فیضانِ ادب

ڈاکٹر سید بشیر احمد
دُنیا کی عظیم نعمتوں میں ادب ایک بڑی نعمت ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ باادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب ، ماں باپ کے اور اُستاد کے آداب کو خاص طور سے ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ ادب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے سے آدمی دُعاؤں سے فیضیاب ہوتا ہے ۔ حضرت شرف الدین یحییٰؒکی والدہ نے ایک مرتبہ رات کے وقت اپنے صاحبزادے سے پانی لانے کی خواہش کی ۔ صاحبزادے جب پانی کا کٹورہ لیکر والدہ محترمہ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ اُن کی آنکھ لگ گئی ہے ۔ اُنہوں نے والدہ کو آواز دینا اُن کے آرام میں خلل اندازی سمجھا اور اُن کے بیدار ہونے کے انتظار میں کٹورہ لئے رات بھر ٹھہرے رہے ۔ صبح جب اُن کی والدہ نیند سے بیدار ہوئیں اور اپنے لخت جگر کو پانی لئے کھڑا دیکھا تو اندازہ کیجئے کہ کتنی دُعاؤں سے انہوںنے اولاد کو سرفراز کیا ہوگا اور اُن دعاؤں سے اُن کے صاحبزادے کو اللہ تعالی نے کِن کِن نعمتوں سے سرفراز کیا ہوگا ۔
خلیفہ ہارون رشید اپنے وقت کے اہم حکمران تھے ۔ ایک بار سواری شاہانہ شہزادہ کے اُستاد کے مکان کے سامنے سے گذر رہی تھی ۔ اچانک اُن کی نظر شہزادہ پر پڑی ، جو اپنے اُستاد کے پیروں پر پانی ڈال رہے تھے ۔ بادشاہ نے انتہائی غُصے کی حالت میں انکی طرف اپنی سواری موڑ دی ۔ لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ اب معلم صاحب کی خیر ممکن نہیں نظر آتی ۔ خلافِ توقع لوگوں نے دیکھا کہ بادشاہ اپنے لخت جگر پر غیظ و غضب کی حالت میں ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے ۔ انہوں نے شہزادہ سے دریافت کیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈال رہا تھا جبکہ اُس کو چاہئے تھا کہ دوسرے ہاتھ سے اُستاد محترم کے پیر بھی دھو دیتا ۔ یہ جذبہ احترام آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی باعث رہبری رہے گا ۔ تاریخ کے مطالعہ سے ایسی باتیں بھی علم میں آئی ہیں کہ لوگ اپنے استاد کے ادب و احترام کو اس قدر ملحوظ رکھتے تھے کہ استاد کی رہائش گاہ کی طرف پیردراز کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے ۔

امام حضرت ابو حنیفہ کے ایک مودب شادگرد کے ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی محفل میں وہ بیٹھے ہوئے ہوں اور اُدھر سے کوئی اُن کے اُستاد کی رہائش گاہ کے قریب رہنے والے کُتے کے ہم رنگ کُتا گذرتا تو آپ احترام سے کھڑے ہوجایا کرتے تھے ۔
حضرت امیر خُسرو خواجہ نظام الدین محبوب اولیاء کے احترام میں تاریخی شہرت رکھتے ہیں ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ واپس ہو رہے تھے وہ حضرت نظام الدین محبوب الہیؒ کے شاگردوں میں سے تھے ۔ ایک شخص حضرت محبوب الہیؒ کے دربار میں اپنی لڑکی کی شادی کیلئے رقمی مدد کا خواہاں ہوکر معروضہ پیش کیا۔ حضرتؒ نے اپنے کھڑاوں اُس کو عطا فرمائیں ۔ وہ شخص پاپوش کو لیکر اپنے گاؤں کی طرف خود پر لعنت بھیجتے ہوئے جارہا تھا اورکہہ رہا تھا کہ اور لوگ بھی حاضر دربار ہوئے اور مختلف نعمتوں سے سرفراز ہوکر واپس لوٹے لیکن شومی قسمت کہ اس کو صرف پاپوش ملی ۔ اتنے میں وہ تجارتی قافلہ جس میں حضرت امیر خُسرو بھی شامل تھے ۔ اس شخص کے قریب پہونچا ۔ حضرت امیر خسروؒ بے ساختہ پکار اٹھے ۔’’ بوئے پیر آید ‘‘ دریافت پر معلوم ہواکہ ایک شخص حضرت محبوب الہیؒ کے پاپوش لئے ہوئے جارہا ہے ۔ آپؒ نے اُس کو بلوایا ۔ سارے تجارتی اموال اس کو دے کر وہ کھڑاوں حاصل کرلے اور اپنے پیر کے مکان کی طرف روانہ ہوگئے ۔ قدر فاصلے پر تھے کہ حصرت محبوب الہی نے آواز دی ’’ ارزاں خریدی‘‘ اس واقعہ سے استاد سے ادب محبت اور تعظیم کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے ۔
ایک بار حضرت خواجہ بندہ نوازؒ اپنے استاد و پیر حضرت خواجہ نظام دالدین محبوب الہی کی پالکی کو اپنا کاندھا دے کر حالت سفر میں تھے کہ آپ کے بال پالکی کے پائے میں آگئے تھے ۔ سخت ناقابل برداشت تکلیف سے آپ گذر رہے تھے لیکن اپنے استاد محترم کا ادب پیش نظر تھا ۔ اس لئے خاموشی سے آپ اذیت سہتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ اللہ تعالی ایسی بیش قیمت قربانیوں کا صلہ ضرور عطا کرتے ہیں چنانچہ آج پولے ملک میں حضرت خواجہ بندہ نوازؒ ایک عظیم روحانی رہنما کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

