قومی اردو کونسل کی قیادت : نئے ویژن کی ضرورت

صفدرامام قادری
معروف تنقید نگار پروفیسر ارتضیٰ کریم کے قومی اردو کونسل براے فروغِ اردو زبان کے ڈائرکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی اردو کے علمی حلقے میں سردوگرم گفتگو جاری ہے لیکن عام لوگوں کی یہ توقع ہے کہ قومی اردو کونسل اپنی کارکردگی میں ملک گیر اور عالم گیر سطح پر امتیاز حاصل کرکے اپنی کامیابیوںکی نئی تاریخ لکھے۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم کیلئے قومی اردو کونسل کی قیادت پھولوں کی سیج تو نہیں مانی جائے گی۔ ارتضیٰ کریم نے اپنی تنہا کوشش سے دہلی یونی ورسٹی کے عہدۂ صدارت میں شعبۂ اردوکی گولڈن جوبلی منائی تھی۔ تین دنوں کا جشن ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ ، تحقیق کار اور طلبا سے کچھ اس انداز سے سجایا گیا تھا جیسے واقعی پچاس برس کی خوشیاں سمٹ آئی ہوں۔ ہندستان میں شاید ہی شرکا اور اہتمام و انتظام کے اعتبار سے کسی شعبۂ اردو نے اتنا بڑا پروگرام انجام دیا ہو۔ اس اعتبارسے ہمیں امید ہے کہ ارتضیٰ کریم قومی اردو کونسل کے پلیٹ فارم سے بڑے خواب سجائیںگے اور ان کی تکمیل کچھ اس انداز سے کریںگے کہ جب وہ اس عہدے سے رخصت ہوںگے تو وہ ایک ایسی بڑی لکیر کھینچ دیںگے کہ غالب کے لفظوںمیں لوگوں کے سامنے یہ تازیانہ ہوگا: دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا۔

کسی بھی بڑے ادارے کی طرح قومی اردو کونسل کی کامیابیوںکے ساتھ اس کی ناکامیاںبھی ہمارے سامنے ہیں۔ عوام کے پیسے سے چلنے والے ادارے کو جس نظم و ضبط کے ساتھ اور مالی اعتبار سے ناپ تول کر چلنا چاہیے، ایک طویل مدت سے قومی کونسل اس سلسلے سے کوتاہیوں میں مبتلا ہے۔ ڈائرکٹر تو ایک انتظامی عہدہ ہے لیکن اس کے شامل بہت سارے افراد کو غیر ضروری طور پر مالی فائدہ پہنچانے اور ادبی طور پر بااختیار بنانے کا ایک کھیل تماشا اس ادارے میں روا رہا ہے۔ گذشتہ دنوں اردو اخبارات میں دلی یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چند سابق صدور ، شعبۂ اردو کے نام اچھلے جن کے بارے میں باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی لاکھ روپے سالانہ ہر ایک کی جیب میں قومی اردو کونسل کی طرف سے مختلف کاموں کی مد میں پہنچتے رہے۔ یہ جمہوری نظام میں نہ صرف یہ کہ نامناسب ہے بلکہ ضابطے کے دائرۂ کار میں آنے پر انتظامی بازپرس کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ پتا نہیں آنے والے وقت میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ایسے الزامات اور مفاد پرستانہ رویے کے سبب پچھلے کئی ڈائرکٹروں پر الزامات عاید ہوئے ہیں۔ سب نے ملک گیر ادارہ بنانے کی جگہ پر اردو کے بعض اساتذہ کی لابی تیار کرکے اپنی کشتی پار اتارنے کی کوشش کی ۔
قومی اردو کونسل کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے منصوبے لکیر کا فقیر کی طرح سے باوا آدم کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تمام منصوبے مٹھی بھر اردو اساتذہ کے مفاد کو دھیان میں رکھ کر بنائے جاتے رہے ہیں۔ پروجیکٹ جنھیں حاصل ہو، انھیں ہی مالی اعانت بھی ملے۔ آزادانہ طور پر انھیں کی کتابیں بھی کونسل شائع کرے۔ جب موقع ملے تو وہ مبصرین کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور جب گنجایش نکل آئے تو مقالہ خواں کی بزم میں اتر آئیں۔ بہر طور ہر کام میں مالی فائدہ چند مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا رہا ہے۔خاص طور سے دہلی میں اور بالعموم ہندستان کے مختلف شہروں میں ایسے اساتذہ اور ریٹائرڈ پروفیسروں کی تعداد کم نہیں ہے جنھوںنے قومی اردو کونسل سے سفر خرچ سے لے کر ادب خرچ تک کے نام پر سالانہ کئی کئی لاکھ روپے نہ بٹورے ہوں۔سوال یہ ہے کہ ان بیس پچیس افراد کے علاوہ کیا اس ملک میں لکھنے پڑھنے اور قومی اردو کونسل کے کاموں کو پورا کرنے والے لوگ موجود نہیں ہیں؟ یہ کسی سرکاری ادارے کی آڑ میں ذاتی مفاد کی پشت پناہی ہے جو ہر اعتبار سے نامناسب ہے۔
اردو موجودہ عہد میں جن چیلینجز کا سامنا کررہی ہے ، اس کے سامنے قومی اردو کونسل نے کوئی نیا کام اپنے ذمے نہیں اٹھایا۔ کتابیں چھاپنا اور اردو کے اساتذہ کو خوش کرنا اس کا آخری کام نہیں تھا۔ کمپیوٹر کی تعلیم بھی اگر اس نے ملک کے طول و عرض میں پھیلائی تو یہ بھی کوئی ایسا کام نہیں تھا جس پر تکیہ کرکے بیٹھ جائیں کہ ہم نے اپنا سب سے بڑا کام انجام دے دیا۔ سے می نار اور جشن بھی ضروری ہیں لیکن اردو کی نئی نسل کو قومی اردو کونسل سے جوڑنے کی کوئی ترکیب آج تک عمل میں نہیں آئی ہے۔ یونی ورسٹی کے اساتذہ کو فیض پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی لیکن وہ طلبا اور تحقیق کار جن کے ہاتھ میں اردو کی شمع ہوگی ، ان کی پشت پناہی کا قومی اردو کونسل نے کبھی ارادہ ہی نہیں کیا۔ یہ اچھا لگا کہ ارتضیٰ کریم صاحب نے اپنے افتتاحی جلسے میں یہ اعلان کیا کہ ایم۔فل۔ اور پی۔ایچ۔ڈی۔ کرنے والے پچاس بچوں کو قومی اردو کونسل فیلوشپ دے گی۔ ۲۹؍صوبوں اور درجن بھر مرکزی اقتدار کی ریاستوں کو سامنے رکھیں تو پچاس فیلوشپ اونٹ کے منہ میں زیرہ کی طرح سے ہے۔ اس کی تعداد سینکڑوں میں ہونی چاہیے لیکن یہ اعلان خوش کن ہے کیوںکہ اس سے اس نقطۂ نظر کا اعلان ہوتا ہے کہ قومی اردو کونسل اردو کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ قومی اردو کونسل قومی سطح کا ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر دہلی میں ہے۔ لیکن اکثر و بیش تر اس کی کارکردگی سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ یہ دہلی اور اس کے قرب و جوار کی سرگرمیوںکا مرکز ہے۔ اگر ہندستان کی پارلیمنٹ دہلی میں ہونے کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے کہ اس کا دائرۂ کار شہرِ دہلی ہے تو ملک کی کشتی ڈوب جائے گی۔قومی اردو کونسل کو بھی دہلی اور چند گنی چنی یونی ورسٹیوںکے چکرویوہ سے نکلنا ہوگا ورنہ اس کا تاریخی کردار کبھی سامنے نہیں آسکے گا۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے افتتاحی جلسے میں یہ بھی اعلان کیا کہ قومی اردو کونسل کے چار یا چھے علاقائی مراکز قائم کیے جائیںگے۔ یہ نہایت خوش آیند بات ہے اور قومی ادارے کو قومی سطح پر پھیلانے کا فیصلہ ہے۔ اسے ایمانداری کے ساتھ انجام دیا گیا تو قومی اردو کونسل کی یہیں سے نئی تاریخ شروع ہوگی۔
