قوم کو کیا پیغام دینا چاہئے

تلنگانہ ؍ اے پی ڈیری          خیراللہ بیگ
عیدالاضحی کے بعد قوم یہ معلوم کرنے سے قاصر ہیکہ جانوروں میں فی حصہ لینے اور غرباء میں گوشت تقسیم کرنے والے گروپس کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم کیلئے بعض تنظیمیں دیانت اور امانت کا نیک مظاہرہ کرتے ہوں گے مگر قوم کے اندر ایسے افراد بھی ہیں جو اب قربانی کے جانور خریدنے اور ان کو ذبح کرنے کی مشقت سے بھی گریز کرکے یکشمت قربانی کے جانوروں میںحصہ لے کر اپنا دینی فریضہ پورا کرنے کا اطمینان حاصل کرلیتے ہیں مگر اس سال ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ گروپ کی شکل میں لوگ مساجد اور محلوں کے گلی کوچوں میں بیانرس لگائے مسلمانوں کو راغب کرتے دیکھے گئے کہ قربانی کے جانوروں کے ذبح کرنے اور گوشت کی غرباء میں تقسیم کا نظم رکھنے کا دعویٰ کرکے پیسے بٹور رہے تھے۔ دیہی علاقوں میں گوشت تقسیم کرنے کا بھی جھانسہ دے کر پیسے لئے گئے ہیں۔ مسلمانوں نے بھی ان ٹولیوں کی باتوں پر یقین کرکے اپنا حصہ حاصل کرلیا۔ حقیقت میں ایسے لوگ چند رسائد چھپوا کر اپنا مالیہ اکھٹاکرنے کا منصوبہ بنا کر شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ہم میں سے ایسے کتنے ہیں جو حقیقت کا پتہ چلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا جذبہ قرانی پورا ہورہا ہے یا نہیں اور غریبوں میں گوشت تقسیم ہوا ہے یا نہیں۔ بعض گروپس نے ایسا بھی کاروبار  کیا ہیکہ جن حضرات نے اپنے قربانی کے گوشت کا حصہ غریبوں میں تقسیم کرنے کیلئے چھوڑا ہے وہی گوشت دوسرے رکن کو اس کے حصہ کے طور پر گوشت پلٹا دیا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو سیدھے طور پر ایک حصہ کی رقم جیب میں چلی جاتی ہے۔ ایک بڑے جانور کے 7 حصوں کو ہی کئی افراد میں پھرایا جاتا ہے اور جو کارخیر کی خاطر گوشت حاصل نہیں کرتے ان کا گوشت کئی گنا منافع بن کر ان ٹولیوں کیلئے پیسہ بنانے کا موقع بن جاتا ہے۔ عیدالاضحی سنت ابراہیمی کی پیروی کا دن ہے

مگر ہم سے کئی مسلمانوں نے آرام طلبی یا جانور کے ذبح کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث جانوروں میں حصہ حاصل کرکے دینی دمہ داری سے بری ہوجاتے ہیں۔ لوگ قربانی کے مسئلہ پر محنت اور مشقت سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے ان لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں جو ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی سستی اور کاہلی نے منافع خوروں، دھوکہ بازوں کی ٹولیاں پیدا کردی ہیں۔ پہلے کی طرح لوگوں میں ازخود قربانی کرنے اور گوشت کی گھر گھر تقسیم کی مشقت اور جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ قربانی کی سنت ادا کرتے ہوئے ہمیں اس کی روح یعنی تقویٰ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی فکر نہیں ہے تو پھر اپنے نفس میں چھپے ہوئے شیطان کو کنکریاں مارنے کی بھی فکر نہیں ہوگی اس طرح آنے والے دنوں میں جذبہ قربانی اور سنت ابراہیمی سے دوری و گمراہی و بدعہدی کی راہ پر چلنے کا رجحان زور پکڑے گا اور مسلمانوں کے دینی امور سے فائدہ اٹھانے والی ٹولیاں مزید سرگرم دکھائی دیں گی۔ امت مسلمہ کی ایسی بے کسی کا سوال برقرار رہے گا۔ اس وقت مسلمانوں کے بڑے بڑے مسائل ہیں اس لئے انہیں اپنے دینی معاملوں کو پورا کرنے اور تقاضوں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے۔ مسلمانوں کے دانشور طبقہ میں آج کے حالات اور بگاڑکی وجوہات کی سیدھی سادی بات کی تفہیم سے قاصر ہے۔ لوگوں میں آرام طلبی نے بامقصد زندگی کو بے مقصدیت میں تبدیل کردی ہے۔ مسلمانوں کے لئے ہر سال حج کے موقع پر قربانی و جذبہ کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر ہر سال مسلم طبقہ اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اس سال بھی بیت اللہ میں حج انتظامات کے لئے وسیع تر بندوبست کردیا گیا تاہم کرین حادثہ کے بعد وادی منیٰ میں بھگدڑ مچ گئی اور 1000 سے زائد حاجی شہید ہوئے۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے حاجیوں کے شہید اور زخمی ہونے کی خبریں ہیں۔ حاجیوں کی سلامتی کیلئے بھی دعائیں ہوئی ہیں۔ تلنگانہ میں اس سال عازمین حج کی روانگی سے لیکر واپسی تک کے انتظامات کرنے والوں نے ہر ممکنہ سہولت بہم پہنچائی ہے۔ حیدرآباد میں گذشتہ روز مرکز وزیر اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ کی آمد اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کی رائے زنی بھی دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔ این ڈی اے حکومت میں مسلمانوں نے خود کو غیرمحفوظ متصور کرنا شروع کیا ہے تو نجمہ ہبت اللہ نے اس کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی زیرقیادت مودی حکومت میں مسلمانوں کو عدم تحفظ کے احساس سے باہر آنا ہوگا۔ انہوں نے اس دلیل کو مسترد کردیا کہ مودی حکومت میں مسلمان محفوظ نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہیکہ مودی حکومت اقلیتوںکی بہبود کیلئے بے شمار اقدامات کررہی ہے مگر انہوں نے ان اقدامات کی نشاندہی نہیں کی صرف زبانی طور پر بے شمار اقدامات کرنے کا ذکر کیا ہے۔ مفاد حاصلہ طاقتیں مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہوئے حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ دراصل بی جے پی حکومت ہو یا تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت مسلمانوں کے تعلق سے ان کی پالیسیاں صرف کاغذی گھوڑے ثابت ہورہے ہیں۔ نجمہ ہبت اللہ کا یہ دعویٰ بھی کتنا سچ ہے آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ مرکز میں این ڈی اے حکومت آنے کے بعد مسلمانوں پر حملوں کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی فرقہ وارانہ فساد بھڑکا ہے۔ ان کا کہنا ہیکہ مسلمانوں کو کانگریس کے دورحکومت میں نقصان پہنچا ہے۔ اس طبقہ کو کانگریس حکومتوں نے اپنی پالیسیوں کے ذریعہ کمزور، یکا و تنہا کردیا۔ انہوں نے مذہب بچاؤ اور دستور بچاؤ کیلئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنا کام کرے اور حکومت اپنا کام کرے گی۔ انہوں نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ مسلمانوں پر حملوں کے بڑھتے واقعات کے خلاف مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یہ مہم شروع کی ہے تو واقعتاً ہندوستان میں مسلمان غیرمحفوظ ہوتے جارہے ہیں۔ بی جے پی حکومت میں تلنگانہ کے مسلمانوں کے ساتھ بھی جو رویہ اختیار کیا گیا ہے اس کے خلاف زبردست تحریک شروع ہوچکی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ بظاہر بی جے پی کے اشاروں پر کام کررہے ہیں

