قربانی سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ

سوال : آج کل سوشیل میڈیا پر بعض ویوڈیو کلپس آرہے ہیں جس میں یہ ظاہر کیا گیا کہ ایک گھر کے افراد کیلئے ایک ہی قربانی کافی ہے اور اس سلسلہ میں حدیث شریف بھی نقل کی گئی ہے۔ اسی طرح پمفلٹ میں اونٹ میں دس حصوں تک گنجائش کا ذکر ہے ۔ یعنی جس طرح گائے سات افراد کی طرف سے کافی ہے ، اسی طرح اونٹ دس افراد کی طرف سے کافی ہے اور اس ضمن میں بھی ایک حدیث کوڈ کی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں قربانی کے چار ایام ذکر کئے گئے ہیں یعنی 10 ، 11 ، 12 ، 13 ذی الحجۃ الحرام تک قربانی دی جاسکتی ہے جبکہ تاحال قربانی کے تین ایام ہی سنتے آئے ہیں ۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ سوال میں ذکر کردہ تین مسائل (1) ایک قربانی پورے گھر کی طرف سے (2) اونٹ میں دس حصے (3) قربانی کے چار ایام سے متعلق احادیث شریفہ بحوالہ نقل کئے جائیں۔ پمفلٹ کی وجہ سے الجھن ہورہی ہے ، کیا واقعی وہ احادیث صحیح ہیں اور اگر وہ صحیح ہیں تو ہر صاحب استطاعت کی طرف سے قربانی اونٹ اور گائے میں صرف سات حصے اور قربانی کے تین ایام جس پر نسل در نسل سے عمل درآمد قدیم ہے اس کے دلائل کیا ہیں، کیا اس کی تائید میں احادیث موجود ہیں اور ہیں تو پمفلٹ میں ذکر کردہ ان احادیث کا جواب کیا ہے ۔
ان مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے تو مہربانی ہوگی اور عامتہ المسلمین میں عمداً جو شکوک و شبہات پیدا کئے جارہے ہیں بطور خاص فقہ حنفی سے متعلق جو باور کروایا جارہا ہے کہ وہ احادیث شریفہ کے خلاف ہے۔ غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔
حبیب مصطفی، رسالہ بازار

جواب : احناف کے نزدیک ہرآزاد و مقیم مرد و عورت پر بشرط استطاعت قربانی واجب ہے ۔ ہر صاحب استطاعت پر قربانی کا وجوب قرآن مجید ، احادیث شریفہ سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ فصل لربک و انحر (سورۃ الکوثر) ترجمہ اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی دو۔ اس آیت کی تفسیر میں ہے ۔ عید کی نماز ادا کرو اور قربانی دو ۔ (مختصرالطحا وی ص : 300 ، المبسوط للسر خسی 8/121 )
حدیث شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً حکم فرمایا ۔ ضحوا فانھا سنۃ أبیکم ابراھیم علیہ الصلاۃ والسلام ۔ ترجمہ : تم قربانی دو کیونکہ وہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ (ابن ماجہ کتاب الاصناحی ، باب ثواب الاضحیۃ (3127)
حدیث شریف میں ہے : من وجد سعۃ فلیضح ۔ترجمہ : جو شخص استطاعت رکھتا ہو اس پر قربانی کرنا لازم ہے ۔ ومن لم یضح فلا یقر بن مصلانا اور جو (استطاعت کے باوجود) قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے ۔ یہ روایت ابن ماجہ کتاب الاصناحی باب الاصناحی واجبۃ ام لا (3123) میں مرفوعا حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ دارقطی نے اپنی سنن کتاب الاشربۃ باب الصید والذبائح والا طعمۃ (277/8) میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کیا ہے ۔ امام بیھقی نے سنن کبری کتاب الضحایا (260/9) میں اس کی تخریج کی ہے اور ’’تنقیح‘‘ میں ہے کہ ابن ماجہ کی حدیث کے رجال تمام کے تمام صحیحین بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق ہیں، سوائے عبداللہ بن عباس القتبانی کے کہ وہ امام مسلم کے افراد میں سے ہیں۔

مذکورہ آیت قرآنی اور احادیث شریفہ کی بناء احناف نے ہر صاحب استطاعت پر قربانی کو واجب قرار دیا ہے اور جس گھر میں ایک ہی شخص صاحب استطاعت ہو اور اس کی بیوی بچے صاحب استطاعت نہ ہو تو ایسی صورت میں ایک قربانی ہی اس گھر کے لئے کافی ہے اور جس گھر میں ایک سے زائد افراد صاحب استطاعت ہوں تو ہر ایک کو اپنی جانب سے علحدہ قربانی کرنا لازم ہوگا ۔ ایک صاحب استطاعت کی قربانی دیگر اصحاب استطاعت کی جانب سے کافی نہیں ہوگی۔
