قوم کا درد، زمیں آسماں ایک کردے گا

تلنگانہ /اے پی ڈائری        خیراللہ بیگ
آندھراپردیش اور تلنگانہ کے وزرائے فینانس نے اپنی اپنی ریاست کا سالانہ بجٹ پیش کردیا ہے۔ تلنگانہ کے بجٹ کو بہت ہی متمول دکھایا گیا ہے جبکہ آندھرا کا بجٹ غربت سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ تلنگانہ کے وزیر فینانس ایٹالا راجندر نے بجٹ 2017-18 ء میں 4,500 کروڑ روپئے کا اضافہ فاضل مالیہ کا نشانہ مقرر کیا ہے تو آندھراپردیش کے وزیر فینانس وائی رام کرشنوڈو نے ریاست کو ہنوز 4,600 کروڑ روپئے کے خسارہ سے دوچار بتایا ہے۔ تقسیم ریاست کے بعد اسے مالیاتی خسارہ سے باہر نکلنے میں وقت درکار ہوگا۔ تلنگانہ کو ایک متمول ریاست بناکر پیش کرنے والی ٹی آر ایس حکومت نے ٹیکس کی وصولی کے ذریعہ حاصل کرنے والے مالیہ میں 19 فیصد اضافہ کا دعویٰ کیا ہے جبکہ نوٹ بندی نے ریاست کے مالیہ کو بُری طرح متاثر کردیا۔ اگر نوٹ بندی کا مرحلہ درپیش نہ ہوتا تو پھر تلنگانہ تمام خسارہ سے پاک ریاست بنادی جاتی۔ نوٹ بندی نے ریاست میں اراضی کی فروخت کی رفتار کو کم کردیا تو رجسٹریشن اسٹامپس اینڈ ڈیوٹی کو حاصل ہونے والی رقم بھی گھٹ گئی۔ اس کے باوجود تلنگانہ کے چار اضلاع نے ریاست کے مالیاتی موقف کو سنبھال رکھا ہے۔ آندھراپردیش حکومت نے 4600 کروڑ روپئے کے خسارہ کے باوجود ایک بہتر شروعات کی ہے۔ ریاست کے لئے نیا دارالحکومت بنانے کے لئے بڑے پراجکٹ پر کام ہورہا ہے۔ اس طرح چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو نے مالیاتی خسارہ کو 15000 کروڑ روپئے سے گھٹاکر 5000 کروڑ روپئے کردینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

آندھراپردیش کا جملہ بجٹ تخمیناً 1.56 لاکھ کروڑ روپئے بتایا گیا ہے جبکہ تلنگانہ کا جملہ بجٹ 1.44 لاکھ کروڑ روپئے ہے مگر ترقیاتی کاموں میں تلنگانہ کو آگے لے جانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے پاس ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں۔ ٹی آر ایس حکومت میں جس ادارے کے اندر بھی جھانکا جائے وہاں بس حکومت کی خرابیوں کی کھچڑی ہی پکتی نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کی نگرانی کرنے والے وقف بورڈ کے اندر جھانکا جائے تو یہاں تو کھچڑی کی بڑی بڑی دیگیں ہی نظر آتی ہیں۔ کھچڑی عموماً نرم غذا کو کہا جاتا ہے جس کی تیاری میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ مگر یہ کھچڑی کسی اور نوعیت کی ہے جس میں بہت سے مضر صحت اشیاء (ارکان) جمع ہوکر آپس میں گڈ مڈ ہوکر اوقافی جائیدادوں کو ’’گھی کہاں گیا کھچڑی میں‘‘ کی مثال پیش کررہے ہیں۔ چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے مسئلہ کو لے کر مقامی جماعت اور نئے صدرنشین کی کارکردگی پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ چیف منسٹر کو وقف بورڈ کی خبر دینے والوں کے ذرائع بھی اپنے اپنے مطلب کی کھچڑی پکارہے ہیں۔ وقف بورڈ پر احتجاجی مظاہروں سے اگر چیرمین کے چیمبر پر گردش کے بادل گہرے ہوجائیں تو آنے والا وقت کٹھن ہوگا۔ اوقافی جائیدادوں کا تحفظ کرنے کی بات کرنے والوں اور لینڈ مافیا کے درمیان پھنسے چیرمین کے سامنے ایک دلدل کا آغاز ہوا ہے۔ یہ ایک ایسے سفر کا اشارہ ہے اگر نادانی سے کام لیا گیا تو اوقافی جائیدادوں کے شارک کا ری ایکشن ایسا شدید ہوگا کہ وہ کسی ثبوت و دلیل کو ماننے اور بات کرنے تیار نہیں ہوگا۔ بہرحال وقف بورڈ کی طرح حکومت کے دیگر ادارے ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں۔ کیوں کہ بجٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ریاست کو اس وقت 1.50 لاکھ کروڑ روپئے کے قرض کا بوجھ ہے اور یہ بوجھ ریاست کے سالانہ بجٹ کے مساوی ہے۔ اس تلخ سچائی کے باوجود حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئندہ دو سال تک تلنگانہ کے لئے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ مگر حکومت اس حقیقت سے ہرگز منہ نہیں موڑ سکتی کہ مستقبل میں یہ قرض کا بوجھ اصل و سود سمیت کئی مسائل پیدا کرے گا۔ اب ریاست کی معیشت کو ترقی یافتہ بنانے والی حکومت مشن بھاگیرتا اور دیگر اسکیمات کے لئے حاصل کردہ قرضہ جات دوبارہ ادائیگی کی مدت 3 سال کے بعد کی مقرر کی ہے۔ حکومت کو اس قرض و سود کی خرابیوں یا محکمہ فینانس میں پکنے والی کھچڑی کا اندازہ نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر اس کو نظرانداز کررہی ہے تو پھر سال 2020 کے بعد ریاست کو اس قرض کے عوض ادا کرنے کے لئے سود کی رقم بھی دستیاب نہیں ہوگی۔ اس بجٹ میں ریاستی عوام کی نیندیں اُڑانے والی باتیں ضرور ہیں مگر عوامل کا مظاہرہ تو حکومت کا ہوتا ہے۔ بات کرنے اور عمل آوری میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