قومی اردو کونسل کو اردو کے روزگار سے جوڑنے کے نئے ذرائع پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کمپیوٹر خواندگی میں اس نے یہ سطح حاصل کی لیکن بڑی ملازمتوںکی طرف کیسی پیش رفت ہونی چاہیے ، اس طرف آج تک کبھی توجہ نہ دی گئی۔ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ قومی اردو کونسل ملک کی بڑی ملازمتوں کے لیے اردو میڈیم اور اردو مضمون دونوں نشانات کو سامنے رکھ کر ایسے ادارے بنائے جہاں تربیت پاکر اردو آبادی آئی۔اے۔ایس۔ ، ڈپٹی کلکٹر، لکچرراور دیگر شعبوں تک پہنچ سکے۔ اس کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں رہایشی ادارے قائم کرکے انقلاب آفریں قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ اردو تہذیب تو ہم پہلے ہی کھو چکے ، اب اردو کے وقار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیںگے۔

قومی اردو کونسل کو اپنی اسکیموںکو سفاکی کے ساتھ بدلنے کی ضرور ت ہے۔ سو کتاب اور سو رسالے خرید کر ریوڑیوں کی طرح سے مفاد پرستانِ ادب اور چند لائق لائبریریوں تک پہنچانے کا منصوبہ بھی نئے سرے سے غور و فکر چاہتا ہے۔ کتابوں کی تدوین کی ذمے داری انھی افراد کو دی جائے جو اس کے اہل ہوں۔ قومی اردو کونسل نے بہت ساری بُری اور بھدّی کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ نام بڑے اور درشن چھوٹے۔اس کام کو بند ہونا چاہیے۔ تین رسائل جو شائع ہورہے ہیں، ظاہری سج دھج میں ان کا معیار بین الاقوامی ہے لیکن نفسِ مضموں اور علمی معیار کے اعتبارسے وہ علاقائی حیثیت سے بھی کم تر ہیں۔ ان رسائل کے جو خاص نمبر شائع ہوئے ان کی ایک ہی صفت دلآویز رہی کہ ان کی قیمت کم تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رسائل اہل لوگوں کے ہاتھ میںنہیں ہیں اور قومی اردو کونسل نے لائق اہلِ قلم کی ایسی ٹیم نہیں بنائی جس کی وجہ سے ان کے خصوصی شمارے مثالی بن سکیں۔ ارتضیٰ کریم صاحب کو ان سب امور پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی ۔

آج ملک کی سیاست کا جو رنگ ہے وہ اردو آبادی سے عدم رغبت کا اشاریہ ہے۔ لیکن اسی سیاست کے طفیل ارتضیٰ صاحب کو ڈائرکٹری ملی ہے اور اسی دائرۂ کار میں رہ کر انھیں قومی اردو کونسل کو چلانا ہے۔ انھیں جو کمیٹی حاصل ہے ، وہ نہ اردو کے ماہرین پر مشتمل ہے اور نہ ہی وہ اردو آبادی سے محبت کرنے والوں کی ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت قومی اردو کونسل کے ہاتھ پائوں کاٹ چھانٹ کرے ۔ ارتضیٰ کریم صاحب کو دانش مندانہ اور مکمل پروفیشنل انداز میں کونسل کے حقیقی نشانوں کو سمجھتے ہوئے ان مشکلات سے نبردآزما ہونا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ رسا کشی اور اختلافات کی صورت بھی پیدا ہو۔ ایسے لمحات میں بعض اوقات اپنے عہدے بھی گنوانے پڑتے ہیں ۔ لیکن ارتضیٰ کریم نے دلی یونی ورسٹی میں رہتے ہوئے مشکل حالات میں کام کرنے کا سلیقہ ضرور سیکھا ہوگا۔ قومی اردو کونسل کو چلاتے ہوئے انھیں وہ اسباق یاد رہنے چاہیے کیوںکہ جب انھوںنے کانٹوں کا تاج پہن رکھا ہے تو اب خوف کس چیز کے لیے؟ وہ چاہیں تو اردو آبادی کی سب سے محبوب شخصیت بھی بن سکتے ہیں۔ کارکردگی شرط ہے۔ اب ان کا میدان صرف دلی نہیں ، پورا ہندستان ہے۔ اس لیے ان کے دوست دشمن بھی صرف دلی کے نہیں ہوںگے بلکہ وہ بھی پورے ملک سے سامنے آئیںگے۔ ایسے میں ان کی کامرانی ،ان کی سرگرمیوںسے ہی سامنے آئے گی۔ وہ یہ سمجھ لیں کہ ملک میں ۱۵؍ کروڑ سے زیادہ اردو بولنے والوں کے وہ خادم ہیں۔ سب کی طاقت اگر وہ لے سکے تو ان کی قیادت میں قو می اردو کونسل کوئی ایسا مثالی کام کرجائے گی کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم بھی تاریخ کا حصہ ہوجائیںگے ورنہ نہ جانے کتنے عہدے داران تاریخ کی گرد ہوچکے اور وہ بھی انھی ناکاموں میں شامل رہیںگے۔