قطرہ قطرہ پانی کو ترس جاؤ گے اگر …

’’بھلا بتاؤ جو پانی تم پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اُتارا ہے یا ہم اُتارنے والے ہیں‘‘
’’ہم چاہیں تو اُسے نمکین (کھاری) کردیں پھر کیوں شکر ادا نہیں کرتے‘‘

پانی کی بچت کیسے کریں
یاد رکھئے آنے والے برسوں میں پانی کی شدید قلت ساری دنیا کو متاثر کردے گی۔ پانی علاقائی سطح سے لے کر عالمی سطح تک ہونے والی پائیدار ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ یہ جانداروں کے لئے جزلائنفک ہے۔ ہمارے ملک میں مہاراشٹرا، راجستھان اور شمالی ہند کی ایسی کئی ریاستیں ہیں جہاں پانی کی شدید قلت کے باعث عوام کو صرف چند گھڑے پانی کے لئے میلوں دور پیدل چل کر جانا پڑتا ہے۔ ہم نے اپنے ہی ملک میں ہزاروں کسانوں کو انتہائی پریشانی کے عالم میں خشک زمین کو بڑی حسرت و یاس سے دیکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ہم قدرت کی اس نعمت کو احتیاط سے خرچ کرتے ہوئے پانی کو نہ صرف محفوظ بناسکتے ہیں بلکہ اس کی بچت بھی کرسکتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ تو اچھا ہوا کہ ہوا اور پانی پر قدرت کا کنٹرول ہے ورنہ ہر بڑا ملک چھوٹے ملک کو ہر طاقتور کمزور کو ہوا اور پانی سے بھی محروم کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ پانی کی بچت کرتے ہوئے آپ اور ہم انسانیت کی مدد کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہر شخص یومیہ اوسطاً 35 لیٹر پانی استعمال کرتا ہے (پینے، نہانے، دھونے وغیرہ وغیرہ میں) اگر ہم ان کاموں کے لئے پانی احتیاط سے برتیں تو یہ انسانیت پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ اپنے گھروں میں صرف ایک وقت کے برتن دھونے میں کافی پانی خرچ کردیتے ہیں باالفاظ دیگر ضائع کردیتے ہیں۔ نلوں کی ٹوٹیوں کو تبدیل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسرے کاموں کے لئے پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر پانی کو احتیاط سے خرچ کریں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ پہلے پانی کی فروخت کا تصور نہیں کیا جاتا تھا لیکن آج سڑکوں، دکانوں، بازاروں میں سرِ عام پانی فروخت کیا جارہا ہے۔ اگر ہم احتیاط نہ برتیں تو آنے والے دنوں میں جنوبی کوریا کی طرح لوگوں کو حکومت کے قائم کردہ آبی مراکز سے محدود مقدار میں پانی حاصل کرنا پڑے گا۔ یاد رکھئے پانی کے تحفظ کو یقینی بنانے کا کام اپنے گھروں سے کیجئے۔ اپنے گھروں کے باہر (کیونکہ اب ماضی کی بہ نسبت گھر سکڑ کر رہ گئے ہیں) شجرکاری کیجئے، جنگلات کے کٹاؤ کو روکئے اور رکوایئے اور ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کیجئے کیوں کہ وہ ہمیں نوالہ بھی عطا کررہا ہے اور پانی جیسی نعمت سے بھی سرفراز کررہا ہے ورنہ ایک گھونٹ پانی کے لئے بھی ہمیں ترسنا پڑتا۔

محمد ریاض احمد
قرآن مجید کی اِن آیاتِ مبارکہ سے آپ جان گئے ہوں گے کہ ہم کارخانۂ قدرت کی ایک انمول نعمت پانی کی اہمیت، اس کی افادیت اور موجودہ دور میں اس کے تحفظ کی بات کرنے والے ہیں۔ بے شک پانی اللہ عزوجل کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ایسی نعمت جس کے بناء کوئی بھی جاندار اپنی بقاء کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انسانوں، حیوانات، نباتات، چرند و پرند غرض کائنات کی ہر وہ شئے جس میں جان پائی جاتی ہے پانی کے بغیر گزارا نہیں کرسکتی۔ باالفاظ دیگر جہاں پانی ہے وہاں زندگی ہے اور جہاں پانی نہیں وہاں زندگی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاند پر کمند ڈالنے والے حضرتِ انسان سیاروں میں زندگی کے آثار یعنی پانی کی تلاش کرنے سخت جدوجہد میں مصروف ہوگئے ہیں۔ دین اسلام میں پانی کے تحفظ، اسے محفوظ کرنے اور اس کے استعمال میں احتیاط برتنے یعنی پانی کے بیجا استعمال یا اسے ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بنی نوع انسان کے لئے پانی کی اہمیت کا اندازہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیثِ مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے :
’’حضرت سعدؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری والدہ کا انتقال ہوگیا (ان کے ایصال ثواب کیلئے) کون سا صدقہ زیادہ افضل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پانی سب سے افضل ہے۔ اُس پر حضرت سعدؓ نے اپنی والدہ کے ثواب کے لئے ایک کنواں کھدوایا۔ قارئین ہر سال 22 مارچ کو ساری دنیا میں عالمی یوم آب WORLD WATER DAY منایا جاتا ہے۔ 1993 ء سے عالمی سطح پر یہ یوم منایا جارہا ہے جس کے ذریعہ عالمی برادری، حکومتوں، حکمرانوں، بادشاہوں، صدور مملکتوں، وزرائے اعظم سے لے کر عام شہریوں میں یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کرۂ ارض پر پانی کم ہوتا جارہا ہے۔ پانی کی قلت سے متاثرہ ملکوں و علاقوں کی تعداد میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کے لئے حضرتِ انسان ہی ذمہ دار ہیں جو قدرت سے بغاوت اور غداری کے ذریعہ خود کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ آج دنیا کے بازاروں میں سب سے زیادہ اہمیت اسلحہ کے بازاروں نے اختیار کرلی ہے۔ مختلف ممالک انسانیت کی تباہی و بربادی کا باعث بننے والے اسلحہ کے نہ صرف تجربات کررہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ان کی تیاری بھی عمل میں لارہے ہیں۔
دنیا کی نام نہاد بڑی طاقتوں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، جرمنی جیسے ملکوں نے جوہری اسلحہ بھی تیار کرلئے ہیں۔ ان ملکوں کی فہرست میں ہندوستان، پاکستان بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے بھی دنیا کو دھوکہ میں رکھتے ہوئے شاید عام تباہی کا یہ ہتھیار تیار کرلیا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انواع و اقسام کے بم اور بم برسانے والے طیاروں کی تیاری بھی کرلی گئی اور اڈوانسڈ سے اڈوانسڈ ٹیکنالوجی کو صرف اور صرف اپنے دفاع کے بہانے تیار کیا جارہا ہے لیکن یہ ہتھیار ملکوں یا علاقوں کو نہیں بلکہ دنیا کو ہی تباہ کرکے رکھ دیں گے۔ ترقی کے نام پر انسان اس قدر بے بہرہ ہوگیا کہ وہ خود کو گناہوں کے دلدل میں دھنسانے کو قابل فخر کارنامہ قرار دے رہا ہے۔ بازارِ حُسن سجائے جارہے ہیں جہاں گناہوں کی لذتوں کے سودے کئے جارہے ہیں، یعنی زنا کو عام کیا جارہا ہے۔ ظلم و زیادتی عام ہوگئی ہے۔ کمزوروں پر بالادستی قائم کی جارہی ہے اور حقداروں کا حق مارا جارہا ہے۔ ترقی کے نام پر اور حمل و نقل کے عصری ذرائع متعارف کروانے اور صنعتی ترقی کے بہانے ماحول میں آلودگی پھیلائی جارہی ہے۔ عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ندیوں، تالابوں، جھیلوں، کنٹوں اور آبی ذخائر کے پیٹ مٹی سے بھر کر حضرتِ انسان ہی وہاں بستیاں بسارہے ہیں۔ کنکریٹ کے جنگل آباد کررہے ہیں۔ جنگلاتی کٹاؤ کے ذریعہ اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے نام پر تباہی و بربادی کو دعوت دے رہے ہیں۔ جب جنگلات کٹتے ہیں تو صرف ماحول سے سرسبز و شادابی ہی اوجھل نہیں ہوتی بلکہ جنگلاتی حیاتیات کا وجود بھی مٹ جاتا ہے جبکہ حشرات الارض سے لے کر رینگنے، بھاگنے، دوڑنے، دھاڑنے والے جانور اور سریلی آوازوں کے ذریعہ ماحول کو تر و تازہ رکھنے والے انواع و اقسام مختلف رنگ و نسل کے حامل پرندے بھی معدوم ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ تمام کے تمام انسانی زندگی کی بقاء کے لئے بہت ضروری ہیں۔ اللہ عزوجل نے پانی جیسی نعمت پیدا کرتے ہوئے انسان پر ’احسان عظیم‘ کیا لیکن افسوس کہ انسان خود اپنی تباہی کا سامان کررہا ہے۔ اقوام متحدہ ’عالمی یوم‘ آب جب سے منانا شروع کیا، اس سے پہلے ہی یہ اعلان کیا جاچکا تھا کہ پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن اس کرۂ ارض پر پانی کی مقدار میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی مقصد میں واضح طور پر کہا ہے کہ اس کا مقصد 2030 ء تک سب کے لئے پینے کا صاف و شفاف اور محفوظ پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ لاکھ ترقی کے باوجود آج بھی اربوں کی تعداد میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ عالمی رضاکارانہ تنظیم ’واٹرایڈ‘ کے مطابق عالمی سطح پر تقریباً 4 ارب لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ان میں سے 600 ملین لوگ ایسے علاقوں میں ہیں جہاں ’پانی کی شدید قلت‘ پائی جاتی ہے۔ یہ سب انسانوں کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ قدرت نے ہمیں ہوا اور پانی جیسی نعمتوں سے سرفراز کیا اور ہم نے ان کی ناقدری کی۔ ماہرین کے مطابق 2050 ء تک دنیا کی 5 ارب آبادی کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ انکشاف ’’زیرزمین پانی کی عالمی قلت 2019‘‘ نامی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عالمی حدت اور آبادی کے توازن میں تبدیلی کے باعث پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے۔ یہ بھی پیش قیاسی کی گئی کہ 2040 ء تک 33 تا 40 ملکوں کو شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن میں مشرق وسطیٰ کے 15 ممالک، شمالی افریقہ کے اکثر ملک، پاکستان، ترکی، افغانستان، اسپین کے علاوہ ہندوستان، چین، جنوبی افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا جیسے ممالک شامل ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ ہندوستان، دنیا میں سب سے زیادہ گراؤنڈ واٹر (زیر زمین پانی) استعمال کرتا ہے۔ عالمی سطح پر وہ 24 فیصد زیر زمین پانی استعمال کررہا ہے۔ ساری حکومتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ صنعتوں، زرعی شعبہ، ٹیکسٹائلز، ہائیڈرو الیکٹرک انرجی، نیوکلیر انرجی اور تھرمل انرجی کیلئے پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر اگر پانی کی بڑھتی قلت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب آنے والے برسوں میں جنگیں سرحدی و اقتصادی تنازعات کے لئے نہیں بلکہ پانی کے لئے ہوں گی جن کے نقصان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے ہمارے وطن عزیز میں زرعی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے پانی کی بچت کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر آبپاشی کے لئے پانی کا بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر گیہوں اور چاول کی فصلوں کے لئے بہت زیادہ پانی درکار ہوتا ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف ایک کیلو گیہوں کی پیداوار کے لئے 1654 لیٹر پانی اور ایک کیلو گرام چاول کے لئے اوسطاً 2800 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ ہمارے ملک نے 2014-15 ء میں 37.2 لاکھ ٹن باسمتی چاول ایکسپورٹ کیا اس کے لئے کم از کم 10 کھرب لیٹر پانی استعمال کیا گیا۔ 2017-18 ء میں ہندوستان میں 99.7 ملین میٹرک ٹن (99.7 ارب کیلو گرام) گیہوں کی پیداوار ہوئی اس طرح 112.9 ملین میٹرک ٹن چاول کی پیداوار ہوئی۔ حکومت نے 2019 ء کے لئے 100 ملین میٹرک ٹن گیہوں اور 113 ملین میٹرک ٹن چاول کی پیداوار کا نشانہ رکھا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com