جن احادیث سے استدلال کیا گیا کہ ایک گھر کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے۔ امام طحاوی کے مطابق وہ احادیث منسوخ یا مخصوص ہیں۔ دیگر احادیث کی بناء ان پر عمل نہیں ہے ۔ نیز جب ایک گھر میں بارہ پندرہ افراد ہوں تو ان کی طرف سے ایک گائے اور ایک اونٹ کافی نہیں ہوسکتے تو ایک بکری ان سب افراد کے لئے کس طرح کافی ہوسکتی ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنبہ کو ایک کی طرف سے اور گائے اور اونٹ کو سات افراد کی طرف سے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا۔ امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ نے مزید احادیث سے استدلال کرتے ہوئے نقل کیا کہ ایک صحابی رسول نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے ذمہ ایک اونٹنی کی قربانی تھی مگر اونٹنی چلی گئی تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ان کو ایک اونٹ کے عوض سات بکریاں ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ شرح معانی الآثار جلد دوم ص : 278-277 میں ہے : وقد ذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الباب الذی قبل ھذا ان رجلا قال لہ ان علی ناقۃ و قد عزبت عنی فامرہ ان یجعل مکانھا سبعا من الغنم ۔
ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بکبش اقرن ثم قال اللھم ھذا عنی و عمن لم یضح من امتی ۔ ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دنبہ کی قربانی دی پھر فرمایا اے پروردگار! یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے ہر اس شخص کی جانب سے ہے جس نے قربانی نہیں دی اور ایک روایت حضرت ابو رافع سے منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوبصورت فربہ جانور خریدے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خطبۂ عید و نماز کے بعد ایک جانور لایا گیا تو آپ نے فرمایا : اللھم ھذا عن امتی جمیعا من شھدلک بالتوحید و شھدلی بالبلاغ۔ اے پروردگار !یہ میری تمام امت کی جانب سے ہے۔ جس نے بھی تیری توحید اور میری دعوت کی گواہی دی۔ پھر دوسرا دنبہ لایا گیا تو آپ نے فرمایا : اللھم ھذا عن محمد و آل محمد ثم یجمعھما جمیعا و یاکل ھو وأ ھلہ منھما ۔ یعنی اے پروردگار ! یہ میری اور میری آل کی طرف سے ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جانوروں کے گوشت جمع کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اھل بیت تناول فرماتے۔
اس کے علاوہ ان جیسی دیگر روایتیں شرح معانی الاثار میں موجود ہیں۔ ان کو نقل کرنے کے بعد امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان احادیث کے پیش نظر دو گروہ ہوگئے ۔ (1)گروہ کا کہنا ہے کہ ان روایات کی رو سے ایک قربانی ایک گھر کی طرف سے کافی ہے ۔ (2) گروہ یہ کہتا ہے کہ ان روایات کی روشنی میں ایک دنبہ کی قربانی ایک گھر کے افراد بلکہ کئی گھر کے کئی افراد کیلئے ہوسکتی ہے ۔ پھر آپ نے دیگر روایات سے ثابت فرمایا کہ اس جیسی روایات یا تو وہ منسوخ ہیں یا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہیںاور ایک بکری ایک سے زائد افراد کیلئے قطعی کافی نہیں۔ و تقول ان الشاۃ لا تجزئی عن اکثر من واحد و تذھب الی ان ماکان من النبی صلی للہ علیہ وسلم کما احتجت بہ الفرقتان الاولیان لقولھما منسوخ او مخصوص (شرح معانی الاثار ج : 2 ، ص : 277 )
(2 شرعاً ایک اونٹ اور ایک گائے میں صرف سات افراد کی طرف سے قربانی دی جائے گی ۔ اونٹ اور گائے میں شرعاً کوئی تفریق نہیں ہے ۔ ایک روایت میں یہ ملتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر ستر اونٹ تھے اور سات سو افراد تھے ۔ خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیۃ یرید زیارۃ البیت و ساق معہ الھدی فکان الھدی سبعین بدنۃ و کان الناس سبع مائۃ رجل وکانت کل بدنۃ عن عشرۃ۔
