قصّہ ایک ہم شکل کا

میرا کالم مجتبیٰ حسین
بعض اوقات کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ ان واقعات کے پیش آجانے کے باوجود آپ لوگوں کو یہ یقین نہیں دلاسکتے کہ یہ واقعہ آپ کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ پچھلے دنوں میں بذریعہ ٹرین دہلی سے حیدرآباد جارہا تھا ۔ ایک حیدرآبادی دوست بھی میرے ہم سفر تھے ۔ ناگپور کے اسٹیشن پر گاڑی بڑی دیر تک ٹھہرتی ہے ۔ ہم دونوں سفر کی بوریت کو ختم کرنے کے لئے پلیٹ فارم پر اترے تو اچانک ایک شخص بڑی گرم جوشی کے ساتھ میری طرف آیا اور مجھ سے بغل گیر ہوتے ہوئے بولا ’’یار ! دیپک سکسینہ کیسے ہو؟ کہاں جارہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’حیدرآباد جارہا ہوں‘‘ پوچھا ’’تو کیا اب حیدرآباد میں بھی تم نے اپنا بزنس شروع کردیا ہے ؟‘‘ میں نے کہا ’’شروع تو نہیں کیا ہے ۔ شروع کرنے کی سوچ رہا ہوں‘‘ ۔ کہنے لگا ’’بہت اچھا خیال ہے ۔ یہ بتاؤ گھر پر سب کیسے ہیں؟‘‘ ۔

میں نے کہا ’’سب اچھے ہیں ۔ مہندر انجینئرنگ کرنے کے بعد باہر چلا گیا ہے ۔ سرلا اپنی سسرال میں خوش ہے ۔ ویریندر کے بارے میں تو تم جانتے ہوگے کہ اس نے اب پلاسٹک کی چیزیں بنانے کا اپنا ایک کارخانہ کھول لیا ہے‘‘ ۔ اس شخص نے کہا ’’اچھا مجھے پتہ نہیں تھا ۔ اتنا بڑا ہوگیا ہے ۔ وہ ذہین پہلے ہی سے تھا ۔ کاروبار میں تم سے یقینا آگے جائے گا‘‘ ۔ میں نے کہا ’’بس تمہارا آشیرواد چاہئے‘‘ ۔پھر اس شخص نے پوچھا ’’اور بھابی کا کیا حال ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’بھگوان کی کرپا سے بالکل اچھی ہیں ۔ وہ جو اپنے الہ آباد کے مشہور وید پنڈت پربھاکر دویدی ہیں نا ان کے علاج سے بڑا فائدہ ہوا ہے ۔ جوڑوں کا درد بالکل جاتا رہا ہے‘‘ ۔ اس شخص نے حیرت سے کہا ’’اچھا وید جی اب تک زندہ ہیں ۔ بہت بوڑھے ہوگئے ہوں گے ۔ کیا اسی پرانے مکان میں رہتے ہیں؟‘‘ ۔ میں نے کہا ’’ہاں وہی گھاس منڈی والے مکان میں رہتے ہیں‘‘ ۔ بولا ’’اچھا کیا تم نے بتادیا ۔ انہیں خط لکھتا ہوں ۔ پچھلے کچھ دنوں سے میں بھی جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوں ۔ حیدرآباد سے الہ آباد کب واپس جاؤگے؟‘‘ میں نے کہا ’’ایک ہفتہ میں واپس ہوجاؤں گا‘‘ ۔

