قبرنما نشانِ مبارک

سوال : آج کل اولیاء اللہ کی درگاہوں کے قبر نما نشانِ مبارک بنائے جارہے ہیں اور وہاں فاتحہ خوانی اور نذر و نیاز وغیرہ کی جارہی ہے۔ ازروئے شرع شریف کیا قبر نما نشانِ مبارک کا ثبوت ہے یا نہیں ؟
محمد عبدالحکیم، محکمہ زراعت ، محبوب نگر
جواب : انبیاء کرام و اولیائے عظام سے ان کی حین حیات و بعد ممات توسل جائز ہے اور کرامت بعد الموت ثابت ہے ۔ تاہم ان کی مزارات کا نشان بنانا خلاف شرع ہے۔اسکا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ۔فاتحہ خوانی ونذر نیاز جائزہے۔لیکن نشان مبارک سے استمداد و استبراک کا تصور سراسر جہالت ہے ۔ اس کی اصلاح لازم ہے ۔ علامہ اجلی اپنے فتاوی کے صفحہ 382 میں اور علامہ شویری شرع ا لمنھج کے صفحہ 517 میں لکھتے ہیں: ویجوز التوسل الی اللہ تعالیٰ والا ستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والعلماء والصلحین فی حیاتھم و بعد مماتھم لان معجزات الانبیاء و کرامات الاولیاء لا تنقطع بموتھم امالانبیاء، فلانھم احیاء فی قبور ہم و یصلون و یحجون کما وردت الاخبار و تکون لاغاثۃ منھم معجزات لھم۔ والشھداء احیاء عند ربھم شوھدوا نھارا یقاتلون الکفار واما الاولیاء فھی کرامۃ لھم و یقع من الاولیاء بقصد و بغیر قصد فی حیاتھم و بعد مماتھم امور خارقۃ للعادۃ یجر یھااللہ بسببھم والد لیل علی جو ازھا انھا امور ممکنۃ لا یلزم من جواز ھا وقوعھا محال ۔

کمپنی کے ورکرس کو حج کرانا
سوال : سعودی عرب کے ایک مقام میں ہمارے دوست رہتے ہیں اور ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں، کمپنی کے مالک اپنے بیس (20) پچیس (25) ورکرروں کو اپنے خرچے سے حج کرانے تیار ہیں۔ ہمارے دوست معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس حج سے انکا فرض حج ادا ہوگا یا نہیں۔
(2 کیا عمرہ زندہ افراد کے بدل کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
محمد عبداللہ ، بڑا بازار گولکنڈہ
جواب : اگر کمپنی کے مالک کسی کی طرف سے حج بدل کرا رہے ہیں تو آپ کے دوست کا فرض حج ادا نہ ہوگا اور اگر کمپنی صرف مالیہ فراہم کر رہی ہے اور اخراجات برداشت کر رہی ہے تو یہ کمپنی کی طرف سے حج کی ادائیگی میں تعاون ہے ۔ اس لئے ایسی صورت میں آپ کے دوست اپنا فرض حج ادا کرسکتے ہیں ۔
(2 جس طرح عمرہ مرحومین کی طرف سے کیا جاسکتا ہے، اسی طرح زندہ افراد کی طرف سے بھی کیا جاسکتا ہے ۔ ردالمختار جلد اول ص : 631 میں ہے : صرح علمائنا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ اوغیرھا کذا فی الھدایۃ۔
مسجد کے مکانات سے کما حقہ استفادہ نہ کرنا
سوال : قبرستان سے متصل ایک مسجد ہے ، اس مسجد کے تحت پانچ گھر ہیں۔ تین گھر خود مسجد کی ذاتی ملکیت ہے ، ماباقی مکانات مسجد کی زمین پر اپنے سرمایہ سے تعمیر کئے گئے ہیں ۔ زمین کا کرایہ دو سو روپئے اور چار سو روپئے دیا جارہا ہے ۔ اس مسجد کی دو رکنی کمیٹی ہے۔ کئی سال سے مسجد جوں کی توں ہے ۔ کوئی وقت پر کرایہ نہیں دے رہا ہے ۔ مسجد کے مؤذن صاحب 20 روپئے چندہ وصول کرتے ہیں، مسجد کی آمدنی زیرو ہے ۔ اہلیان محلہ اور مصلیان مسجد کریں تو کیا کریں۔
اس ضمن میں کچھ اچھا مشورہ و جواب دیں تو مہربانی ہوگی۔
نام …

