قیام پر قادر شخص کا کرسی پر نماز پڑھنا

سوال : بعض افراد اگرچہ قعدہ میں بیٹھنے کی قدرت نہیں رکھتے مگر قیام کرسکتے ہیں، اس کے باوجود پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر ادا کرتے ہیں، جبکہ قیام فرض ہے۔ کیا ایسے طریقے پر نماز پڑھ لینے سے نماز ہوجائے گی یا نہیں۔
محمد مبین، ملک پیٹ
جواب : جو شخص قیام پر قادر تو ہو لیکن وہ حالت قیام سے سجدہ میں جانے پر قادر نہ ہو تو ایسا شخص شرعاً معذور ہے اور اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ایسے شخص کے لئے حسب سہولت بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہو اور قیام سے سجدہ میں بھی جاسکتا ہو اور وہ بلا عذر شرعی کرسی پرنماز پڑھتا ہو تو اس کی نماز ادا نہ ہوگی۔

خطبہ ثانیہ میں ’’ ان اللہ یأمربالعدل ‘‘ پڑھنے کی وجہ
سوال : اس سے پیشتر خطبہ جمعہ میں خلفاء راشدین و دیگر صحابہ کرام کا ذکر کرنے سے متعلق روشنی ڈالی گئی تھی، تب سے مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ خطبہ جمعہ کے آخر میں تمام ائمہ وخطیب ’’ ان اللہ یأمربالعدل والاحسان‘‘ کی آیت شریف پڑھتے ہیں اور اس پر خطبہ ختم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟
ولی الدین محبوب نگر
جواب : ابوالحسنات علامہ محمد عبدالحی لکھنوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے فتاوی میں اس کی وجہ بیان کرتے ہیںکہ بنوامیہ کے فرما نروا خلیفہ رابع، شہنشاہ ولایت، شیر خدا ، حیدر کرار ، فاتح خیبر حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ پر خطبہ ثانیہ کے آخر میں طعن و تشنیع کیا کرتے تھے ، جب بنوامیہ میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز سریرآ رائے سلطنت ہوئے تو آپ چونکہ نہایت خدا ترس ، دیندار عبادت گزار ، زہدو تقوی کے پیکر تھے، آپ نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے اس مذموم طریقہ و رواج کو ختم کردیا اور متذکرہ بالا آیت قرآنی خطبہ ثانیہ کے آخرمیں تلاوت کرنا طئے کیا جس پر امت کا عمل نسل در نسل توارث کے ساتھ چلا آرہا ہے ۔
نفع المفتی والسائل ص : 84 میں ہے : کانت ملوک بنی امیۃ یفتحون لسان الطعن علی الخلیفۃ الرابع فی آخر الخطبۃ الثانیہ فلما ولی عمر بن عبدالعزیز و کان و رعا متدینا عابد ازا ھدا نسخ ھذا المروج و قرر قراء ۃ ھذہ الایۃ فی آخرالخطبۃ الثانیۃ۔

