قبر پختہ بنانا

سوال :  قبر کو پکی اور مضبوط بنانا جیسے سمنٹ وغیرہ اور پتھر کا استعمال کر کے کیا یہ شرعاً درست ہے یا نہیں ؟
محمد سالم باوزیر
جواب :  شرعاً قبر کو مضبوط و پختہ بنانے کا حکم نہیں ہے۔ ولا یجصص تاتار خانیہ ج : 2 ص : 170 البتہ کسی ضرر اور تکلیف سے میت کو محفوظ رکھنے کیلئے جیسے کفن چرانے وغیرہ کسی عمل سے حفاظت کیلئے تو اس صورت میں کچی اینٹوں سے قبر کی حفاظت کیلئے تعمیر درست ہے۔ تاتارخانیہ ج 2 ص : 169 میں ہے : والیوم اعتادوالتسنم باللبن صیانۃ للقبرعن النبش و رأو ذ لک حسنا ۔
نجاشی کا اسلام
سوال :  روایتوں میں ہمیں ملتا ہے کہ حبشہ کا بادشاہ نجاشی جب انتقال کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھی ۔ بعض کتابوں میں مجھے یہ بات ملی کہ نجاشی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
لہذا آپ سے التجا ہے کہ ملک حبش کے بادشاہ نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں ؟ وضاحت فرمائیں ۔
محمد کامران، ٹولی چوکی
جواب :  حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں افریقی ملک ، حبشہ  (Ethopia) پر اصحمہ بن ابجر نامی نجاشی حکومت کرتا تھا ۔ یہ وہی نیک دل حکمراں تھا جس کی سرپرستی میں 5 نبوی میں مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے جانے والے مسلمانوں نے نہایت امن و سکون سے وقت گزارا تھا ۔
6 ھ/ 628 ء میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نام بھی ایک والا نامہ تحریر فرمایا ، جسے حضرت عمرؓ و بن امیہ الضمری اس کے پاس لے کر گئے ۔ نجاشی نے یہ نامہ مبارک پڑھا تو اس نے فوراً اسلام قبول کرلیا اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں اور قسم کھاتا ہوں کہ آپ وہی نبی امی ہیں جن کا اہل کتاب انتظار کر رہے ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰؑ نے راکب الحمار (گدھے کے سوار) کے عنوان سے حضرت عیسیٰؑ کی آمد کی بشارت دی ہے ، اسی طرح راکب الجمل (اونٹ سوار) سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کی خوش خبری دی ہے اور مجھے آپؐ کی رسالت کا اس درجہ یقین ہے کہ عینی مشاہدے کے بعد بھی میرے یقین میں اضافہ نہ ہوگا (ابن قیم : زادالمعاد ، 3 : 690 ، الزرقانی : شرح المواھب ، 343:3 ۔ 345 )
اس کے علاوہ اس نے اپنے بیٹے کو حبشہ کے ساٹھ آدمیوں کے ہمراہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا لیکن سوء اتفاق سے ان کی کشتی سمندر میں ڈوب گئی اور اس پر سوار تمام لوگ ہلاک ہوگئے۔ رجب 9 ھ میں جب اس کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو نہ صرف اس کی موت کی اطلاع دی بلکہ اس پر غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی (البخاری ، کتاب الجنائز)۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جانشین کو بھی اسلام کی دعوت دی ، مگر اس کا اسلام لانا ثابت نہیں ہے۔

انٹرنیٹ کے ذریعہ نکاح
سوال :  میرے لڑکے کا نکاح کیا انٹرنیٹ پر کرسکتے ہیں ؟ چونکہ وہ سعودی عرب میں ہے ۔ کیا شریعت ہے، کیا شرائط ہے ؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ اگر نکاح ممکن ہے تو ہندوستان میں کس طرح کی تقاریب کرنی ہوگی ۔ استقبالیہ پھر وداعی کب ہوگی ۔ اس کا جواب تفصیل سے چاہتا ہوں۔ جواب سے مطمئن کریں گے تو نوازش ہوگی۔
نام …
جواب :  نکاح کے منعقد ہونے کے لئے عاقد و عاقدہ کا دو گواہوں کے روبرو ایک مجلس میں ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے اور اگر عاقد محفل عقد میں نہ ہو تو عاقد کی طرف سے اس کا وکیل (جس کو عاقد اپنی طرف سے ایجاب و قبول کے لئے مقرر کرے) ایجاب و قبول کرے تو نکاح منعقد ہوگا۔ لڑکا آنے کے بعد وداعی و رخصتی کی جاسکتی ہے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ایجاب و قبول کیا جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا کیونکہ عاقد اور عاقدہ کی مجلس ایک نہیں ہے۔ متعلقہ قاضی سے رجوع ہوں تو وہ وکالت کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