جواب : مسجد کے اوقاف کی حفاظت و صیانت اور اس سے صحیح استفادہ کرنا انتظامی کمیٹی کی ذمہ داری ہے اور جو کمیٹی مسجد کے اوقاف سے مروجہ طریقہ کے مطابق کسی موانع کے بغیر کما حقہ استفادہ سے عاجز ہے تو اس کمیٹی کی تحلیل ناگزیر ہے۔ در مختار کی کتاب الوقف میں ہے : (و ینزع لو غیر مامون) او عاجز او ظھر بہ فسق کشراب الخمر و نحوہ۔
پس صورت مسئول عنہا میں اہلیان محلہ و مصلیان مسجد کا وفد وقف بورڈ سے رجوع ہوکرانکو حقائق سے آگاہ کرے ،اور موجودہ ارکان کی کوتاہی ثابت ہو تو ایسی کمیٹی کو تحلیل کر کے امانت دار اور بہ حسن و خوبی ذمہ داری کو انجام دینے والے افراد پر مشتمل کمیٹی کو تشکیل دینا وقف بورڈ کی ذمہ داری رہے گی۔

علم غیب
سوال : سیرت کے واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک واقعہ نظر سے گزرا، ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے کچھ سوالات ذہن میں آئے، اس امید کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں کہ جواب دیا جاکر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔
جنگ احد کے بعد مشرکین نے دھوکہ سے مسلمانوں کو قتل کرنے کی سازش شروع کردی ماہ صفر ۴ھ؁ میں قبیلہ عضل وقارہ کے لوگ مدینہ آئے اور حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں۔ان کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنا معلم بھیج دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فرمائش پر دس معلمین کو روانہ فرمایا جن کے امیر حضرت مرثدؓ تھے ، مقام رجیع میں پہنچ کر ان ظالموں نے آٹھ صحابہ کرام کو شہید کردیا اور حضرت خبیب اور ایک صحابی کو قریش مکہ کے ہاتھوں بیچ دیا جنہوں نے دونوں کو سولی دیکر شہید کرڈالا۔ اسی مہینہ میں اس سے بڑا بیر معونہ کا دلخراش واقعہ پیش آیا ۔ ابو براء عامر بن مالک نے آکر حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائش کی کہ اہل نجد کو اسلام کی دعوت دینے اور دین سکھانے کیلئے آپؐ صحابہ کرام کو روانہ فرمائیں۔ اس کی طرف سے حفاظت کے وعدے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر بڑے بڑے قرا ء صحابہ کو روانہ فرمادیا جن کے امیرمنذر بن نمرد تھے ، جب یہ دعوتی وفد بیر معونہ پہنچا تو اس دھوکہ باز نے قبلہ ’’زفل‘‘ اور ’’ذکوان‘‘ وغیرہ کے لوگوں کو ساتھ لیکر ان پر حملہ کردیا اور کعب بن زید کے علاوہ تمام قرا ء صحابہ کو شہید کر ڈالا ۔ اس المناک حادثہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ پہنچا اور ایک مہینہ تک نماز فجر میں قنوت نازلہ پڑھی۔
اب میرا سوال ہے کہ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان واقعات کا پہلے سے علم نہیں تھا ؟ یا کم از کم وحی کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات اور حادثات سے آگاہ نہیں کیا گیا تو اس کی کیا مصلحت ہے ؟

محمد اسمعیل بن محمد اقبال ، سکندرآباد
جواب : سوال میں ذکر کردہ واقعات کی استناد و مزید تفصیل کے قطع نظرنفس سوال علم غیب سے متعلق ہے اور علم غیب اللہ تعالیٰ کی مطلق ، قدیم لا محدود صفت ذاتی ہے۔ جس طرح خدا کی ذات میں کوئی شریک نہیں اس طرح اس کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں ۔اگر کوئی کسی مخلوق حتیٰ کہ کسی نبی کو اللہ تعالیٰ کے صفات میں سے کسی ایک صفت میں بالذات ، بالفعل حقیقۃ شریک ٹھہرائے وہ سراسر کفر ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ عالم الغیب بالذات ہے۔ ارشاد الٰہی ہے : عالم الغیب والشھادۃ وھو الحکیم الخبیر۔ وہی غیب اور ظاہر کا جاننے والا ہے اور وہی بڑا حکمت والا، خبردار ہے (سورۃ الانعام 73:6 )

انی اعلم غیب السموات والارض وأعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون۔ میں آسمانوں اور زمین کے غیب کا علم رکھتا ہوں اور میں وہ جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور وہ جو تم چھپاتے ہو(سورۃ البقرۃ 33/2 )
و عندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الاھو۔ ترجمہ : اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ان کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا ۔ (سورہ الانعام 59:6 )
علم غیب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے ، مخلوقات میں سے کوئی بھی از خود غیب کا علم نہیں رکھتے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس کو چاہے غیب پر مطلع فرماتا ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کفار و مشرکین کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے : وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء فامنوا باللہ ورسلہ وان تومنوا و تتقوا فلکم اجر عظیم۔
(اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ تمہیں غیب پر مطلع فرمادے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کیلئے) چن لیتا ہے ۔ سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے ۔سورۃ آل عمران( 179:3 )

عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احد ، الا من ارتضی من رسول ۔
(وہ غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (سورۃ الجن 27-26/72 )
اللہ تعالیٰ کا واضخ ارشاد ہے: ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں (آل عمران 44:3 )
سورہ ھود میں ارشاد ہے : تلک من انباء الغیب لوجیھا الیک یہ (بیان ان ) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں (سورۃ ھود 49/11 )

سورۃ تکویر میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے غیبی علوم سے واقف ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر غیبی خبریں بتانے پر بخل بھی نہیں کرتے ارشاد ہے: وما ھو علی الغیب بضنین یعنی آپ غیب پر بالکل بخالت نہیں فرماتے۔(سورۃ التکویر 24:81 )
متذکرہ بالا نصوص قرآنی سے واضح ہے کہ علم الغیب بالذات اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ا پنے فضل سے علوم غیبی پر مطلع فرماتا ہے ۔ انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام کا غیبی خبری بیان کرنا اللہ تعالیٰ کے اذن ومشیت کے تابع ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو کشف، الہام ، القاء اور خواب وغیرہ کے ذریعہ بعض غیبی امور کی تلقین فرماتا ہے۔ جو علم غیب کلی وذاتی کے قطعاً منافی نہیں ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو کفار و مشرکین دو پہاڑوں کے درمیان روندئے جاتے ، پہاڑ سونا بن جاتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ اختیارات و تصرفات کو اس کی مرضی اور حکم کے مطابق جاری فرمایا اور تمام انبیاء کا یہی عمل رہا ہے ۔ انہوں نے صعوبتیں اٹھائی ہیں ، تدبیریں کیں اور توکل کیا اور عملی طور پر امت کو اس دنیا میں راہ حق پر چلنے اور دعوت دینے کا سلیقہ بتایا ۔ اگر وہ دنیوی امور میں ہر وقت معجزات کا استعمال کرتے تو وہ ا پنی قوم اور آنے والی نسل کیلئے کیسے نمونہ ہوتے ،کیونکہ بعد میں آنے والی قوم جب باطل کا مقابلہ کرے گی تو کیا وہ معجزات اور کرشمے کا انتظار کرتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے گی یا باطل کے خلاف جدوجہد حسن تدبیر ظاہری وسائل کو روبعمل لاتے ہوئے توکل کرے گی ۔

جس ذات اقدس کے حکم و اشارہ پر چاند شق ہوتا ہو ،ڈوبا سورج طلوع ہوتا ہو، کنکریاں گویا ہوتی ہوں، شجر و حجر حکم کی تعمیل میں دوڑتے ہوں ، جانور کلام کرتے ہوں، ہوائیں اپنی ٹھنڈک فرو کردیتی ہوں، انگشتہائے مبارک سے چشمیں ابل پڑتے ہوں ، جن کی نگاہیں جنگ موتہ کا منظر دیکھتی ہوں جن کے گوش مبارک مکہ کے ٹیلوںمیںہوئی سرگوشی کو سنتے ہوں، جس ذات مکرم نے ابتدائے آفرینش سے تاقیامت و بعد قیام قیامت مختلف ا حوال ، و کوائف کو بیان کیا ہو۔ جس ذات اقدس نے اپنی سر کی آنکھوں سے غیب الغیوب حقیقۃ الحقائق خدائے ذوالجلال کے نور کا مشاہدہ کیا ہو، اس ذات کیلئے مٹھی بھر دشمنوں پر فتح پانا کیا بڑی بات تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل و کردار سے ساری امت کو جدوجہد کرنے ، حسن تدبیر اختیار کرنے ، باطل کا مقابلہ کرنے ، دشمن کے مکر کو سمجھنے اور اس کے لئے منصوبہ بندی کرنے کا عملی نمونہ چھوڑا ہے اور 23 سال کے مختصر عرصہ میں اسلا م کو مکہ مکرمہ کی سنگلاخ وادی سے فروغ دیکر شرق غرب میں پہنچادیا اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم ، اذن اور مشیئت کے تابع ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے اپنے محبوب بندوں کو غیب پر مطلع فرماتا ہے اور اسی کے حکم پر وہ اس کو ظاہر کرتے ہیں یا سکوت اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی کمال بندگی ہے۔