قومی عزائم پتوں کی طرح اڑنے لگے …!

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کا پلینری سیشن سے یہ تو واضح ہوا کہ اس حکومت کی ناکامیوں کے در و دیوار پر اتنا پانی پڑا ہے کہ اگر کل دھوپ بھی نکلے گی تو چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے قومی عزائم کی عمارت بیٹھ جائے گی ۔ قومی سطح پر کانگریس اور بی جے پی کے خلاف ایک وفاقی محاذ بنانے ان کے خوابوں کی تعبیر کے لیے جو سیاسی صورتحال سامنے آرہی ہے اس سے اندازہ ہوجانا چاہئے کہ قومی سیاست میں معیاری تبدیلیاں لانے کے لیے ایک علاقائی لیڈر کس حد تک کامیاب ہوسکے گا ۔ ملک بھر میں تلنگانہ طرز کی ترقی اور بہبودی اسکیمات پر عمل آوری کا جذبہ ظاہر کرنے والے چیف منسٹر نے خود اپنی ریاست میں ترقی کے ہواّ کو کھڑا کیا ہے تو اس بات سے قومی سیاست سے وابستہ قائدین ناواقف تو ہرگز نہیں ہوں گے ۔ بلا شبہ کے سی آر نے جب تلنگانہ حاصل کرنے کی بات کہی تھی تو ان کی اس بات پر کسی نے بھی یقین نہیں کیا تھا اور یہ تاثر دیا گیا تھا کہ تلنگانہ کا حصول ناممکن ہے ۔ اب اس طرز پر اپنے سیاسی عزائم کو کامیاب بناکر ہی دکھائیں گے ۔ کے سی آر ایک وفاقی محاذ بنائیں گے ۔ اور ملک کو نئی سمت عطا کریں گے ٹھیک ہے ان کی بات میں وزن ہے تو اڑے گا تو خود تو لائے گا ۔ خبر سات آسمانوں کے مصداق وہ دہلی کی سیاست کی خبر لائیں گے ورنہ اڑایا پرندہ تو وہ چھت کے اوپر ہی بیٹھ جائے گا ۔ یعنی اگر قومی سیاست میں کامیابی نہ ملے تو یہ پرندہ خود اپنی ریاست کی چھت پر آکر بیٹھ جائے گا ۔ یہ سوچنا ضروری ہے کہ اگر قومی سیاست کا آسمان نہیں رہا تو پھر ریاست میں ان کا سیاسی سائبان کہیں حادثہ کا شکار نہ ہوجائے ۔ کومپ پلی میں منعقدہ پارٹی کی 17 ویں یوم تاسیس تقریب اگر سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کے اس ریمارک کے مطابق دیکھا جائے تو کے سی آر کے مجوزہ قومی محاذ کو موسیٰ ندی کی طرح گندگی یا آلودگی سے متاثرہ محاذ سمجھا جائے گا ۔ اگرچیکہ ٹی آر ایس حکومت نے موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ بنایا ہے اگر واقعی موسیٰ ندی کو ترقی ملتی ہے تو ٹی آر ایس کے مخالفین کی بولتی بند ہوجائے گی اور پھر کہنا پڑے گا کہ اس شہر میں سب ٹھیک ہے کیا سوچ رہے ہو ۔ چیف منسٹر کے عزم میں قوت ہے تو مل جائے گا موضوع آپ جس بات پہ ہنستے ہو اس بات پر رویں گے ۔ کے سی آر نے اپنے مخالفین کو رونے کا موقع فراہم کرنے کی تیاری شروع کردی ہے ۔ 2019 کے عام انتخابات سے عین ایک سال پہلے وہ عوام سے اپنی حکومت کی دوسری میعاد کے لیے خط اعتماد لینے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ چیف منسٹر نے اس پلینری سیشن میں قومی سیاست کے روڈ میاپ کو جاری کیا ہے ۔ ان کے موجودہ جذبہ کو آج سے 17 سال قبل ان کے عزائم کا مشاہدہ کرنے والوں کو یہ یقین ہے کہ وہ کامیاب ہونے کے لیے انتھک جدوجہد کریں گے ۔ 2001 میں غیر منقسم آندھرا پردیش کے ڈپٹی اسپیکر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کے بعد کے سی آر نے تلنگانہ راشٹرا سمیتی قائم کی تھی پارٹی کے قیام کا اہم مقصد تلنگانہ ریاست کا حصول تھا ۔ ابتداء میں یہ ایک چھوٹی پارٹی تھی اس وقت تلگو دیشم پارٹی اور کانگریس کے قائدین نے کے سی آر کو ایک معمولی لیڈر سمجھا تھا اور ان پر فقرے کستے تھے ۔ لیکن تلنگانہ حاصل کرنے کی کوشش اور 9 روزہ بھوک ہڑتال نے انہیں ان کے مقصد میں کامیاب بنایا ۔ 2014 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے اپنی جدوجہد کو یاد کیا تھا اور کہا تھا کہ میں نے جب یہ سفر شروع کیا تھا تو میرے ہاتھوں میں روشنی کا چھوٹا دیا تھا ۔ راستہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا ہر جگہ ہر سمت آندھیرا ہی آندھیرا تھا لیکن میں نے اپنا سفر ترک نہیں کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فرد واحد کی شروع کردہ تحریک بعد میں عوامی تحریک بن گئی ۔ 2014 میں اپنی کامیابی کے باوجود انہوں نے سکون کے سانس نہیں لی بلکہ وہ ریاست کی ہمہ رخی ترقی کے لیے کام کیا ہے ۔ اب میرا جذبہ قومی سیاست کی طرف امڈ رہا ہے تو اس میں بھی کامیابی ملنے کی امید ہے لیکن ان کے ناقدین نے ان کے وعدوں کی عدم تکمیل کا حوالہ دے کر یہ کہنا شروع کیا کہ تلنگانہ کو سنہرا تلنگانہ بنانے کا وعدہ ہی پورا نہیں ہوا ہے تو وہ قومی عزم کے ساتھ دہلی جاکر کیا کریں گے ۔ کے سی آر کی کارکردگی کے انداز پر ان دنوں شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے ان کے ناقدین انہیں آمریت پسند ڈکٹیٹر کہتے ہیں اور ان کے حامی انہیں ویژن کا حامل سیاستداں تسلیم کرتے ہیں ۔ بی جے پی کی جانب ان کے جھکاؤ کا نوٹ لیتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ مخالف سے صلح و صفائی کر کے انہوں نے اپنے کئی دوستوں کا صفایا کردیا ہے ۔ بی جے پی سے خفیہ ہاتھ ملانے کا نتیجہ برا نکل سکتا ہے ۔ قومی سیاست سے عشق علاقائی لیڈر کو اکثر خود سر ہونے نہیں دیتا اور لیڈر کو یہ عشق اس کی اوقات دکھا دیتا ہے ۔ اگر متحدہ آندھرا پردیش میں کچھ حالات تبدیل نہ ہوتے تو آج کے سی آر اور ان کے حامی بھی نہ ہوتے ۔ 2009 میں ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں اس وقت کے چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی موت کے بعد ہی جو کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اس کا تسلسل آج قومی سیاست کے آئینہ میں دیکھا جارہا ہے ۔ سیاست کے کھیت میں جھکا چہرہ اقتدار کی خواہش بھی بو گیا تھا اور سیاسی فصل اگا کر قومی سیاست سے پیار ہوگیا ہے تو اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہئے ۔ تلگو دیشم اور کانگریس کی ساکھ کو ملیا میٹ کرنے والے کے سی آر نے اب کانگریس قائدین کو اقتدار کے بھوکے اور تلگو دیشم کے قائدین کو تلنگانہ کے غدار کہنا شروع کیا ہے ۔ اب وہ تلنگانہ سے کانگریس اور تلگو دیشم کا صفایا کرنے کی مہم پر ہیں ۔ دہلی کے اقتدار کا خواب دیکھنے والے چیف منسٹر کے سی آر کے فرزند کے ٹی راما راؤ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے آسماں کی شاخ کا انتظار کررہے ہیں ۔ وہ جس کرسی کے نیچے بیٹھ کر اوتار بننا چاہتے ہیں تو وقت کا آئینہ ہی بتائے گا کہ وہ کیا ہیں ۔ یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا کسی کو اقتدار نہ ملا کسی کو ٹکٹ نہ ملا ۔ کے سی آر کی قیادت میں اس وقت چمکتے چاند بن کر شہر شب کے ایوان میں بیٹھے کے ٹی آر کو پرانی کینچلی میں ہی نیا ہونا ہوگا ان کی انتخابی سیاسی منصوبہ بندی اور ان کے والد کے قومی سیاسی عزائم میں جو فرق پیدا ہوگا اس کا فائدہ ان کی حریف پارٹیاں ضرور اٹھانے کی کوشش کریں گی ۔