جائیداد مسجد کو دینے کی نیت کرنا
سوال :  زید لا ولد ہے ۔ اس نے یہ نیت کی تھی کہ اپنی وفات کے بعد اپنی پوری جائیداد مسجد کیلئے وقف کردے گا لیکن اب اس کا یہ ارادہ ہے کہ مستحقین قرابتداروں کو دو حصے دے گا اور ایک حصہ مسجد کیلئے وقف کرے گا۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد برہان الدین، قاضی پورہ
جواب :  وقف میں محض نیت یا ارادہ کافی نہیں، بلکہ زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری ہے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 3  ص : 393 میں ہے (ورکنہ الالفاظ المخصوصۃ) ارضی ھذہ (صدقۃ موقوفۃ مؤبدۃ علی المساکین و نحوہ) من الألفاظ فتاوی عالمگیری جلد 2 ص : 357 کتاب الوقف میں ہے ۔ اذا قال أرضی ھذہ صدقۃ محررۃ مؤبدۃ حال حیاتی و بعد وفاتی اوقال ھذہ صدقۃ موقوفۃ محبوسۃ مؤبدۃ أو قال حبیسۃ مؤبدۃ حال حیاتی و بعد وفاتی یصیر وقفا جائزا لازماً۔
پس صورت مسئول عنہا میں زید کو اپنی ملک میں ہر قسم کے تصرف کا حق ہے ۔
مسجد میں نکاح
سوال :  آج کل مسجد میں نکاح کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کیا مسجد میں نکاح ضروری ہے ؟ اور اگر مسجد کے علاوہ شادی خانہ میں نکاح انجام پائے تو کیا وہ خلاف سنت ہے ؟
محمد عمر، نامپلی
جواب :  شریعت مطہرہ میں نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کا نام ہے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے اعلان کو پسند فرمایا ہے۔ امام نسائی نے نکاح کے اعلان سے متعلق ایک مستقل باب ’’ اعلان النکاح بالصوت و ضرب الدف‘‘ قائم فرمایا اور اس کے تحت ایک حدیث نقل فرمائی : ’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصل مابین الحلال و الحرام الدف والصوت فی النکاح ‘‘ (نسائی ج : 2 ص : 75 )
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام میں تمیز  کے لئے نکاح کے اعلان پر زور دیا۔ چونکہ مسجد، خیر و برکت کی جگہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب مقام ہے اور اس میں نکاح ہونے سے لوگوں میں نکاح کا اعلان ہوجاتا ہے، اس لئے شریعت میں مسجد میں نکاح مستحسن و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف، کتاب النکاح، باب اعلان النکاح میں بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اعلنوا ہذا النکاح  واجعلوہ فی المساجد الخ ‘‘نکاح کا اعلان کرو اور مسجد میں نکاح کرو۔
فقہاء کرام نے مسجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے۔ مسجد میں نکاح ہو تو آداب مسجد کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ لیکن مسجد میں نکاح کرنا ہی لازم و ضروری نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی صفیہ سے خیبر و مدینہ کے درمیان جبکہ آپ وہاں تین دن مقیم تھے نکاح فرمایا۔
’’ عن انس قال اقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین خیبر والمدینۃ ثلاثاً …‘‘ (البخاری ، کتاب النکاح ج : 2 ص : 775 )
اسلام میں نکاح از قسم عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی ہے۔ اس میں مقام کی تعین شرعاً مقرر نہیں، بلکہ وہ عاقدین کی صوابدید اور سہولت پر موقوف ہے اس لئے صحابہ کرام مسجد نبوی کا التزام کئے بغیر حسب سہولت نکاح کیا کرتے۔چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر شادی کی بشاشت اور  پلساہٹ کے آثار ملاحظہ فرمائے تو ارشاد فرمایا ’’ کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے شادی کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے برکت کی دعا کی اور ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا ۔
’’ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رأی علی عبدالرحمن بن عوف اثر صفرۃ قال : ماھذا ؟ قال تزوجت امرأۃ علی وزن نواۃ من ذھب قال بارک اللہ لک اولم ولو بشاۃ‘‘ (بخاری ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 775-774 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خواتین اور بچوں کو شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : تم لوگ میرے نزدیک محبوب لوگوں میں سے ہو۔
’’ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال : ابصرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نساء و صبیانا مقبلین من عرس فقام فقمنا فقال : اللھم انتم من أحب الناس الی‘‘ (بخاری ، کتاب ال نکاح ج : 2 ص : 778 )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم مدینہ واپس ہورہے تھے تو میں جلدی کرنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کیوں جلدی کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا : حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے۔
’’ عن جابر قال : کنت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ فلما قفلنا تعجلت علی بعیر قطوف فلحقنی راکب من خلف فالتفت فاذا انا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ما یعجلک ! قلت انی حدیث عھد بعرس…‘‘ (بخاری شریف ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 789 )
ان احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے کہ نکاح کے لئے مسجد کا التزام ضروری نہیں اور اگر شادی خانہ میں سنت کے مطابق عقد کیا جائے تو عقد ، مسجد میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خلاف سنت نہیں کہا جائے گا۔

ای میل کے ذریعہ سلام بھیجنا
سوال :   اگر کوئی شخص خط اور ای میل میں سلام لکھ کر بھیجے یا زبانی کہلا بھیجے تو اس کا جواب دینا ضروری ہے یا نہیں ؟
عاصمہ پروین، پھسل بنڈہ
جواب :  غائب شخص کی تحریر، حاضر کے خطاب کے قائم مقام ہے ۔ پس جیسا کہ حاضر کے سلام کا جواب دینا ضروری ہے ۔ اس طرح غائب کے تحریری سلام کا بھی جواب دینا ضروری ہے۔ مگریہ  ضروری نہیں ہے کہ محض سلام کا جواب دینے کے لئے اس کو دوبارہ خط لکھا جائے، بلکہ اس کا تحریری سلام پڑھ کر زبانی جواب کہہ دے تو کافی ہوگا۔ اس طرح جب قاصد کی زبانی سلام آئے تو اس کا بھی جواب دینا ضروری ہے ۔ سلام سن کر خاموش نہ ہونا چاہئے بلکہ بہتر یہ ہے کہ سلام پہنچانے والے اور بھیجنے والے دونوں کو جواب دینا ضروری ہے اور اس کو علیک و علیہ السلام کہنا چاہئے ۔ در مختار ج : 5 کتاب الحظر والا باحۃ ص : 290 میں ہے۔ ’’ و یجب رد جواب کتاب التحیۃ کردالسلام ولو قال لآخر اقرا فلانا السلام یجب علیہ  ذلک‘‘۔