قومی اقلیتی کمیشن

وہ بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح
جو مرے گھر کے پاس رہتے ہیں
قومی اقلیتی کمیشن
قومی اقلیتی کمیشن نے اترپردیش کے دادری ٹاؤن میں ایک مندر کو استعمال کرتے ہوئے مسلم خاندان کے خلاف پھیلائی گئی افواہ اور 50 سالہ محمد اخلاق کے قتل واقعہ کو منصوبہ بند اور منظم کارروائی قرار دیا۔ عوام کو کسی بات پر اکسانا قانوناً جرم ہے۔ اشتعال انگیزی اور شرپسندی کی حرکتیں بھی قابل مواخذہ ہیں مگر ہندوستان میں جب سے فرقہ پرستوں نے اقتدار تک رسائی حاصل کی ہے، قانون اور سماجی اصول پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں۔ حکمرانی کے فرائض کو فراموش کرکے ہندوتوا نظریہ کی اندھادھند تشہیر کی جارہی ہے۔ فرقہ پرست سیاست دانوں کے بیانات بھی جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ اقلیتی کمیشن نے دادری واقعہ سے قبل اور واقعہ کے بعد حالات کا تجزیاتی جائزہ لیا ہے۔ مرکزی وزیر مہیش شرما کے بیان کا سخت نوٹ لے کر کہا گیا کہ مرکزی وزیر کے علاوہ بی جے پی کے بعض وزراء اور لیڈروں نے محمد اخلاق کے قتل کے بعد جو غیرذمہ دارانہ بیانات دیئے ہیں، اس سے ہندوستان کی شبیہ مسخ ہوگئی ہے۔ دادری قتل واقعہ کو محض ایک حادثہ قرار دینا سراسر غیرانسانی فطرت کا اظہار ہے۔ اکثریتی طبقہ کے لوگوں کو مشتعل کرنے کے لئے جب کوئی مقدس نام جیسے مندر کا استعمال کرتا ہے تو یہ دھرم اور انسانیت کے مغائر حرکت کہلاتی ہے۔ ایک بے بس خاندان پر ہجوم کا ٹوٹ پڑنا بالکلیہ طور پر غیرانسانی وحشیانہ عمل تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات مختلف نوعیات کے ہوتے ہیں۔ کوئی طاقت ،مسلمانوں کو تبدیلی مذہب کے ذریعہ پریشان کررہی ہے تو کوئی گوشت کی خاطر ان کی جان لے رہا ہے۔ کسی کو اپنے مہذب ہونے کا اتنا زعم ہے کہ وہ اپنی بستیوں، اپارٹمنٹس میں مسلمانوں کو مکانات، فلیٹس کرایہ پر دینے سے انکار کرتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں فلم اداکار نصیرالدین شاہ نے کہا تھا کہ ٹوئٹر پر انہیں اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ ایک مسلمان ہیں۔ نصیرالدین شاہ نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رسم اجراء تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ ذات پات کی بنیاد پر جب شہریوں اور انسانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ ہندوستان میں جب سے مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، ماسواء اس نااُمیدی کے ہر طرف مار دھاڑ، تشدد کی ہی خبریں آرہی ہیں۔ محمد اخلاق کے قتل سے ملک کی فضاء سوگوار ہوگئی تھی کہ اب دلتوں کے بچوں کو زندہ چلا دینے کا واقعہ رونما ہوا۔ سرزمین ہند پر ایک قسم کی ایسی جنگ چھیڑی جارہی ہے جس میں ہندوستانی خود آپس میں لڑ کر خود کو لہولہان کرلیں۔ ان کے لہو پر سیاست کرنے والی طاقتیں فرقہ پرستی کا پرچم لہراکر اپنا فائدہ حاصل کررہی ہیں۔ اقلیتی کمیشن نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں دادری واقعہ کو منصوبہ بند ضرور قرار دیا ہے مگر حکومت کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کرنی چاہئے۔ ہندوستانی ہر دَم دعاگو ہیں کہ ملک میں امن قائم ہوجائے کیوں کہ امن ہی سے خوشحالی ہے۔ عوام کی اکثریت اس خوبصورت خواہش کے ساتھ سیکولرازم کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں لیکن سنگھ پریوار نے مذہب اور نفرت کی رکاوٹیں کھڑی کرکے دادری جیسے واقعات کو رونما کرنے میں اہم رول ادا کردیا ہے۔ ملک کے حالیہ واقعات نے عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا دیا ہے۔ نئی الجھنوں کو جنم دیا ہے۔ ان واقعات نے حکومت کی نااہلی کو بھی بے نقاب کیا۔ جمہوریت کی سلامتی کی دہائی دینے والی اپوزیشن پارٹیاں اور ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز صدرجمہوریہ نے دادری کی بگڑتی کیفیت پر اپنے دُکھ کا اظہار ضرور کیا ہے مگر جمہوریت کی سلامتی اور بقاء کا انحصار اس پر نہیں ہے کہ اپوزیشن صرف بیانات دے کر خاموش ہوجائے یا صدرجمہوریہ کسی تقریب میں تقریر کے ذریعہ اپنی بات پیش کرکے صحت مند جمہوری کلچر کو فروغ دینے پر زور دیں۔ اصل مسئلہ جمہوریت کو پامال کرنے والی طاقتوں کی سرکوبی ہے۔ سیاسی نظام اپنے استحکام کی طرف اس لئے گامزن ہے کیونکہ اس نے فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور یہی آزادی ملک کے سیکولر کردار اور جمہوری اقدار کو پامال کرنے کا بھی سرٹیفکیٹ نہیں ہونا چاہئے۔ قومی اقلیتی کمیشن کے سامنے صدرجمہوریہ کے خیالات اور ملک کے حالات دونوں موجود ہیں۔ اس پر غوروخوض کرکے ہی رپورٹ بنانے اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