اسی لئے انہوں نے 12 فیصد مسلم تحفظات کے دعوے کو فراموش کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں یوگا کے ذریعہ مسلم طلبہ کا مذہبی تشخص مسخ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ سوریانمسکار، وندے ماترم اور دیگر عوامل کو لازمی قرار دے کر مسلم طلباء کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح ریاست اور مرکزی سطح پر مخالف مسلم پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔ اگر جس طرح مسلمان قربانی کے جانور میں حصہ لے کر اپنے فریضہ کو آسانی سے تکمیل کرکے لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے ہیں اگر اپنے معاشی و سیاسی و سماجی مسائل کو دور کرنے کے معاملہ میں حالات چھٹکارا پالینے میں ناکام ہوں تو پھر معاشی بحالی اور قومی ذمہ داریوں کو بھی اسی طرح سے نمٹتے رہیں گے اور لاپرواہی سے حکومت کی سازشوں کو نظرانداز کرتے رہیں گے تو ان کی آنے والی نسلوں کیلئے مذہب اسلام صرف ایک گالی بن کر رہ جائے گا اور ان کے بچے صرف نام کے مسلمان کہلائیں گے۔ مسلمانوں کو گمراہ رکھنے میں ان کے اپنے سیاستدانوں کا رول اہم ہے۔ سیاسی جماعت کے بارے میں عوام پر حقیقت کھل رہی ہے اس کے باوجود مسلمان ہوش میں آنے سے گریز کررہے ہیں۔ ان کا شعور اجاگر کرنے کی کوششوں کو کامیاب بنانے کی مشق و مشقت بھی وقت طلب ہوگی۔ قوم کو کیا پیغام دینا چاہئے اس سوال پر غور کرنے والی شخصیتوں نے بلاتفریق سیاسی وابستگی اپنی کوششوں کے ذریعہ مسلمانوں کو بیدار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ جہاں تک قوم کو کیا پیغام دیا جائے کا سوال ہے ہر کوئی یہی تمنا کرے گا کہ قوم  کا بھلا ہو۔ مسلمانوں کا بھلا اسی طرح سے ہو کہ اس میں کسی سیاسی جماعت کا دخل نہ ہو اور نہ ہی کوئی مسلمان سیاسی جماعت کی عیاری کا شکار بن جائے کیونکہ حیدرآباد کے مسلمانوں کو آج تک اس سیاسی جماعت سے جاں نہیں چھوٹ سکی اسی لئے وہ حکومت کے ایوانوںمیں اپنا سکہ جماکر قوم کو کھوٹا سکہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر احمقوں کی طرح اپنی لیڈر کی تقاریر او رجلوس مکالموں پر تالیاں پیٹتے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی اور نادانی ہے اور اسی نادانی کی سزاء یہ مل رہی ہے کہ ترقی ٹھپ ہے تحفظات دینے کا وعدہ کرکے حکومت انجان ہورہی ہے کیونکہ ان کے لیڈروں نے اپنا تحفظ کرلیا ہے تو قوم کیلئے تحفظات کی فکر کیوں کرے گا۔
kbaig92@gmail.com