قیام جامعہ نظامیہ اور مولانا انوار اللہ فاروقی

پروفیسر محمد عطا اللہ خان
حیدرآباد کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ جنوبی ہند کی ایک عظیم المرتبت مذہبی یونیورسٹی ہے ۔ اس جامعہ سے ہزاروں علماء ، فضلاء فارغ التحصیل ہو کر سارے عالم میں سنت اور حنفی مسلک کا درس دینے پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان کی ایک طویل فہرست مرتب ہوسکتی ہے ۔ اس عظیم الشان جامعہ کی بنیاد کس طرح رکھی گئی وہ قابل غور ہے ۔ آج سے ایک سو چالیس سال قبل مولانا انوار اللہ فاروقی صاحب جنہیں فضیلت جنگ کے خطاب سے نظام سرکاری نے نوازا تھا ۔ اس جامعہ کی بنیاد رکھنے کی تجویز رکھنے میں مولانا غلام قادر مہاجر مدنی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایک خالص مذہبی درسگاہ کے قیام کی ضرورت محسوس کی ۔ آپ کے ساتھ مولوی محمد مظفر الدین صاحب نائب ٹپہ نے جامعہ نظامیہ کے قیام کی طرف خاص توجہ کی  ۔ان کے ساتھ دیگر احباب سے صلاح مشورہ کیا گیا اور ایک مجلس عام منعقد ہوئی اور جامعہ نظامیہ کے قیام کا باضابطہ اعلان کے سلسلہ میں 19  ذی الحجہ 1292 ھ مطابق 1875ء بروز شنبہ کو مولوی مظفر الدین صاحب مولی کے قیام گاہ واقع افضل گنج میں ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں طے پایا کہ حیدرآباد دکن میں ایک ایسی مذہبی درسگاہ کی اشد ضرورت ہے جو دینیات کی اعلی تعلیم کا انتظام کرسکے ۔ بہ اتفاق آراء یہ طے پایا کہ یہ تحریک منظور ہوگی اورتمام علماء کی رائے سے متفقہ طور پر مولانا انوار اللہ فاروقی صاحب کو اس عظیم الشان جامعہ نظامیہ کا صدر منتخب کیا گیا گویا یہیں سے جامعہ نظامیہ کی بنیاد رکھی گئی ۔ ابتداء میں ایک مدرسہ کی شکل میں افضل گنج کے مقام پر دو تین مکانوں میں درس و تدریس کا کام انجام دیا جاتا تھا ۔ اس مدرسے میں طلباء کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی تو 1302ھ میں مولوی امیر الدین حسین صاحب نے اپنا مکان دارالاقامہ کے لئے وقف کردیا ۔ مولوی صاحب نے اس مدرسہ کے لئے نہ صرف مکان دیا بلکہ اپنی ذاتی محنت اور سرمایہ بھی اسی جامعہ نظامیہ کے لئے وقف کردیا ۔ اس مدرسہ کی ترقی و توسیع میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ۔ بعض وجوہات کی بنا پر یہ مدرسہ جامعہ نظامیہ نواب فیروز جنگ کی دیوڑھی میں منتقل ہوگیا ۔ یہ جگہ بھی ناکافی ہورہی تھی جس کی وجہ سے سرکار اعلی آصف جاہ سادس کے حکم سے 1319ھ میں محلہ شاہ گنج میں ایک وسیع اور پکا مکان جامعہ نظامیہ کے لئے عطا کیا گیا ۔ دن بہ دن طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔ یہ مکان بھی ناکافی ہونے لگا اور آصف جاہ سادس کی طرف سے ایک اور مکان محلہ شبلی گنج میں دیا گیا آج اسی مقام پر جامعہ نظامیہ کام انجام دے رہا ہے ۔ مولانا انوار اللہ فاروقی جنہیں ہم تمام اہل دکن بانی جامعہ نظامیہ کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں ۔ آپ کی ولادت با سعادت 4 ربیع الثانی 1264 ہجری میں ان کے والد قاضی ابو محمد شجاع الدین کے گھر قندھار ضلع ناندیڑ میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم مذہبی نوعیت کی تھی بعد میں سات سال کی عمر میں حافظ امجد علی صاحب نابینا کے درس گاہ میں حفظ قرآن کا سلسلہ شروع ہوا گیارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا ۔ بعد میں مولوی فیاض الدین صاحب سے فقہ حنفیہ کی تعلیم حاصل کی اور مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محل سے معقولات و منقولات  کا درس مکمل کیا ۔ تفسیر میں مہارت مولانا شیخ عبداللہ یمینی سے حاصل کی ۔ انھوں نے اپنے والد سے سلوک کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ، تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ کا عقد اٹھارہ سال کی عمر میں مولوی امیر الدین صاحب کی صاحب زادی سے ہوا ۔ ابتداء میں 1285 ھ میں محکمہ گزاری میں مولانا کا تقرر خلاصہ نویس کے طور  پر ہوا ۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ سال تک جاری رہا اور مستعفی ہوگئے ۔ ملازمت سے ہٹ جانے کے بعد مولانا متوکل زندگی گزارنے لگے ۔ اس زمانے میں اللہ کی راہ میں سفر بیت اللہ 1297 ھ میں حج ادا کیا ۔ واپسی کے بعد مولانا کا انتخاب بحیثیت عربی استاد شہزادے نواب میر محبوب علی خان ہوا ، چار سو روپیے ماہوار تنخواہ ملتی تھی ۔ اس کے ساتھ مولانا نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا ۔ 1301 ہجری میں مولانا کو حکومت حیدرآباد کی طرف سے افضل الدولہ بادشاہ وقت نے انھیں خان بہادر فضیلت جنگ کے خطاب سے سرفراز کیا اور منصب ایک ہزاری جاری ہوئی ۔ مولانا نہ صرف بادشاہ وقت کے دو نسلوں کو دین کی تعلیم سے نوازا جب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع نے بھی آپ سے عربی کی تعلیم حاصل کی ۔ 1911 ء میں جب آصف جاہ سابع تخت نشین ہوئے تو مولانا انوار اللہ خان بہادر فضیلت جنگ کو امور مذہبی کا ناظم مقرر کیا گیا اور جب نواب مظفر جنگ بہادر معین المہام امور مذہبی کا انتقال ہوگیا تو آصف جاہ سابع نے مولانا کی صلاحیت سے متاثر ہو کر انھیں وزارت امور مذہبی پر آپ کا تقرر کردیا ۔ یہ سلسلہ مولانا کی وفات تک جاری رہا ۔ مولانا کی وفات جمادی الثانی کی چاند رات 1336 ہجری میں ہوئی ۔ آپ کے جسد خاکی کو جامعہ نظامیہ کے صحن میں دفن کیا گیا ۔ مولانا کی تصانیف بہت زیادہ ہیں ان میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ افادۃ الافہام یہ کتاب غلام احمد قادیانی کے جواب میں لکھی جس میں مولانا نے حنفی فقہ پر جو اعتراضات قادیانی نے کئے تھے اس کے مدلل جوابات دئے ۔ مولانا کی دوسری اہم کتاب حقیقت الفقہ ہے  ۔ یہ تصنیف فرقہ اہل حدیث کے عقائد کے جواب میں لکھی گئی ہے ان کی تیسری تصنیف خدا کی قدرت ہے ۔ یہ ایک منظوم رسالہ ہے ۔چوتھی کتاب رسالہ خلق افعال ہے ۔ اس کے علاوہ ایک رسالہ مقاصد الاسلام جاری کیا ۔ اس رسالہ میں زیادہ تر مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ مولانا نے ایک اور رسالہ انوار اللہ بھی جاری کیا ۔ اس رسالہ میں مولانا زیادہ تر وحدت الوجود کے مسائل پر مضامین لکھا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ مولانا نے بیسیوں مضامین شائع کئے ۔ یہ تمام مضامین مذہبی نوعیت کے تھے  اس کے علاوہ مولانا جب زمانہ قیام مدینہ منورہ میں تھے ، وہاں کچھ نایاب تصانیف اپنے ذاتی اخراجات سے نقل کروائی تھی جب 1308ھ میں وہاں سے حیدرآباد واپس ہوگئے تو مولانا کو خیال آیا اس علوم قدیمہ کا بیش بہا خزانہ کسی طرح زیور طبع سے آراستہ ہوجائے ۔ اس فکر میں مولانا نے ملا محمد عبدالقیوم کی مدد اور مشورے سے پہلی کتاب کنزالعمال شائع کی جو حدیث نبوی کا بہترین مجموعہ ہے ۔ ۰