسی کو نقصان پہنچانے کا قصد نہ ہو ورنہ بلا لحاظ ذکور و اناث سب کو برابر برابر دینے کا حکم ہے ۔ اولاد میں بعض کو دیکر بعض کو بالکلیہ محروم کردینا گناہ ہے۔
در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 4 کتاب الھبتہ میں ہے : وفی الخانیۃ لابأس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ لانھا عمل القلب و کذا فی العطایا ان لم یقصدبہ الاضرار وان قصدہ یسوی بینھم یعطی البنت کلابن عندالثانی و علیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز واثم۔ لہذا مذکور السئوال صورت میں صاحب جائیداد کا اپنے مکانات اور دوکان نرینہ اولاد میں تقسیم کرنا اور لڑکیوں کو مال و متاع جائیداد سے بالکلیہ محروم کرنا شرعاً گناہ ہے۔ لڑکیوں کو کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہئے ۔

متولی کے شرائط
سوال : – 1 کسی قبرستان یا مسجد کیلئے متولی کا اہل ہونا لازمی ہے یا کوئی بھی عاقل بالغ مسلمان متولی بن سکتا ہے ؟ آج کل کوئی بھی متولی بن رہا ہے ۔ شرعی حکم بتلائیں۔
نام …
جواب : تو لیت کیلئے اہلیت شرط ہے، اہل ارشاد سے ہونا ضروری نہیں۔ متولی کے شروط یہ ہیںکہ وہ متدین ، امانت دار ، عاقل و بالغ اور کام کی قابلیت رکھنے والا ہو، فاسق ، فاجر اور اسراف کرنے والا پیسوں کو ضائع کرنے والا نہ ہو ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 3 کتاب الوقت میں ہے : و ینزع وجوبا و لوالواقف غیر مامون او عاجز اوظھر بہ فسق کشرب الخمر و نحوہ۔ رد المحتار میں ہے : قال فی الاسعاف ولا یولی الا امین قادر بنفسہ او بنائبہ لان الو لایۃ مقیدۃ بشرط النظر ولیس من النظر تولیۃ الخائن لانہ یخل بالمقصود و کذا تولیۃ العاجز لان المقصود لا یحصل بہ۔

نیم حکیم
سوال : میرا سوال یہ ہے کہ میرے محلہ میں نیم حکیم لوگ (Fake doctors) پراکٹس کر رہے ہیں جو کہ مردانہ طاقت کی دوا کے نام پر صرف اور صرف ’’ سہاگرا‘‘ ٹیابلٹ کو پیس کر کیپسول کی شکل دیکر عوام الناس و معصوم نوجوانوں کو گمراہ کر کے پیسہ بٹور رہے ہیں۔مزید یہ کہ یہ دوا (سہاگرا) انسانی جگر و گردہ کیلئے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ کیا ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں تو خدائی ناراضگی کا سبب ہوگی یا انسانی خدمت براہ کرم مفصل جواب عنایت کیجئے۔
مقصود احمد، مراد نگر
جواب : واقعی وہ لوگ نااہل و غیر مستند اور ناتجربہ کار ہیں اور ان کی دوا سے نقصانات کا اندیشہ قوی ہے تو آپ کو چاہئے کہ حکمت اور سنجیدگی سے متعلقہ افراد کو منع کریں اور وہ افہام و تفہیم کے باوجود باز نہ آئیں تو ان کے خلاف ضروری کارروائی کرنا خلاف شرع نہیں۔ نیت میں اخلاص ہو تو اجر و ثواب کا موجب ہے۔

امانت کی گھڑی تحفہ میں دینا
سوال : میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی قیمتی گھڑی بطور امانت اپنے بڑے بھائی کو دی تھی‘ تقریباً چار ماہ کے بعد میں نے ان سے اپنی گھڑی کی واپسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے وہ گھڑی ان کے دوست کو تحفۃً دیدی ہے۔ ان کے جواب سے میں خاموش ہوگیا۔ بڑے بھائی کے احترام میں کچھ کہہ نہ سکا لیکن آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ازروئے شرع امانت کی چیز تحفہ میں دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟
مختار خان پرانی حویلی
جواب : امانت کے طور پر رکھی گئی کوئی شئی ‘ امانت دار کی ملک نہیں ہوتی‘ اس لئے اس کا ہبہ کرنا شرعاً درست نہیں۔ عالمگیری جلد 4 کتاب الودیعہ باب اول میں ہے : واما حکمھا فوجوب الحفظ علی المودع و صیرورۃ المال أمانۃ فی یدہ ووجوب ادائہ عند طلب مالکہ کذا فی الثمنی
پس صورت مسئول عنہا میں آپ نے اپنی گھڑی بطور امانت اپنے بھائی کے پاس رکھی تھی تو اس کی حفاظت اور بوقت طلب اس کی ادائی ان پر واجب تھی‘ انہوں نے اپنے دوست کو جو ہبہ کیا وہ شرعاً درست نہیں۔