بولا ’’یار تمہاری دکان کی مٹھائیاں اور نمکین چیزیں بہت یاد آتی ہیں۔ کئی برس ہوگئے الہ آباد آئے ہوئے ۔ اب کے آؤں گا تو ضرور ملوں گا اور ہاں تمہیں یاد ہوگا کہ الہ آباد سے چلتے وقت میں نے تم سے سو روپے اُدھار لئے تھے ۔ پورے چھ سات برس بیت گئے ۔ ہمیشہ خیال آیا کہ تمہیں منی آرڈر کردوں لیکن فرصت ہی نہیں ملی ۔ اب رکھ لو‘‘ ۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے سو روپے کا نوٹ دیا ۔ میں نے پوچھا ’’مگر یہ تو بتاؤ کہ تم ناگپور میں کیا کررہے ہو ۔ اپنا پتہ تو دو‘‘ ۔ اس اثناء میں ٹرین نے چلنے کی تیاری شروع کردی ۔ اس شخص نے اپنا وزیٹنگ کارڈ مجھے دیا اور ٹرین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگا ’’الہ آباد کی صحبتیں بہت یاد آتی ہیں ۔ سارے دوستوں کو میری طرف سے پوچھنا اور بھابی کو نمستے کہنا ۔ بچوں کو پیار اور ہاں حیدرآباد سے واپس ہوتے وقت دو ایک دن ناگپور میں رک جاؤ ۔ اب میرے حالات اچھے ہوگئے ہیں ۔ پہلے کی سی بات نہیں رہی‘‘ ۔

گاڑی آگے کو نکل گئی اور وہ بڑی دیر تک پلیٹ فارم پر ہاتھ ہلاتا رہ گیا ۔ جب ہم ڈبہ میں واپس ہوئے تو میرے حیدرآبادی دوست نے کہا ’’یار مجتبیٰ کمال ہے ۔ تم تو عملی مذاق بھی خوب کرلیتے ہو ۔ یہ تم مجتبیٰ سے دیپک سکسینہ کیسے بن گئے ۔ یہ الہ آباد ۔ یہ گھاس منڈی اور پربھاکر دویدی۔ یہ سب کیا ہے ۔ اور یہ تمہارا بیٹا مہندر کہاں سے آگیا اور یہ دیویندر نے پلاسٹک کا کارخانہ کب کھول لیا ۔ اور ہاں بھابی تو کبھی جوڑوں کے درد میں مبتلا نہیں ہوئیں‘‘ ۔ میں نے ہنس کر کہا ’’اس شخص سے سو روپے لینے کے لئے یہ کہنا ضروری تھا‘‘ ۔ میرے دوست نے کہا ’’مگر تم نے تو اسے کبھی سو روپے نہیں دیئے تھے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’مگر دیپک سکسینہ نے تو دیئے تھے‘‘ ۔ میرے دوست نے پوچھا ’’کیا مذاق کرتے ہو ۔ کون ہے یہ دیپک سکسینہ؟‘‘ میں نے کہا ’’وہی جو الہ آباد میں رہتا ہے ۔ رانی منڈی میں اس کی کنفکشنری کی دکان ہے اور جس کی بیوی جوڑوں کے درد کی مریض ہے‘‘ ۔ میرے دوست نے کہا ’’تب تو یہ سو روپئے اس دیپک سکسینہ کے ہوئے ۔ تم نے کیوں وصول کرلئے؟‘‘ میں نے کہا ’’اور وہ جو میرے مزاحیہ مضامین کی داد ہر ایک سے وصول کرتا رہتا ہے تو یہ داد کس کھاتے میں جائے گی‘‘ ۔میرے دوست نے جھنجھلاکر کہا ’’یار یہ معمہ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔ کھل کر تو بتاؤ کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘ ۔