اب اس زمین آسمان کے حوالے سے بھی چیف منسٹر نے مسلمانوں کو تحفظات دینے کا پھر وعدہ کیا ہے۔ اسمبلی کے بعد قانون ساز کونسل میں کی گئی ان کی یہ تقریر بلاشبہ تحفظات کے حق میں مضبوط مانی جاسکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کے لئے مرکز سے پنجہ آزمائی کرنے کا بھی اعلان کیا اور زمین و آسمان کو ایک کردینے کی بھی دھمکی دی ہے۔ حکومت کا ایک سال ختم ہوا تو دوسرا سال شروع ہوتا ہے۔ دنیا کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی خیال کیاکہ چیف منسٹر صاحب کم از کم اس سال اپنے وعدہ کو پورا کریں گے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہر سال ایک ہی بات دہرانا اچھا نہیں لگتا۔ ہم یہ کردیں گے وہ کردیں گے کی باتیں سن کر عوام کا دل دُکھتا ہے۔ بھلا بتایئے آپ تحفظات کے لئے مرکز سے پنجہ آزمائی کی قوت رکھتے ہیں؟ آپ کا جذبہ و حوصلہ یقینا قابل ستائش ہے مگر سچے دل سے کیا یہ ممکن ہے آپ آئندہ انتخابات کی تیاری کررہے ہیں۔ اس لئے آپ کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ آپ اپنے مسلم ووٹ بینک کو آخر وقت تک خواب کی چادر اوڑھاکر سلادیں۔ ایسی باتیں کرنے سے اچھا ہے کہ ریاست کے اندر ہی کچھ اچھے کام کریں۔ یہ سال بھی تحفظات کے بغیر ہی گزر جائے گا تو ماباقی سال انتخابات کی تیاریوں اور پھر سے نئے وعدوں، پرانے وعدوں کو دہرانے کی مشق میں آپ مصروف ہوجائیں گے۔ تماشہ یہ ہے کہ آپ کی باتیں ایسے وقت ہورہی ہیں جب مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت طاقتور بن کر فرقہ پرستانہ پالیسیوں کو ہوا دے رہی ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کو تحفظات دینے کے لئے وہ چیف منسٹر کے سی آر کو گرمجوشی سے گلے لگانے کا خواب پورا ہونے نہیں دیا جائے گا۔ مرکز سے مدبھیر کرنے کا جذبہ قابل ستائش ہے اور ریاست کے مسلمان آپ کی کوششوں اور نیتوں کا احترام بھی کرتے ہیں مگر کے سی آر صاحب کم از کم آپ کی عزت و احترام کرنے والوں کے ساتھ یوں دلی تکلیف والا مذاق مت کیجئے۔ عوام سہانے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کی یادداشت اتنی کمزور نہیں ہے کہ وہ کے سی آر سے اپنی محبت کے عوض تباہی کو دعوت دینے کی حرکت کریں گے۔ کسی لیڈر کے عملی بیان اور سیاسی بیان میں فرق ہوتا ہے۔ تحفظات کے معاملہ میں اگر کے سی آر تھوڑا سا ہوم ورک کرلیں تو مرکز تک جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اب انھوں نے مرکز تک جانے کی باتیں شروع کرکے یہ تو اشارہ دیا ہے کہ تحفظات دینا اب ان کے بس کی بات نہیں۔ اس لئے تحفظات کا مسئلہ مرکز سے رجوع کرکے مسلمانوں کو دیئے گئے خوابوں کو منہدم کرنے کے لئے دہلی کے انہدامی دستے کا سہارا لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیکولرازم کے گورکن سے مسلم تحفظات کے حق میں ہمدردی کی ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ بہرحال تحفظات کے مسئلہ پر ہر وقت حکمراں کو کوسنے، ہر لمحہ اس کا تعاقب کرنے سے یہی باتیں سننے کو ملیں گی کہ ہم تحفظات کے لئے زمین آسمان ایک کردیں گے۔