جائیداد کی تقسیم
سوال : زید کا انتقال ہوا‘ زید کی بیوی پہلے ہی فوت ہوچکی تھی‘ ورثہ میں پانچ لڑکے اور ایک لڑکی ہے اور سب شادی شدہ ہیں۔ ایسی صورت میں زید مرحوم کے متروکہ کی تقسیم ان کے مذکور الصدر ورثہ میں کس طرح ہوگی ؟
نام ندارد
جواب : صورت مسئول عنہا میں تمام متروکہ زید مرحوم سے اولاً تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کر کے جس نے خرچ کئے ہیں‘ اس کو دیئے جائیں‘ پھر مرحوم کے ذمہ قرض ہو تو ادا کیا جائے‘ اس کے بعد مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے تیسرے حصے سے اس کی تعمیل کی جائے۔ بعد ازاں جو باقی رہے اس کے جملہ گیارہ حصے کر کے مرحوم کے پانچوں لڑکوں کو دو دو ‘ لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے ۔ واضح رہے کہ شریعت مطھرہ میں لڑکی کو لڑکے کا نصف حصہ ملتاہے ۔ اس لحاظ سے متروکۂ مرحوم کی تقسیم اولاد میں فی لڑکا دو اور فی لڑکی ایک کے حساب سے عمل میں آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین (سورۃ النساء 11/4 ) ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر حصہ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر آخرت
سوال : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کس تاریخ کو ہوئی اور آپ کے آخری مراسم یعنی غسل‘ کفن ‘ تدفین سے متعلق وضاحت کی جائے تو مناسب ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی اور کتنی مرتبہ آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ اس بارے میں تفصیلی رہنمائی فرمائیں تو موجب عنایت۔
نام …
جواب : جمہور کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دس سال پورے ہونے کے بعد پیر کے دن 12 ربیع الاول 11 ھ کو اس دنیا سے رحلت فرمائی( ابن سعد : 273-272:2 ) اس ضمن میں بعض روایات اور بھی ہیں‘ اسلام کے عظیم محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات 2 ربیع الاول 25 مئی 632 ء قرار دیا ہے۔
وصال مبارک ہوتے ہی جسم مبارک سے ایسی خوشبو مہکنے لگی کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اس جیسی خوشبو آج تک کبھی نہیں سونگھی تھی‘ یہ خوشبو میرے ہاتھوں میں کئی دن تک آتی رہی( عبدالحق محدث دہلوی : مدارج النبوۃ اردو ترجمہ ص : 646 )
تجہیز و تکفین کا کام دوسرے دن سہ شنبہ کو شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے زیب تن لباس مبارک کے ساتھ غسل دیا گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ‘ ان کے دو صاحزادے حضرت فضلؓ و حضرت قثمؓ اور حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجھہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا۔ حضرت اسامۃؓ اور حضرت شقرانؓ (بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام) پانی ڈالتے رہے۔ حضرت اوس بن خولی انصاری بدری کو بھی شامل غسل کیا گیا۔ سحول (یمن کا ایک گاؤں جہاں سفید سوتی کپڑا تیار ہوتاتھا) کے بنے ہوئے تین سفید سوتی کپڑوں میں آپ کو پورے ستر عورت کے ساتھ کفن دیا گیا۔
اس ارشاد مبارک کے مطابق کہ نبی اس جگہ دفن ہوتے ہیں جہاں ان کا وصال ہو‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے حجرے ہی میں بستر نبوی ہی کی جگہ قبر کھودی گئی ‘ حضرت ابو طلحہؓ انصاری نے لحدوالی قبر تیار کی جب آپ کو کفناکر چار پائی پر لٹادیاگیا تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ داخل ہوئے اور ان کے ساتھ انصار و مہاجرین بھی داخل ہوئے۔ صف باندھ کر بغیر کسی امام کے فرداً فرداً نماز پڑھی گئی۔ جب سارے مرد نمازپڑھ چکے تو پھر عورتوں کی باری آئی ‘ پھر بچوں کی ۔اس طرح ہزاروں صحابہ و صحابیات نے فردا ً فرداً نماز جنازہ پڑھی۔
مدینہ منورہ کی زمین میں ’’ شور‘‘ زیادہونے کی وجہ قبر میں ایک سرخ قطیفہ (چادر) بچھاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسممبارک اس پر رکھا گیا ۔ حضرت علی مرتضیؓ‘ حضرت فضلؓ ‘ حضرت قئمؓ ‘ حضرت شقرانؓ اور حضرت اوس بن خولی انصاری نے جسم اطہر کو قبر شریف میں اتارا اور مکی رواج کے مطابق قبر کو مسقف کیا گیا اور یہ کام حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے انجام دیا۔(انساب الاشراف 575:1 تا 578)

مطلقہ عورت کا عدت میں پڑوس کے فلیٹ کو جانا
سوال : میری بڑی بہن کو ان کے شوہر نے ایک ماہ قبل طلاق دیدیا اور وہ عدت کے دن گزار رہی ہے ۔ میرے والد نے ایک ہی بلڈنگ میں ہم دو بہنوں کو دو علحدہ علحدہ فلیٹ دلوائے ہیں۔ میں اپنے شوہر و بچوں کے ساتھ اسی میں مقیم ہوں‘ میری بڑی بہن طلاق کے بعد ا پنے دو بچوں کے ساتھ اپنے فلیٹ میں رہ رہی ہیں اور وہیں عدت کے دن گزار رہی ہیں ۔ روزانہ میں خود ان کے پاس جاکر ملاقات کرتی ہوں۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا وہ میرے فلیٹ میں مجھ سے ملنے یا کسی کام سے کچھ مرچی ‘ نمک لینے کیلئے آسکتی ہیں یا نہیں۔
نام ندارد
جواب : ایام عدت کے دوران مطلقہ خاتون اپنے عدت کے مقام سے باہر نہیں جائے گی۔ حتی کہ ایک ہی بلڈنگ میں متعدد فلیٹس ہوں تو بھی وہ دوسرے فلیٹ میں بلا ضرورت شدید نہیں جاسکتی ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 3 ص : 587 مطبعہ بیروت میں ہے : ولا تخرج معتدۃ رجعی وبائن مکلفۃ من بیتھا اصلا لا لیلاً ولا نھارا ولا الا صحن دار فیھا منازل لغیرہ ولو باذنہ لانہ حق اللہ تعالیٰ