اسی طرح خوفِ خدا بھی انسان کے پیش نظر رہنا چاہئے ۔ خلیفہ دوم کے زمانہ خلافت میں وہ رات کی گشت کیلئے گئے ہوئے تھے کہ ایک مکان کے سامنے سے جب اُنکا گذر ہو رہا تھا تو ماں نے بیٹی سے کہا کہ رات کا وقت ہے اور کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے ۔ لہذا وہ جلد سے جلد دودھ میں پانی ملا دے ۔ لڑکی نے جواب دیا کہ گو یہ سچ ہے کہ اتنی دیر گئے رات کوئی دیکھنے والا تو نہیں ہے لیکن اللہ تعالی  دیکھ رہا ہے ۔ یہ جواب سُن کر ماں خاموش ہوگئی۔ خلیفہ نے مکان پر کچھ نشان لگوایا اور دوسرے دن اپنے ملازمین کے ذریعہ ماں اور بیٹی کو دربار میں طلب کیا اور اپنے لڑکے سے اُس لڑکی کی شادی کی اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خوفِ خدا بڑی نعمت ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ وہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ‘‘ ۔ آج سے لگ بھگ پچاس برس پہلے ایک مجذوب صاحب کاچی گوڑہ اسٹیشن پر رہا کرتے تھے ۔ خداوند کریم نے ان کی زبان میں بے حد تاثیر عطا فرمائی تھی ۔ وہ شام چار بجے کاچی گوڑہ ریلوے اسٹیشن سے سلطان بازار تک پیدل آیا کرتے تھے اور پھر واپس لوٹ جاتے تھے ۔ اُس زمانے میں سید عبدالقادر حسینی صاحب جن کا تعلق محکمہ مال سے تھا اور وہ بحیثیت تحصیلدار خدمات انجام دے رہے تھے ایک بار اُن کا اور حضرت کا آمنا سامنا ہوا ۔ انہو ںنے ایک سکہ نکال کر حضرت کو نذر کیا ۔ حضرت عام طور سے کسی کی نذر وغیرہ قبول نہیں فرمایا کرتے تھے لیکن تحصیلدار صاحب کی نذر کو انہوں نے قبول کرلیا ۔ اس طرح دو چار بار نذر پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ ایک بار حضرت نے فرمایا ’’ جاؤ دوم تعلقہ داری کا جائزہ حاصل کرلو ‘‘ پھر حضرت کی دعاؤں سے اول تعلقدار بھی ہوئے ۔ ایک بار کاچی گوڑہ اسٹیشن کے قریب دونوں کا آمنا سامان ہوا ۔ تعلقدار صاحب نے نذر پیش کی جس کو حضرت نے قبول کیا اور مزید نذر مانگی جس کی انہوں نے تکمیل بھی کی ۔ لیکن یہ مانگ کا سلسلہ جاری رہا بالاخر تعلقدار صاحب نے مزید پیسے نہیں ہونے کا اظہار حضرت سے کیا ۔ حضرت خفا ہوگئے اور فرمایا ’’ تنزل ‘‘ اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ دوم تعلقدار بنادئے گئے۔ وہ حضرت سے اتنے خائف ہوگئے تھے کہ اگر راستے میں حضرت نظر آتے تو قریبی گلیوں میں بھاگ  جاتے ۔ اُس کا ذکر انہوں نے کسی بزرگ سے کیا تو بزرگ نے جواب دیا۔ تم دئے تمہارا ہاتھ اوپر تھا ان صاحب نے لیا ۔ ان کا ہاتھ نیچے تھا ۔ تم محسن ہوئے اور وہ احسان مند ۔ اس واقعہ کے بعد مجذوب صاحب سے کبھی آمنا سامنا ہوگیا تب بھی مجذوب صاحب کتراکر نکل جایا کرتے تھے ۔ اس واقعہ سے بھی اخلاقی اقدار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