اور میں نے جو بات اپنے حیدرآبادی دوست کو بتائی وہ اب آپ سب کو بھی بتائے دیتا ہوں ۔ بات دراصل یوں ہوئی کہ آج سے سات آٹھ برس پہلے میں دہلی کے کناٹ پلیس کی ریگل بلڈنگ کے سامنے کھڑا تھا کہ ایک شخص نے اچانک پیچھے سے میری پیٹھ پر ایک گھونسہ رسید کرتے ہوئے کہا ’’ابے دیپک سکسینہ تو یہاں کیا کررہا ہے ؟ کب آیا الہ آباد سے؟‘‘ میں نے اپنی پیٹھ کو سہلاتے ہوئے کہا ’’معاف کیجئے ۔ میں دیپک سکسینہ نہیں ہوں ۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘ ۔ وہ شخص بولا ’’ابے لفنگے! مجھ سے مذاق کرتا ہے ۔ بچپن کا دوست اور مجھے ’آپ‘ کہہ کے شرمندہ کررہا ہے ۔ اچھا یہ تو بتا کب آیا الہ آباد سے؟‘‘میں نے قدرے بلند آواز میں اس سے کہا ’’دیکھئے جناب! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں دیپک سکسینہ نہیں ہوں اور نہ الہ آباد سے میرا تعلق ہے ۔ خواہ مخواہ میرا وقت برباد کرنے کا کیا فائدہ ۔ اس پر وہ شخص بپھر گیا اور غصہ سے بولا ۔ ’’اب میں سمجھا کہ تو کس بات پر خفا ہے ۔ یہی نا کہ میں نے تیری دکان سے ڈھائی تین سو روپیوں کی مٹھائی اُدھار لی تھی ۔ یہ لے پانچ سو روپئے اور رکھ اپنی جیب میں ۔ تیری پائی پائی چکادوں گا ۔ تو سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو ۔ بہت دنوں سے الہ آباد نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تیرے پیسے ہڑپ کرنا چاہتا تھا ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تو پیسے کے لئے اتنا گرجائے گا ۔ آج سے تیری میری دوستی ختم‘‘ ۔ اس شخص نے غصہ سے پانچ سو روپیوں کا نوٹ میرے شرٹ میں ٹھونس دیا اور میرے منع کرنے کے باوجود آگے کو نکل گیا ۔

اس واقعہ کے بعد بہت دنوں تک وہ پانچ سو روپے میری جیب میں پڑے رہے ۔ چار برس پہلے کسی ادبی محفل کے سلسلہ میں مجھے لکھنؤ جانا پڑا۔ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کے دو چار دوستوں کے ساتھ میں امین آباد پارک سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک صاحب نے پیچھے سے پکارا ’’بھئی دیپک سکسینہ ! کیسے ہو یار؟ دیکھ کر بھی انجان بنے چلے جارہے ہو ۔ مٹھائیاں اچھی بناتے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پرانے دوستوں کو بھی بھول جاؤ‘‘۔ دیپک سکسینہ کا نام سن کر مجھے اچانک کناٹ پلیس والا واقعہ یاد آگیا ۔ قبل اس کے کہ میں اس کی غلط فہمی دور کرتا میرے ریڈیو کے دوستوں نے اس سے کہا ’’معاف کیجئے ۔ یہ دیپک سکسینہ نہیں مجتبیٰ حسین ہیں ۔ دہلی سے آئے ہیں‘‘ ۔ مگر میں نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے اس شخص سے کہا ’’حضور ان کی باتوں میں نہ آیئے ۔ میں ہی دیپک سکسینہ ہوں الہ آباد والا ۔ آپ نے میری دکان سے جو مٹھائی لی تھی اس کے پیسے اب تک نہیں دیئے ۔ میں آپ کو کیسے نہیں پہچانوں گا‘‘ ۔

اس پر اس شخص نے ندامت سے کہا ’’ہاں بھئی دیپک ابھی پچھلے مہینے تو تم نے سو روپے کی مٹھائی ادھار دی تھی ۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے ۔ اگلے ہفتے الہ آباد آرہا ہوں ۔ پیسے دے دوں گا‘‘ ۔
تب میں نے اس شخص پر اپنی اصلیت کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’حضور! مجھے اس دیپک سکسینہ کا ذرا پتہ بتایئے ۔ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ یہ کیسا آدمی ہے کہ ہر ایک کو اُدھار مٹھائی دے دیتا ہے اور پھر بھی اس کا کاروبار چل رہا ہے‘‘ ۔ بہرحال میں نے اس شخص سے دیپک سکسینہ کا پورا پتہ حاصل کیا ۔ اتفاق سے اس واقعہ کے پورے ایک سال بعد ایک ادبی محفل کے سلسلہ میں الہ آباد جانا پڑگیا تو میں دیپک سکسینہ کی کنفکشنری کی دکان پر گیا ۔ دیپک سکسینہ کو دور سے دیکھا تو یوں لگا جیسے میں خود دکان پر بیٹھا ہوا مٹھائیاں بیچ رہا ہوں۔ جیسے ہی میں اس کی دکان پر گیا دیپک سکسینہ نے مجھے ایک نظر دیکھا ۔ پھر زور سے بولا ’’السلام وعلیکم مجتبیٰ صاحب ! کب آئے آپ دہلی سے الہ آباد؟ مجھے یقین تھا کہ آپ ایک نہ ایک دن میری دکان پر ضرور آئیں گے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’یار دیپک سکسینہ ! تمہیں میرا نام کیسے معلوم ہوا؟‘‘بولا ’’کمال کرتے ہیں آپ بھی ۔ جیسے آپ کو میرا نام معلوم ہوگیا ویسے ہی مجھے بھی آپ کا نام معلوم ہوگیا ۔ دو ایک بار دہلی گیا تو جگہ جگہ لوگوں نے مجھے ’’مجتبیٰ حسین‘‘ سمجھ کر پکڑ لیا ۔ آپ کے ایک دوست نے تو مجھے بے پناہ گالیاں بھی دیں کہ رات کھانے کی دعوت پر آنے کا وعدہ کرکے میں ان کے ہاں نہیں پہنچا‘‘ ۔

