قاضی سلیم

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
7 مئی 2005 ء کو علیٰ الصبح دہلی میں ہمارے فون کی گھنٹی بجی تو پتہ چلا کہ علی گڑھ سے شہریار کا فون آیا ہے ۔ شہریار ہمارے اُن دوستوں میں سے ہیں جن کا فون آئے تو ہم بالکل پریشان نہیں ہوتے کہ اتنی صبح کو کیوں فون آیا ہے اور یہ کہ کیا بات ہوگئی ہوگی وغیرہ کیونکہ شہریار ہمارے ایسے دوست ہیں جو کسی بھی وجہ کے بغیر اور دن کے کسی بھی حصے میں ہماری خیریت جاننے کا حق رکھتے ہیں ۔ علی گڑھ تو علی گڑھ ہے یہ لاس اینجلس ، واشنگٹن اور لندن وغیرہ بھی جائیں تو وہاں سے ہماری خیریت دریافت کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ دیارِ غیر سے جب وہ خیریت پوچھتے ہیں تو ان کے اندازِ مزاج پرسی میں ایک طرح کی تڑپ ہوتی ہے اور والہانہ پن بھی ہوتاہے، اس لئے کہ دیارِ غیر میں خود تو خیریت سے رہتے ہیں اور وطن عزیز میں رہنے والے دوستوں کا حال بخوبی جانتے ہیں۔ بہرحال ہم نے ریسیور اُٹھایا تو بولے ’’آج تمہیں ایک برُی خبر سنانی ہے‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’یار شہریار ! ضرور سناؤ۔ اب تو ہمیں بُری خبریں سننے کی عادت ہوگئی ہے بلکہ کسی دن کوئی بری خبر سننے کو نہ ملے تو اس دن طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ یقین مانو اگر کسی دن تم خود میرے اس دنیا سے گزر جانے کی خبر بھی سنادو تو مجھ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا ‘‘۔ شہریاؔر نے کہا ’’یہ ایک اتفاق ہے کہ میں نے آج تمہیں خود تمہارے انتقال کی خبر سنانے کی غرض سے ہی فون کیا ہے ‘‘۔ ہم نے پوچھا ’’کیا مطلب ؟ ‘‘ بولے ’’ابھی ابھی ممبئی سے یوسف ناظم کا فون آیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اورنگ آباد میں قاضی سلیم کا انتقال ہوگیا ۔ وہ تمہارے بارے میں بھی پوچھ رہے تھے کہ تم دہلی میں ہو یا حیدرآباد میں ‘‘۔ یہ کہہ کر شہریار نے فون کا ریسیور رکھ دیا۔
قاضی سلیم کی موت کا دھڑکا ہمیں پچھلے دو تین برسوں سے لگاتار لگا ہوا تھا لیکن اسی کے ساتھ ساتھ قاضی سلیم کی سخت جانی اور ان کی بے مثال قوتِ ارادی پر پورا بھروسہ بھی تھا ۔ وہ نہایت نحیف ونزارا اور دھان پان سے آدمی تھے لیکن ذرا دیکھئے کہ پورے 78 برس جیئے اور لمحہ لمحہ جوڑکر عمر کی اتنی لمبی مالا پرولی تھی ۔ پچھلے پانچ چھ مہینوں میں ہم نے دو مرتبہ اُن سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ بے ربط سی بات ضرور ہوئی جس میں جہاں ایک طرف اُن کی مبہم آواز سنائی دے رہی تھی تو دوسری طرف ان کی سسکیوں کی معرفت ہمیں ان کی آنکھوں میں ڈبڈبائے ہوئے آنسو بھی دکھائی دے رہے تھے ۔ تب ہمیں گمان ہوا کہ قاضی سلیم کی عمر کی نقدی اب قریب الختم ہے ۔ ابھی دو مہینے پہلے ہماری نوجوانی کے دوست ڈاکٹر غفور مرحوم کی بیٹی نسرین نے جو اورنگ آباد میں اردو کی استاد بھی ہے اور ہماری عزیز ترین بھتیجی بھی ، فون پر بتایا کہ ان دنوں اس کے میاں کی طبیعت ناساز ہوگئی ہے اور انہیں جس اسپتال میں شریک کرایا گیا ہے اسی اسپتال میں بالکل سامنے کے کمرے میں قاضی سلیم بھی زیر علاج ہیں۔ نسرینؔ نے بتایا کہ وہ بے حد کمزور ہوگئے ہیں۔ سارا دن بستر پر پڑے رہتے ہیں اور اُن کے کمرے کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ پھر نسرین نے یہ جملہ کہہ کر ہمارے دل کو چھلنی چھلنی کردیا کہ ’’انکل ! آپ حیرت کریں گے کہ جب تک جاگتے رہتے ہیں تب تک ان کی آنکھیں دروازے کی دہلیز پر جمی رہتی ہیں۔ آنکھیں بچھانے کے محاورے کا مفہوم انہیں دیکھ کر سمجھ میں آجاتا ہے ۔ کیا مجال جو کبھی انہوں نے اپنی نظروں کی بساط دہلیزپر سے اُٹھالی ہو، میں نے کبھی اُن کے دوستوں کو بھی ان کے دروازے کی دہلیز کو پھلانگتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ رشتہ دار بھی کم ہی آتے ہیں‘‘۔ نسرین سے بات چیت کے بعد ہمارے ذہن میں دہلیز قاضی سلیم کی تنہائی کی علامت بن گئی ۔ ہمیں دہلی کے ساؤتھ ایونیو کے فلیٹ نمبر87 کی دہلیز کا خیال آگیا جسے عبور کر کے پچیس برس قبل کم و بیش ہر روز ہم قاضی سلیم سے ملنے جایا کرتے تھے۔ وہ دہلیز کتنی مختلف تھی اور اب قاضی سلیم کے اسپتال والے کمرہ کی دہلیز کتنی جداگانہ ہے ۔ ہمارے اندر کرب کی کیفیت نے زور مارا تو ہم نے یونہی دہلیز کے موضوع کو لیکر دو تین پیراگراف لکھ دیئے تھے ۔ (یہ نامکمل تحریر اب بھی حیدرآباد میں کہیں رکھی ہوگی) اس تحریر میں ہم نے یہ جملہ بھی کہیں لکھا تھا کہ ’’جب لوگ کسی دہلیز کو عبور کر کے گھر میں آنا جانا بند کردیتے ہیں تو گھر میں  رہنے والا آدمی چپ چاپ خلا کی دہلیز کو عبور کر کے دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے ‘‘۔ یوں قاضی سلیم بھی اپنی زندگی کی دہلیز کو عبور کر کے دوسری دنیا کی طرف نکل گئے ۔

شہریار کے فون کے بعد سینکڑوں ہی نہیں بلکہ وہ ہزاروں ملاقاتیں اور محفلیں یاد آنے لگیں جو قاضی سلیم کی صحبت میں گزری تھیں۔ قاضی سلیم ہم سے عمر میں نو دس برس بڑے تھے لیکن ہمیشہ ہمارے ساتھ برابری کا سلوک روا رکھا ۔ وہ ایک سچے ، معصوم اور بے ریا انسان تھے اسی لئے وہ بہت بڑے شاعر بھی تھے ۔ پچاس کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ان سے حیدرآباد میں ہماری ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے ۔ وہ مشاعروں کے شاعر نہیں تھے بلکہ شاعری کے شاعر تھے اس لئے مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتے تھے ۔ ان کا لہجہ منفرد اور سوچ مختلف تھی ۔ ان کے ذہن میں ایک ایسی دنیا آباد تھی جو عام طور پر ہمارے تخلیق کاروں میں پائی نہیں جاتی۔ جب وہ اپنی شاعری میں اپنی اس دنیا کی جھلک دکھانے کی کوشش کرتے تھے تو بسا اوقات ان کا لب و لہجہ ماورائی اور گنجلک ہوجایا کرتا تھا اور اس ابہام سے قاری اپنے لئے معنی و مفہوم کی نت نئی شکلیں تراش لیتا تھا ۔ یہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا کہ ان کی نظموں کو پڑھنے کے عمل سے گزرتے ہوئے ان کا قاری بھی شاعر بن جاتا تھا ۔ اگرچہ قاضی سلیم ایک دکھی اور غمگین آدمی تھے اور غالباً ان کے دکھ کی کوئی انتہا بھی نہیں تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اکثر مایوسی اور قنوطیت کے سائے منڈلاتے رہتے تھے لیکن جب وہ پھر سے اپنے معمولات میں واپس آتے تھے تو اپنی خوش دلی اور ظرافت سے احباب کے ماحول کو پرلطف بنادیتے تھے۔ ان کی حسِ مزاح بہت تیز تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بعض احباب کی بڑی پر لطف ہجوئیں بھی لکھی تھیں۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ وکیل تھے لیکن ہم نے انہیں کبھی قانون کی پریکٹس کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ انہوں نے قانون کی تعلیم غالباً اس لئے حاصل کی تھی کہ خود کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کرسکیں۔ نتیجہ میں ساری عمر قانون کے دائیرے میں رہے ۔ وہ عملی سیاست کے آدمی بھی نہیں تھے ۔ وہ پانچ سال تک لوک سبھا کے رکن رہے لیکن ہمیشہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی جی ۔ ہم نے بیشتر سیاست دانوں کو دیکھا کہ جیسے ہی پارلیمنٹ کے رکن بن جاتے ہیں، بحیثیت انسان ان کا ارتقا رُک جاتا ہے ۔ ہم نے ایک بار قاضی سلیم کو اس حال میں دیکھا کہ صبح صبح اپنے علاقے کے مالی کی سائیکل کے کیریئر پر بیٹھ کر اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ وائی بی چوان کے گھر جارہے ہیں تاکہ مالی کی کسی پریشانی کے سلسلے میں وزیر موصوف سے سفارش کی جاسکے ۔ ہم نے انہیں ٹوکا تو بڑی معصومیت سے بولے : ’’اتنی صبح کو کوئی سواری نہیں مل رہی تھی اور وزیر موصوف سے ملنے کا وقت نکلا جارہا تھا ۔ اب اگر میں نے اس غرض سے مالی کی سائیکل کے کیریئر پر سفر کیا تو تمہیں کیا تکلیف ہورہی ہے ۔ پھر تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سائیکل چوری کی نہیں ہے بلکہ مالی کی اپنی ہے ۔ ایک بات بتاؤ کہ مالی کی مشکل کا حل زیادہ ضروری ہے یا میرا سائیکل یا ٹیکسی میں بیٹھنا اہم ہے ‘‘۔ بہت بعد میں مالی نے ہمیں بتایا تھا کہ قاضی صاحب کی عنایت سے اس کا مسئلہ حل ہوگیا تھا ۔ وہ ایک میعاد کے لئے پارلیمنٹ کے رکن رہے ۔ بعد میں انہوں نے دہلی آنا جانا چھوڑ دیا تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ قاضی سلیم نے پچھلے دس پندرہ برسوں سے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر رکھی تھی ۔ ہمیں یاد ہے کہ پانچ چھ برس پہلے ان سے حیدرآباد میں ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ بنجارہ ہلز میں اپنے بھائی ڈاکٹر ماجد القاضی کے گھر میں مقیم تھے ۔ چار پانچ دن خوب ملاقاتیں رہیں۔ وہ ہمیں بہت کمزور دکھائی دیئے اور ہمارا خیال تھا کہ اب ان میں مزید کمزور ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے پانچ چھ برسوں تک کمزور ہونے کی گنجائش نکال لی ۔ مایوسی اور عام افسردگی کے باوجود ان میں جینے کی امنگ باقی تھی ۔ وہ ہمیں بہت عزیز رکھتے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہتے تھے ۔ دو ایک برس پہلے کسی رسالے میں ان کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا تھا جس میں انہوں نے اپنے پانچ بے حد قریبی دوستوں کے نام گنائے تھے اور انہوں نے ازراہ کرم اس فہرست میں ہمارا نام بھی شامل رکھا تھا ۔ ہمیں اس وقت پچیس برس پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب ہم اسکوٹر کے ایک حادثے میں زخمی ہوگئے تھے ۔ قاضی سلیم اس دن کسی ضروری کام سے علی گڑھ گئے ہوئے تھے۔ انہیں وہاں جیسے ہی اس حادثے کی اطلاع ملی اپنا کام چھوڑ کر الٹے پانو دہلی لوٹ آئے اور سیدھے ہمارے گھر آگئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی پریشانی کو دیکھ کر ہم خود بھی اور زیادہ پریشان ہوگئے تھے ۔ قاصی سلیم جیسے مخلص بزرگ دوست کا گزر جانا ہمارا ایک ایسا ذاتی نقصان ہے جس کی تلافی ہماری باقی ماندہ زندگی میں تو ہونے سے رہی ۔ ایک بے مثال انسان ، ایک منفرد شاعر اور ایک بے لوث دوست اور مربی ّکی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد آتے رہیں گے۔
(مئی  2005 ء)