قبر میں سوال

سوال : آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ میری والدہ کا شب جمعہ انتقال ہوا، اور جمعہ کی نماز کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی اور عصر سے قبل ہی تدفین عمل میں آئی۔ مجھ سے بعض حضرات نے کہا کہ جمعہ کے دن انتقال کرنے والوں کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا، حتی کہ ان سے قبر میں سوال و جواب بھی نہیں ہوتے۔ میں نے ایک روایت میں پرھا بھی ہے کہ جمعہ کے دن وفات پانے والے عذاب قبر سے محفوظ رہیں گے لیکن آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ان سے سوال و جواب ہوگا یا نہیں ؟
نام …
جواب : قبر میں سوال و جواب برحق ہے، البتہ بعض حضرات سوال و جواب سے مستثنی رہیں گے ۔ ان میںایک وہ شخص بھی ہے جس کا انتقال شب جمعہ یا جمعہ کے دن ہوا ہو۔ ردالمحتار جلد 2 ص : 208 مطبوعہ دارالفکر بیروت مطلب : ثمانیۃ لایسا لون فی قبور ھم میں ہے : ثم ذکر ان من لایسال ثمانیۃ : الشھید‘ والمرابط ‘ والمطعون والمیت زمن الطاعون بغیرہ اذا کان صابرا محتسبا‘ والصدیق والاطفال والمیت یوم الجمعہ او لیلتھا والقارئی کل لیلۃ تبارک الملک و بعضھم ضم الیھا السجدۃ والقاری فی مرض موتہ قل ھو اللہ احد۔

تعزیت کے آداب
سوال : کسی کا انتقال ہوجائے تو لوگ ان کے پاس جاکر پرسہ دیتے ہیں، ان سے ملتے ہیں ، معانقہ کرتے ہیں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شریعت میں پرسہ دینے کا طریقہ کیا ہے ۔ لوگ جس طرح گلے ملتے ہیں اس طرح پرسہ کے وقت ملنا ضروری ہے یا نہیں ؟
محمد سبحان، کالا پتھر
جواب : تعزیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میت کے قریبی رشتہ داروں کو جو تکلیف میں ہوتے ہیں صبر کی تلقین کرنا تسلی دینا اور دلاسہ دینا اور یہ شرعاً مستحب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من عزی أخاہ بمصیبۃ کساہ اللہ من حلل الکرامۃ یوم القیامۃ ۔ ترجمہ : جو شخص اپنے بھائی کو کسی مصیبت میں دلاسہ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عزت و کرامت کے لباس سے سرفراز فرمائے گا۔
تعزیت میں دو چیزیں ملحوظ ہوتی ہیں، مرحوم کے رشتہ داروں کو صبر کی تلقین کرنا ‘ دلاسے دینا اور دوسرا مرحوم کی مغفرت کے لئے دعائیں کرنا : یہی تعزیت ہے۔ معانقہ ضروری نہیں، تاہم تعزیت کے وقت مصافحہ کرنا در حقیقت ان سے ہمدردی کا اظہار کرنا ہوتا ہے ۔ اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ ردالمحتار جلد 2 صفحہ : 260 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : والتعزیۃ ان یقول : اعظم اللہ اجرک ‘ وأحسن عزاء ک و غفرلمیتک۔