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اصحاب ظواھر کہتے ہیں کہ ایک اونٹ دس کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے لیکن جمہور ائمہ و محدثین حنفیہ شافعیہ حنابلہ (اور مالکیہ کے نزدیک قدرے تفصیل ہے) حسن بصری شعبی، ابراھیم نخعی، طاؤس بن کیسان ، عطاء ابن ابی رباح حماد بن ابی سلیمان، اوزاعی ،سفیان ثوری ، اسحاق و ابو ثور و غیرہ ائمہ و محدثین کے نزدیک ایک اونٹ سے صرف سات افراد کی قربانی کی جائے گی۔ ان کی تائید میں حضرت علی، حضرت عبداللہ مسعود، حضرت انس بن مالک، حضرت عائشہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی روایات ہیں جس میں گائے اور اونٹ میں کوئی تفریق نہیں ۔ نیز حضرت جابر جو حدیبیہ میں شریک تھے وہ خود فرماتے ہیں کہ حدیبیۃ میں ایک اونٹ سات افراد کی جانب سے ذبح کیا گیا ۔ عن جابر بن عبداللہ قال نحرنامع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم البدنۃ عن سبعۃ نفر فقیل لجابر رضی اللہ عنہ و البقرۃ قال ھی مثلھا و حضر جابر رضی اللہ عنہ عام الحدیبیۃ و نحرنا یومئذ سبعین بدنۃ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ الجزور عن سبعۃ اونٹ سات افراد کی جانب سے ہوگا۔
حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی یہی منقول ہے کہ ایک ا ونٹ سات افراد کی جانب سے قربان ہوگا ۔ عن عامر عن علی و عبداللہ رضی اللہ عنھما قالا البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے شرح معانی الآثار جلد دوم ص : 275 باب البدنۃ عن کم تجزئی فی الضحایا والھدایا۔
امام طحاوی مشکل الاثار جلد سوم باب بیان مشکل ماروی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی العدد الذی یجوز ان یضحی بالبدنۃ عنھم میں بیان کرتے ہیں کہ اونٹ میں دس افراد کا ذکر امام زھری کے اصحاب میں سے صرف ایک کی روایت میں ہے اور اس روایت میں کئی قسم کے اشکالات ہیں۔ سب سے بڑا اشکال یہ ہے کہ اس روایت میں مذکور ہے کہ ستر اونٹ حدیبیۃ میں سات سو افراد کی جانب سے ذبح کئے گئے جبکہ دیگر معتبر و مستند روایات میں صحابہ کرام کی تعداد حدیبیہ میں ایک ہزار سے زائد تھی (سات سو نہیں) بعض روایات میں چودہ سو اور بعض میں پندرہ سو کا ذکر ہے تو کس طرح ایک اونٹ دس کیلئے استدلال کیا جاسکتا ہے ؟ نیز ایک طرف ایک ہی راوی کی روایت ہے (امام زھری کے اصحاب میں سے) جبکہ دوسری طرف اونٹ میں سات افراد کی قربانی کے قائل راویوں کی ایک جماعت (امام زھری کے اصحاب کی ایک جماعت) ہے ۔ تو ایک کے مقابل میں جماعت کی متفقہ روایت ہی قابل ترجیح ہوگی ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے مشکل الآثار جلد سوم ، ص : 247-242 )

اور جب روایات میں بظاہر اختلاف ہوتا ہے تو احتیاط والی روایت کو لینا واجب ہے کیونکہ وہ ہر حال میں یقینی ہوتی ہے ۔ بدائع الصنائع جلد 4 ص : 207 میں ہے : ولنا : ان الاخبار اذا اختلفت فی الظاھر یجب الاخذ بالاحتیاط و ذلک فیما قلنا لان جوازہ عن سبعۃ ثابت بالاتفاق و فی الزیادۃ اختلاف فکان الاخذ بالمتفق علیہ اخذ ابا لمتقین۔
(3 ایام نحر (قربانی کے ایام) کے بارے میں بعض روایات میں تین دن ہے اور بعض میں چار دن ہیں، اسی وجہ سے ائمہ میں اختلاف ہوا۔ احناف کے نزدیک ذوالحجۃ کے تین دن ، 10 ، 11 ، 12 قربانی کے دن ہیں ۔ احناف کا استدلال حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے مروی روایات سے ہے ۔ انہوں نے کہا ’’ایام النحر ثلاثۃ اولھا افضلھا ۔ قربانی کے ایام تین ہیں اور پہلا دن افضل ہے ۔ (بدائع الصنائع جلد 4 ص : 198 )
موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے : الاضحی یومان بعد یوم الاضحی ۔ ترجمہ قربانی یوم نحر کے بعد دو دن ہے ۔ (موطا 188/2 ) امام مالک نے فرمایا ان کو یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی طرح فرمایا کرتے تھے ۔ وقال مالک : أنہ بلغہ ان علی بن ابی طالب کان یقول مثل ذلک۔
پس ہر صاحب استطاعت مرد و عورت پر قربانی واجب ہے ۔ ا یک قربانی ایک گھر کی طرف سے کہنا درست نہیں۔ نیز جس طرح گائے میں سات حصے ہیں اسی طرح اونٹ میں بھی سات حصے ہیں، دس نہیں اور قربانی کے ایام صرف تین دن ، یوم نحر کے بعد دو دن ہیں۔ یوم نحر کے بعد تیسرے دن قربانی کرنے سے احناف کے نزدیک قربانی ادا نہ ہوگی ۔ ایک جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