دیپک سکسینہ سچ مچ میرا ہم شکل تھا ۔ مجھ سے مل کر وہ بہت خوش تھا ۔ مجھے خوشی خوشی اپنے گھر لے گیا ۔ بیوی بچوں سے ملایا ۔ شام کو مجھے الہ آباد کی ایک ادبی محفل میں شرکت کرنی تھی ۔ سو میں نے دیپک سکسینہ کو بھی ادبی محفل میں شرکت کی دعوت دے دی ۔ کسی وجہ سے میں ادبی محفل میں دیر سے پہنچا تو دیکھا کہ ادبی محفل کے منتظمین اسے زبردستی پکڑ کر ڈائس پر بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں نے بروقت بیچ بچاؤ کیا ورنہ اس دن دیپک سکسینہ کو پتہ چلتا کہ ہوٹنگ کس کو کہتے ہیں۔منتظمین بھی ہم دونوں کی مشابہت سے پریشان تھے ۔

بہرحال جب میں الہ آباد سے دہلی واپس جانے لگا تو دیپک سکسینہ میرے لئے مٹھائی کے کئی ڈبے لے کر آگیا ۔ میں نے اس کے کناٹ پلیس والے دوست کے دیئے ہوئے پانچ سو روپے دینے کی کوشش کی تو دیپک نے کہا ’’مجتبیٰ صاحب ! آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔آپ کی تصویریں ہندی رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں ۔ ٹیلی ویژن پر بھی آپ اکثر آتے رہتے ہیں ۔ آپ کو کیا پتہ کہ میں نے آپ کے مزاحیہ مضامین کی جتنی داد وصول کی ہے اس کے آگے ان پانچ سو روپیوں کی کیا حیثیت ہے۔ انہیں اپنے پاس ہی رکھئے‘‘ ۔ میں نے پوچھا ’’دیپک سکسینہ یہ سب تمہیں کیسا لگتا ہے‘‘بولا ’’ بہت اچھا لگتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی اس ملک میں جب فرقہ وارانہ دنگے ہونے لگتے ہیں تو آپ کے تعلق سے تشویش میں مبتلا ہوجاتا ہوں‘‘ ۔ میں نے کہا ’’دیپک! تم میرے لئے تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہو اس بات کی مجھے خوشی ہے ۔مجھے اور کیا چاہئے ۔ مگر مجھے تم سے ہمدردی بھی ہے ۔ حالانکہ تمہارا کاروبار ٹھیک چل رہا ہے لیکن لوگوں کو اُدھار میں مٹھائی تو نہ دیا کرو‘‘ بولا ’’مجتبیٰ صاحب ۔ آپ بھی تو لوگوں کو اُدھار میں ہنساتے رہتے ہیں ۔ یہ سماج آپ کی باتوں پر ہنس تو لیتا ہے لیکن اس کی قیمت آپ کو کہاں اداکرتا ہے‘‘۔دیپک سکسینہ کی بات سن کر مجھے یوں لگا جیسے میں مٹھائی فروش ہوں اور وہ مزاح نگار ہے ۔