میت کو کس طرح رکھنا چاہئے
سوال : جب کسی گھرمیں انتقال ہوجاتا ہے تو افراد خاندان کے چند لوگ مختلف باتوں میںاختلاف کرتے نظر آتے ہیں اور عموماً میت کو لٹانے ، میت کے بال میں کنگھی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہوتاہے تو اس سلسلہ میں دو تین باتیں حل طلب ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائے۔میت کو شرعاً کیسا لٹانا چاہئے ، میت کو سمت قبلہ پیر کر کے لٹائیں یا جانب جنوب ، شرعا کیا حکم ہے ۔ میت کے بالوں کو ترشوانا یا اس میں کنگھی کرنا و ناخن ترشوانا کیسا ہے ؟
محمد مدثر ، حسینی علم
جواب : میت کو بوقت غسل یا قبل غسل لٹانے کے متعلق چونکہ کوئی صراحت احادیث میں نہیں پائی گئی اس لئے یہ مسئلہ فقہاء و علماء کے درمیان استدلالی ہوگیا ہے، بعض فقہاء میت کو بیمار پر (ایسا بیمار جو بوقت نماز قیام و قعود پر قادر نہ ہو) قیاس کر کے یہ لکھا ہے کہ میت کو ایسا چت لٹایا جائے کہ اس کے پیر قبلہ کی جانب ہوں اور سر کے نیچے تکیہ و غیرہ دے کر اس قدر چہرے کو بلند کیا جائے کہ اگر میت کو ا ٹھایا جائے تو اس کا چہرہ قبلہ کی جانب ہوجائے لیکن یہ استدلال (بیمار پر میت کو قیاس) صغیف ہے بعض فقہاء نے مکان و مقام کا اعتبار کرتے ہوئے جیسی سہولت ہو میت کو لٹانے کی اجازت دی ہے۔ اکثر فقہاء نے میت کو قبر پر قیاس کر کے یہ حکم دیا ہے کہ میت کو ایسا لٹایا جائے ، جیسا قبر میں رکھا جاتا ہے یا بوقت نمازِ جنازہ میت کو رکھا جاتا ہے ، یہ قیاس اقرب الی الفہم و العقل ہے کہ اس میں قبلہ و کعبہ کے آداب بھی ملحوظ رہتے ہیں۔ قبلہ کی جانب پیر دراز کرنا خلاف ادب ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد 5 ص : 219 میں ہے یکرہ مدالرجلین الی الکعبۃ فی النوم و غیرہ عمدا اور فتاوی تاتار خانیہ کتاب صلاۃ الخبائز ص : 133 ہے۔ یوضع علی تخت … کما یوضع فی القبر یعنی میت کو تخت پر ایسا لٹایا جائے جیسا کہ قبر میں لٹایا جاتا ہے ۔ میت کے بال داڑھی و سر میں کنگھی کرنا ناخن ترشوانا منع ہے جیسا کہ قدوری باب الجنائز میں ہے : ولا یسرح شعرالمیت ولا لحیتہ ولا یقص ظفرہ ولا یقص شعرہ ۔