آثار مبارک سے استبراک
سوال : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارک سے استبراک کے متعلق بعض حضرات میں غلطی فہمی ہے اور بعض حضرات اس کے قائل نہیں۔میں نے ہماری مسجد کے خطیب صاحب سے دوران تقریر سنا تھا کہ صحابہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک بھی نوش فرمایا۔میں آپ سے خواہش کرتا ہوں کہ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک نوش کیا یا نہیں ؟ اس خصوص میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ؟
عبدالجبار ، ملے پلی
جواب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خونِ مبارک کو نوش کرنا متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے صاحبزادے حضرت عامر روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد ماجد نے بیان کیا کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھنہ لگارہے تھے، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا : اے عبداللہ ! اس خون کو لیجا و اور ا یسی جگہ بہادو، جہاں کوئی نہ دیکھے، پس جب وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے تو خون مبارک کی طرف مائل ہوئے اور اسے نوش کرلیا، جب وہ واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عبداللہ ! تم نے خون کو کیا کیا ؟ عرض کیا : میں نے اس کو میرے علم میں سب سے زیادہ پوشیدہ مقام میں رکھا ہے، وہ لوگوں سے پوشیدہ رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تم نے اسکو پی لیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا : ہاں ! (حاکم ج : 3 ص : 554 )
دارقطنی میں حضرت اسماء بنت ابی بکر سے یہی روایت ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں۔ ’’ لاتمسک النار ‘ ‘ (اے عبداللہ ! تمکو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی)
حضرت عبداللہ بن زبیر نہایت بہادر ، دلیر، طاقتور ، خوب قوت کے مالک تھے ۔ الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج : 2 ص : 31 میں ہے : قال ابو موسی : قال ابو عاصم : فکانوا یرون ان القوۃ التی بہ من ذلک الدم ۔ یعنی حضرت عبداللہ بن زبیرؓ میں جو طاقت و قوت تھی وہ اسی خون مبارک کی وجہ سے تھی۔
مواھب لدنیہ میں کتاب الجوھر المکنون فی ذکر القبائل والبطون سے منقول ہے : حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب آپ صلی اللہ وسلم کے خون مبارک کو نوش کیا تو ان کا منہ مشک کی خوشبو سے مہکنے لگا اور وفات تک ان کے منہ میں اس کی خوشبو باقی تھی۔ سنن سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت ابو سعید خدریؓ کے والد حضرت مالک بن سنان نے احد کے دن جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تو وہ زخم کے مقام کو چوسنے لگے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کلی کرو ۔ انہوں نے عرض کیا : میں اس کو کبھی کلی نہیں کروں گا۔ انہوں نے اس کو نگل لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس آدمی کو دیکھ لے چنانچہ وہ جنگ احد میں شہید ہوئے۔
طبرانی کی روا یت میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ من خالط دمی دمہ لاتمسہ النار‘‘ یعنی میرا خون جس کے خون سے مل جائے اس کو آگ نہیں چھوئے گی۔ایک قریشی لڑکے نے بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنہ لگانے کے بعد آپ کے خون مبارک کو پی لیا تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذھب فقد احرزت نفسک من النار ۔ یعنی جا ! تو نے اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے محفوظ کرلیا۔
متذکرہ بالا دلائل سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک نوش کرنا صحابہ سے ثابت ہے اور وہ نہ صرف پاک و طاہر ہے بلکہ دنیا میں طاقت و قوت کا باعث اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے بچاکر جنت کا مستحق بنانے کا موجب ہے ۔

احمدی قادیانی کا سماجی بائیکاٹ
سوال : میں قادیانی آبادی کے درمیان رہتا ہوں، بعض قادیانی افراد سے میری دور کی رشتہ داری ہے ۔ مجھے ان سے متعلق کچھ معلومات حاصل کرناہے ۔
– 1 کیا میں اپنی قربانی کا جانور قادیانی کے ہاتھ سے ذبح کرواسکتا ہوں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لیکر اور اسلامی طریقے پر ہی ذبح کرتاہے ۔ کیا میں قادیانی کی طرف سے بھیجا گیا قربانی کا گوشت استعمال کرسکتا ہوں۔
– 2 قربانی کا گوشت جو مسلمان ذبح کرے ‘ قادیانی کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
عبداللہ، حیدرآباد
جواب : جانور کا گوشت حلال ہونے کیلئے کسی مسلمان یا اہل کتاب کا جانور کو ذبح کرنا شرط ہے ۔ عالمگیری جلد 5 کتاب الذبائح میں ہے : وشرط کون الذابح مسلما او کتابیا۔
چونکہ اہل کتاب اللہ تعالیٰ اور آسمانی کتاب پر ایمان لانے کے ساتھ کسی نبی برحق مثلاً حضرت موسی اور حضرت عیسی علیھا السلام پر ایمان رکھتے ہیں، اس لئے ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ قادیانی اللہ تعالیٰ کے ارسال کردہ نبی کو نہیں مانتے بلکہ خود ساختہ نبوت کے چھوٹے دعویدار کو نبی تسلیم کرتے ہیں اس لئے ان کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور کا گوشت شرعاً جائز نہیں۔ اس لئے اگر وہ اپنے جانور کا گوشت کسی مسلمان کو دے تو اس کو قبول نہ کیا جائے۔ قربانی کا گوشت مسلمان اہل کتاب اور غیر مسلم کو دے سکتے ہیں اس لحاظ سے قادیانی کو بھی قربانی کا گوشت دیا جائے تو قربانی پر کوئی اثر واقع نہیں ہوگا ۔ تاہم قادیانی سے سماجی بائیکاٹ کیا جائے کیونکہ وہ اسلام کے لبادہ میں اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے، اس لئے قربانی کا گوشت قادیانی کو نہ دیا جائے۔

