’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ 

(مضامین کا مجموعہ)
مبصر : ڈاکٹر رحیم رامیش
مصنف : ڈاکٹر مسعود جعفری
ڈاکٹر مسعود جعفری کی ہمہ پہلو شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ ایک تاریخ داں، ایک شاعر، ایک مراسلہ نگار، ایک محقق اور ایک تنقید نگار ہی نہیں بلکہ ایک اچھے ادیب اور مضمون نگار بھی ہیں۔ جس طرح ایک شاعر سمندر کو کوزہ میں بند کرنا بہتر جانتا ہے اسی طرح موصوف بھی اپنے مضامین کو اشعار کے ساتھ پیش کرنے کے فن سے کماحقہ واقف ہیں۔ ان کے مضامین میں جدت ہوتی ہے، ندرت ہوتی ہے اور ایک نیا پن ہوتا ہے۔ یہی خصوصیت انہیں ایک عام مضمون نگار سے الگ کرکے اردو ادب میں ارفع و اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے۔ ڈاکٹر مسعود جعفری کے مضامین کا انتخاب قاریوں کے دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔ وہ نئے نئے پہلوؤں کو اجاگر کرکے قاری کا دل جیت لیتے ہیں اور اپنے فن کا لوہا منواتے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ قاری کو ان کے تازہ مضامین، تازہ کلام اور مراسلوں کا انتظار رہتا ہے جو اکثر و بیشر اردو روزناموں، ہفتہ وار اخباروں ماہانہ اور سہ ماہی رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر مسعود جعفری کی آٹھویں اور تازہ تصنیف ’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ ہے جو دلکش رنگین اور دیدہ زیب ٹائیٹل کے ساتھ زیورطباعت سے آراستہ ہوچکی ہے جس کے پشتیہ پر پروفیسر بیگ احساس کے تاثرات ڈاکٹر مسعود جعفری کیلئے ایک سند ہیں حالانکہ مسعود جعفری کے پاس سینکڑوں مضامین غیرشائع شدہ موجود ہیں لیکن ’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ سے قبل ڈاکٹر مسعود جعفری کے چار شعری مجموعے ’’گرد گرد زندگی‘‘، ’’رات بھر دھوپ‘‘ ، ’’میں تجھے سوچتا رہا‘‘ اور ’’پلک پلک دریا‘‘ کے علاوہ تین تصانیف ’’تاریخ کے جھروکے سے‘‘ ، ’’سانس لیتے ہوئے عکس‘‘ اور ’’اور چراغ جلتا رہا‘‘ شائع ہوکر کافی مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر مسعود جعفری کے قلم میں جادو ہے۔ ان کا اندازِ بیاں منفرد اور دیگر ادیبوں اور شعراء سے مختلف ہے۔ وہ سیدھی سادھی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔ شوکت لفظی ان کی تحریر کا خاص وصف ہے اور الفاظ کو برتنے کا انداز نرالا ہے۔ خدا نے انہیں تحریری اور تقریری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ڈاکٹر مسعود جعفری مضمون تاریخ کے اسوسی ایٹ پروفیسر رہ چکے ہیں۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی کافی عبور رکھتے ہیں۔ ’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ میں ڈاکٹر مسعود جعفری نے صرف ادبی، تاریخی، سیاسی مضامین ہی نہیں لکھے بلکہ اخلاقی، مذہبی اور فلمی مضامین کی طرف بھی انہوں نے خصوصی توجہ دی ہے۔ یہ مضامین قوسِ قزح کے رنگوں کی طرح ہماری آنکھوں کو دکھائی دیتے ہیں جو نہایت ہی خوبصورت، پرکشش اور رنگ برنگی ہیں۔ ان مضامی کی خصوصیت یہ ہیکہ وہ صرف دو یا تین صفحات میں ہی اپنا مضمون مکمل کرلیتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف خود مصنف نے ’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ کے پیش لفظ میں کیا ہے جو اس طرح ہے
’’بہت سارے مضامین کتاب کی طوالت کے خوف سے حذف کردیئے گئے۔ اختصار کو ترجیح دی گئی کتاب میں مختصر مضامین ہی کو شامل کیا گیا۔ ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکتا ہے‘‘
ڈاکٹر مسعود جعفری کے تعلق سے پروفیسر میر تراب علی یوں رقمطراز ہیں
’’ڈاکٹر مسعود جعفری ان کمیاب اور کامیاب ادیبوں میں ہیں جن کی مقبولیت کا سبب فن کی سچائی اور تخلیقیت کی وہ سطح ہے جہاں تخلیق اور تخلیق کار اس طرح ہم آہنگ ہوجاتے ہیں کہ تخلیق اپنے خالق کا آئینہ اور تخلیق کار اپنی تخلیق کا عکس بن جاتا ہے‘‘۔
پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی ریاست تلنگانہ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہیکہ ڈاکٹر مسعود جعفری مختصر مضامین لکھنے میں کمال رکھتے ہیں اور قاری کی تشنگی بھی باقی نہیں رہتی۔
ڈاکٹر مسعود جعفری نے اپنی تصنیف ’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ میں ایک تاریخ داں ہونے کی حیثیت سے انہوں نے سکندراعظم سے لیکر مغلیہ دورتک کے چند حقائق کو ثبوت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایک شاعر ہونے کے ناطے انہوں نے مشہور دکنی شاعر قلی قطب شاہ سے لیکر حضرت رحمن جامی کے ہمعصر شعراء کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ’’لفظ لفظ تابندۃ‘’ میں ’’قومیت کیا ہے؟‘‘ ایک اچھا معلوماتی مضمون ہے۔
’’صنف ِنازک کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے واقعات‘‘ ایک سبق آموز مضمون ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے تعلق سے دو مضامین ’’یہ قربتیں۔ یہ فاصلے‘‘ اور ’’ہندوپاک دوستی کے نام‘‘ نہایت ہی خوبصورت مضامین ہیں جنہیں پڑھ کر قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے علاوہ ’’نہرو اور گاندھی۔ متضاد شخصیتیں‘‘ مضمون میں دونوں سیاسی شخصیتوں کا موازنہ بھی خوب ہے۔
ڈاکٹر مسعود جعفری کے تعلق سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو یونیورسٹیوں کے ذمہ داران اگر چاہیں تو ڈاکٹر مسعود جعفری کے شعری مجموعوں اور نثری تخلیقات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر مسعود جعفری کا آبائی وطن تاریخی شہر ورنگل ہے جو امن اور آشتی کا گہوارہ ہے۔ حیدرآباد کو انہوں نے وطنِ ثانی بنا لیا ہے۔ راقم الحروف یہ دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہیکہ ڈاکٹر مسعود جعفری کی تصنیف ’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ کا ہر لفظ تابندہ ہے جو رات کے اندھیروں میں بھی ہیرے کی طرح چمکتا دکھائی دے گا۔ مجھے امید ہے یہ مضامین کا مجموعہ ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور اس کی خوب پذیرائی ہوگی۔ ’’لفظ لفظ تابندہ‘‘ کو حیدرآباد کے پرنٹ لائن پرنٹرس نے نہایت ہی دلچسپی کے ساتھ شائع کیا ہے جو (192) صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ہدیٰ بک ڈسٹریبیوٹرس پرانی حویلی حیدرآباد یا سیل نمبر 9949574641 پر حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی قیمت پانچ سو روپئے ہے۔