قربا نی اطاعت حق کا نشان، حضرت ابراہیم ؑ کی سنت

قربِ حق کا بہترین وسیلہ ، ڈاکٹر حمید الدین شرفی ،پروفیسر حسیب الدین حمیدی اور دیگر کے خطابات
حیدرآباد ۔5 اکٹوبر( پریس نوٹ) اسلام میں قربانی کی حقیقت سب سے الگ ، خالص اللہ کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اور تقرب مولیٰ تعالیٰ کے وسیلہ کے طور پر واجب ہے جس کی اپنی ایک اعلیٰ ترین اور روحانی تاریخ ہے جو اللہ تعالیٰ کے خلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد مکرم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں قربانی پیش کرنے سے وابستہ ہے ۔اسلام شرک و کفر کی بیخ کنی کے لئے آیا ہے، اس نے ان تمام مشرکانہ طور طریق اور غیر اللہ کے لئے بھینٹ، بلیدان، بلی، چڑھاوے وغیرہ جو اہل شرک و کفر کے معمول ہیں ان سے ا ہل حق اور ایمان والوں کو دور اور پاک و صاف رکھا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا پابند کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مبارکہ عشق معبود حقیقی اللہ تعالیٰ سے عبارت ہے، وہ جہاں جہاں تشریف لے جایا کرتے معبود یکتا کی بندگی کے لئے عبادت کی جگہ بناتے اور قربان گاہ قائم کرتے تھے تاکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے لئے پاک و صاف جگہ مختص رہے۔قربانی کا تصور انسانی معاشرہ میں ابتداء ہی سے موجودہے۔ انسانی افکار و عقائد کے ساتھ یہ حقیقت وابستہ ہے۔ مومن اپنے خالق و معبود کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی خاطر بدنی مشقت اور مالی نذرانے پیش کرتے رہنے کا خوگر رہا ہے جسے عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قربانی مومن کے اپنے خالق و معبود پر جان و مال نچھاور کرنے کے جذبہ صحیح سے معنون ایک خاص طریقہ بندگی ہے۔ شریعت اسلامی نے وسیع تر مفہوم میں قربانی کا حکم دیا ہے۔ ’’قرب‘‘ سے مشتق عربی لفظ ’’قربانی‘‘ کے معنی وہ چیز جس کے ذریعہ تقرب الی اللہ حاصل کیا جائے ذبیحہ ہویا کچھ اور۔ یعنی وہ چیز جو خدائے تعالیٰ کی راہ میں تصدق کی جائے بعض محققین کا کہناہے کہ ’’ہر نیک کام جس کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہونے کا ارادہ کیا جائے قربانی ہے‘‘۔ علماء کرام اور دانشور حضرات نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی ، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل( انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام ’’۱۱۱۵ ‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے موقع پر منعقدہ مذاکرہ ’’قربانی‘‘میں حصہ لیتے ہوے ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا۔ مذاکرہ کی نگرانی ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی۔ اہل علم اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے مذاکرہ کا آغاز کیا۔ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ نے اپنے مقالہ میں کہا کہ جانوروں کی قربانی کا حکم تمام ہدایت یافتہ امتوں کو تھا۔اضحیہ کے معنی قربانی اور ذبیحہ کے ہیں اسی مناسبت سے قربانی کے دن ۱۰؍ذی الحجہ کو عید الاضحی یا یوم الاضحی کہا جاتا ہے۔ اور عید الاضحی کے بعد مزید دو دن شریعت نے قربانی کے لئے مخصوص رکھے ہیں۔ اس اہم اور موضوعی مذاکرہ میںاپنے وقیع اور معلوماتی مرسلہ مقالہ کی پیشکشی کے ذریعہ حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر سید محمد رضی الدین حسان حمیدی اسسٹنٹ پروفیسر عرعر یونیورسٹی نے بتایا کہ عہد قدیم میں قربانی کی قبولیت و عدم قبولیت کے بارے میں مختلف النوع تصورات عام تھے۔ جناب سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے عشق و وارفتگی کا فیضان و تسلسل یہ سالانہ مشروع اور واجب قربانیاں ہیں، قیامت تک توحید کے متوالے اور رسالت کے پروانے حضور اقدس ؐکے جد کریم حضرت ابراہیم ؑ کی اس سنت کو عبادت کے بطور حلال جانوروں کے قربان کرنے یعنی ذبیحہ کے ذریعہ سے قائم رکھیں گے۔نگران مذاکرہ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی نے اپنے مقالہ میںکہا کہ قربانی دراصل اطاعت خالق کے حقیقی جذبہ اور تقویٰ و پرہیزگاری کا مؤجب ہے اور قرب حق کا بہترین وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تک قربانی کرنے والے کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ قبل ازیں جناب سید محمد علی زین العابدین قادری ، جناب سید محمد علی باقر قادری ، جناب سید محمد علی موسیٰ کاظم قادری نے بھی خطاب کی سعادت حاصل کی۔ بارگاہ رسالتؐمآب میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ آخر میں ذکر جہری اور دعا ے سلامتی پر آئی ہرک کے ’۱۱۱۵‘ویں تاریخ اسلام کے دونوں سیشنس اور سالانہ موضوعی مذاکرہ ’’قربانی‘‘ اختتام پذیر ہوا۔ قبل ازیں جناب سید محمد علی موسیٰ کاظم قادری نے خیر مقدم کیا اورآخر میں جناب محمد مظہر حمیدی نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