قطر کی جی سی سی رکنیت ختم کردی جائے : بحرین

l قطر نے اگر اپنا موقف تبدیل نہیں کیا تو جی سی سی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے
l سعودی عرب قطر میں اقتدار کی تبدیلی کا خواہاں، 1996ء میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا تھا
l سعودی خواتین کو پے در پے آزادیاں دینے سے جنسی بے راہ روی کا اندیشہ
l شیخ خالد بن احمدالخلیفہ کا ٹوئیٹر پر اظہارخیال
قاہرہ ۔ 30 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) اگر قطر نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی تو بحرین نے آئندہ جی سی سی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہیکہ قطر کی جی سی سی رکنیت ختم کرنا ہی دراصل اس تنازعہ کی یکسوئی کی جانب صحیح قدم ہوگا۔ بحرین کے وزیرخارجہ نے اتوار کو ٹوئیٹر پر یہ بات کہی۔ خالد بن احمد الخلیفہ نے یہ بھی کہا کہ اگر قطر یہ سمجھتا ہیکہ آئندہ جی سی سی اجلاس کے انعقاد تک وہ وقت گزاری کے حربے استعمال کرتا رہے گا تو اس کا ایسا سوچنا غلط ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو بحرین جی سی سی اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرے گا۔ الخلیفہ کے مطابق جی سی سی کو اگر قائم و دائم رکھنا ہے تو قطر کو اس کی رکنیت سے محروم کردینا ہی صحیح قدم ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمیں کوئی دیگر مسئلہ لاحق نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہیکہ قطر پر دہشت گردی کیلئے مالیہ فراہم کرنے اور پشت پناہی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سعودی عرب، بحرین، امارات اور مصر نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیئے تھے جبکہ قطر نے اس پر عائد کئے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ جی سی سی کا قیام 1981ء میں عمل میں آیا تھا جو ایک سیاسی اور معاشی یونین ہے جس میں مندرجہ بالا ممالک کے علاوہ کویت اور عمان بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہیکہ قطر پر تقریباً پانچ ماہ سے عائد سفارتی تحدیدات سے جی سی سی کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بیوقت موت سے ہمکنار ہوجائے۔ دوسری طرف ماہ جون میں سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک نے مطالبات کی ایک فہرست جاری کی تھی جس میں دوحہ سے اپنی براڈ کاسٹنگ کرنے والے الجزیرہ بند کردینے، ایران سے تعلقات ختم کرنے اور امارات میں ترک فوج کا اڈہ بند کردینا شامل ہے۔ شیخ خالد کا یہ کہنا ہیکہ قطر جب تک جی سی سی کا رکن ہے، بحرین جی سی سی اجلاس میں سرے سے شرکت ہی نہیں کرے گا کیونکہ قطر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ایران سے قریب تر ہوتا جارہا ہے اور اپنی سرزمین پر بیرونی افواج کے ناپاک قدم رکھنے کی وجہ بن رہا ہے۔ ایسا کرنا جی سی سی ممالک کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ جی سی سی ممالک جاریہ سال کے اختتام سے قبل اجلاس منعقد کرنے والے تھے لیکن حالیہ بحران کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہیکہ جی سی سی کا اجلاس یا تو ملتوی ہوجائے گا یا منسوخ۔ سعودی عرب نے قطر سے تعلقات ختم کرنے کے بعد اپنی بری اور بحری سرحدوں کو بند کردیا تھا اور یہاں تک کہ فضائی رابطہ بھی مسدود کردیا تھا جبکہ سب سے غیرانسانی حرکت یہ کی گئی کہ قطری شہریوں کو سعودی عرب چھوڑنے کا حکم دیا گیا جس سے ایک ایسا انسانی بحران پیدا ہوا جس نے خون کے رشتوں کو بھی متاثر کیا جس کی ہر خاص و عام نے مخالفت کی۔ دوسری طرف امیر قطر نے کل ایک انٹرویو کے دوران سعودی عرب اور اس کے حلیفوں پر الزام لگایا کہ وہ قطری حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کررہے ہیں۔ سی بی ایس کے ’’60 منٹس‘‘ نامی پروگرام کے دوران شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب قطر میں اقتدار کی تبدیلی کا خواہاں ہے کیونکہ اس وقت جیسے حالات ہیں اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کیلئے تاریخ بھی گواہ ہے اور ہمیں یہ سبق دیتی ہیکہ سعودی عرب نے 1996ء میں بھی یہی حرکت کی تھی جب ان کے والد امیر قطر بنے تھے اور گذشتہ دو تین ہفتوں سے حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ایک بار پھر 1996ء والا کھیل کھیلا جارہا ہے لیکن سعودی عرب کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس وقت اصلاحات کے نام پر یا ویژن 2030ء کے نام پر سعودی خواتین کو جو آزادیاں دی جارہی ہیں، اس سے سعودی عرب طوائف الملوکی کا شکار ہوسکتا ہے اور خواتین جنسی بے راہ روی کا۔ جب پردہ نشین خاتون کو چراغ خانہ بنانے کی بجائے شمع محفل بنایا جائے گا تو حالات کیسے ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ کسی بھی مغربی ملک میں خواتین کی بے راہروی کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