اسلام کو حق سمجھنا کیا مسلمان ہونے کیلئے کافی ہے
سوال : میرا ایک غیر مسلم دوست تھا، ہم دونوں میں کافی محبت و دوستی تھی۔ انہوں نے پولیس ایکشن سے قبل کا مذہبی رواداری والا دور دیکھا تھا، اسلامی تہذیب سے متاثر تھے، عموماً اسلام کی صداقت کو مانتے تھے اور کہتے تھے کہ اسلام میں خدا کا جو تصور ہے وہ سب سے صحیح تصور ہے۔ وہ بت پرستی کو غیر معقول تصور کرتے تھے اور علی الاعلان اس کی مخالفت کرتے تھے۔ حال ہی میں ان کا انتقال ہوا ، ان کے مذہب کے مطابق ہی ان کی آخری رسومات انجام دی گئیں۔
مجھے سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح اسلام کی حقانیت کے اظہار سے کیا وہ دامن اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔ اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
عبدالصمد یاقوت پورہ
جواب : ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے اور کوئی شخص دل سے تصدیق کرے لیکن زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن ہوگا۔ دنیا میں اس پر اسلام کا حکم نہیں ہوگا ۔ البتہ کوئی شخص مذہب اسلام کو صرف حق و سچا مذہب سمجھا ہو تو محض حق سمجھنے کی وجہ سے وہ مسلمان نہیں ہوگا کیونکہ کفار و مشرکین اور اہل کتاب دین اسلام کو حق جانتے تھے لیکن سرکشی عناد اور تکبر کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اہل کتاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کے طور پر ایسا جانتے تھے جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو جانتے تھے یعنی اپنے اولاد کو پہچاننے میں کبھی کسی قسم کی تکلیف و دشواری نہیں ہوتی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے آثار و قرائن سے وہ اس قدر واقف تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت میں انہیں ادنی سے ادنی درجہ کا شک و شبہ نہیں تھا ۔ اس کے با وصف وہ ایمان نہیں لائے اور حق کو چھپادیئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین آتینا ھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلومن (سورۃ البقرہ 146/25)
پس آپ کے دوست نے صرف دین اسلام کو حق جانا ہے اس کا اعلان نہیں کیا تو ان پر مسلمان ہونے کا حکم نہیں ہوگا۔

نابالغ بچے کا اذان دینا
سوال : اکثر مساجد میں نادان چھوٹے بچے آتے ہیں، کبھی کبھی وہ اذان بھی دیدیتے ہیں۔ نادان و کم عمر بچے کی اذان کا کیا حکم ہے ؟
فیروز خان ، ملک پیٹ
جواب : اگر بچہ قریب البلوغ ہو اور سمجھدار ہو تو اس کا اذان دینا جائز ہے اور اگر بچہ غیر عاقل ہو اس کو تمیز و شعور نہ ہو تو ایسے بچے کا اذان دینا مکروہ تحریمی ہے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد اول کتاب الصلاۃ ص 422 میں ہے : (ویجوز) بلا کراھۃ (اذان صبی مراھق و عبد) اور ردالمحتار میں اسی کے تحت ہے : (صبی مراھق) المراربہ العاقل و ان لم یراھق کما ھو طاھر البحر وغیرہ۔ وقیل یکرہ لکنہ خلاف ظاھر الروایۃ۔
واضح رہے کہ قریب البلوغ سمجھدار لڑکے کا اذان دینا اگرچہ جائز ہے لیکن بالغ شخص کا اذان دینا ہی اول و افضل ہے ۔ ردالمحتار میں (بلا کراھۃ)کے ضمن میں ہے : أی تحریمۃ ، لان التنزیھۃ ثابتۃ لما فی البحر عن الخلاصۃ ان غیرھم اولیٰ منھم اھ ع