جدہ سے عزم حج اور قصر نماز
سوال : میرا سوال یہ ہے کہ میں جدہ (سعودی عرب) میں مقیم ہوں، اگر میں حج کو جاؤں تو منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات میں مجھے نماز قصر کرنا ہوگا یا جدہ میں رہنے کی طرح مکمل پڑھنا ہوگا۔ جواب عنایت فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔
محمد نظام الدین ، جدہ(سعودی عربیہ)
جواب : اڑتالیس (48) میل سے زا ئد کی مسافت پر سفر کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جدہ سے منی ، مزدلفہ ، عرفات، 48 میل یا زائد کی مسافت ہو تو آپ منی، مزدلفہ و عرفات میں نماز قصر کریں گے۔
مسجد سے متصل مکان میں اقتداء
سوال : مسجد سے متصل مکان سے خطبہ کی آواز گھر میں آتی ہے، گھر میں خطبہ سن کر جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
آج کل غیبت ، چغلی کا چلن عام ہوچکا ہے ، غیبت و چغلی سے متعلق تفصیل بیان کریں تو مہربانی ہوگی۔
معین خان،بنگلور
جواب : اقتداء کے صحیح ہونے کیلئے اتصالِ صفوف یعنی صفوں کا متصل ہونا ضروری ہے ۔ اگر دوصف کا فاصلہ آجائے یا صفوں کے درمیان کوئی راستہ ہو جس میں کوئی گاڑی جاسکتی ہو تو احناف کے نزدیک اقتداء درست نہیں ہے ۔ نیز امام کی آواز کا مائکروفون کے ذریعہ سنائی دینا اقتداء کیلئے کافی نہیںہے۔ اس لئے آپ کو چاہئے کہ آپ مسجد ہی میں جمعہ کی نماز ادا کیجئے ۔ سوال میں کچھ تفصیلات و تصریحات مذکور نہیں۔اس لئے اقتداء سے متعلق بنیادی باتیں بیان کردی گئی ہیں۔
– 2 شرعاً ’’غیبت‘‘ اور ’’نمیمہ‘’ دونوں حرام ہیں۔ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی سے متعلق ایسی چیز کو بیان کریں جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ واقعی وہ چیز اس میں موجود ہو تو غیبت ہے اور نہ ہو تو اس پر بہتان و تہمت ہے، وہ بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا یغتب بعضکم بعضا أیحب أحد کم أن یاکل لحم اخیہ میتافکرھتموہ واتقواللہ ان اللہ تواب رحیم۔(الحجرات)
ترجمہ َ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ، کیا کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کا مردار گوشت کھائے ۔ تم اس کو ناپسند کرتے ہو اللہ سے ڈرو! یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ مہربان ہے۔ (سورۃ الحجرات) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الغیبۃ اشدمن الزنا ۔ غیبت زنا سے بڑھ کر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : کس طرح بڑھ کر ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی زنا کرتاہے پھر صدق دل سے نادم و پشیماں ہوکر توبہ کرتا ہے (اور آئندہ نہ کرنے کا عہد واثق کرتا ہے) تو اللہ اس کی توبہ کو قبول فرمالیتا ہے لیکن جس کی غیبت کی جائے جب تک وہ معاف نہ کرے غیبت کرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔
’’نمیمہ‘‘ کہتے ہیں لوگوں کی بات کو دوسروں تک فساد کی نیت سے پہنچانا ایک سنگین و مہلک بیماری ہے اور اصلاح بین الناس لوگوں میں صلح صفائی کرانے کے حکم کے خلاف ہے ۔ غیبت اور نمیمہ دونوں سے آخرت میں ناکامی اور دنیا میں رسوائی ہوتی ہے ، آدمی کی عزت ختم ہوجاتی ہے اور وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم
سوال : شریعت مطھرہ میں طلاق کا اختیار شوہر کو دیا گیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کیلئے علماء حضرات ایک حدیث شریف کوٹ کرتے ہیں۔
’’الطلاق لمن اخذ با لساق‘‘
براہ کرم اس حدیث کی مختصر تصریح فرمائیں اور اس سے کیا مراد ہے۔ واضح کریں تو مہربانی۔
ناضرہ بانو (خلوت)
جواب : حدیث شریف میں اس طرح الفاظ منقول ہوئے ہیں۔ ’’انما الطلاق لمن اخذ بالساق‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بلا شبہ طلاق کا اختیار اس شخص کو حاصل ہے جو عورت کی پنڈلی کا حقدار ہو۔ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب ایک صحابی رسول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ ان کے آقا نے ان کا نکاح اپنی باندی سے کروایا اور اب وہ (شوہر کی مرضی کے بغیر) دونوں میں تفریق کردینا چاہتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اے لوگو ! کیا ہوگیا ہے کہ تم میں سے کوئی ا پنے غلام کی اپنی باندی سے شادی کرواتا ہے پھر ان کے درمیان تفریق و علحدگی کردیتا ہے ۔ سنو ! طلاق کا حق اس کو ہے جو عورت کی پنڈلی کا حقدار ہو، یعنی شوہر ہی طلاق دے سکتا ہے ۔
یہ روایت ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ نہ سے اس طرح منقول ہے ۔
اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجل فقال : یا رسول اللہ ! ان سیدی زوجنی امتہ وھو یرید ان یفرق بینی و بینھا قال فصعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المنبر فقال : یا ایھا الناس مابال احدکم زوج عبدہ امتہ ثم یرید ان یفرق بینھما انما الطلاق لمن اخذ بالساق۔

صف میں تنہا نماز پڑھنا
سوال : اگر ہم مسجد میں ایسے وقت داخل ہوں جبکہ جماعت شروع ہوچکی ہو اور پہلی صف مکمل ہوچکی ہو اور دوسری صف میں کوئی بھی کھڑے ہوئے نہ ہو، ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ کیا دوسرے شخص کے آنے کا انتظار کرنا چاہئے ؟ بعض کہتے ہیں کہ پہلی صف میں کسی دوسرے شخص کو لیکر شریک کر لینا چاہئے ۔ تنہا صف میں کھڑے ہوں تو نماز نہیں ہوگی ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں ؟
ای میل
جواب : سوال میں ذکر کردہ صراحت کے مطابق اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو اگلی صف مکمل ہوچکی ہو اور ساتھ میں کوئی اور نہیں ہے تو ایسے وقت میں بہتر ہے کہ سامنے والی صف سے کسی کو لیکر دوسری صف بنائی جائے۔ بشرطیکہ جس کو آپ پیچھے لے رہے ہیں۔ وہ مسائل سے واقف ہو ورنہ فتنہ ہوگا۔ ایسے وقت میں اگر وہ تنہا صف میں پڑھ لے تو نماز تو ہوجائے گی اور عذر ہو تو کراہت نہیں رہے گی اور بلا عذر تنہا صف میں کھڑے ہوں تو مکروہ ہوگا۔