فیشن پرستی … عصر حاضر کا ایک سنگین فتنہ

مولاناسید احمدومیض ندوی
طہارت ونظافت اور زینت انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اسلام چوں کہ دین فطرت ہے، اس لیے وہ نہ صرف نظافت وزینت کی اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتا ہے، ارشادِ خداوندی ہے: ’’آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی زینت کی چیز (کپڑے) جن کو اس نے بندوںکے لیے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس نے حرام کیا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء دنیوی زندگی میں مؤمنوں کے لیے بھی ہیں اور قیامت کے دن تو خالص انہیں کے لیے ہوں گے‘‘ (الاعراف: ۲۳) ایک جگہ ارشاد ہے: ’’اے اولادِ آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا، جو تمہارے بدن کو بھی چھپاتا ہے اور موجبِ زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس اس سے بڑھ کر ہے‘‘ (الاعراف: ۶۲) آیت میں ’’ریشاً‘‘سے مراد وہ لباس ہے جو زیب وزینت اور حسن ورعنائی کے لیے پہنا جائے، حدیث میں ہے کہ جب آپ کوئی نیالباس پہنتے تو یہ دعا پڑھتے: ’’الحمد للّٰہ الّذی کسانی مااواری بہ عورتی واتجمّل بہ فی حیاتی‘‘(ترمذی ۲/۱۹۲) (تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس سے میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں) قرآن مجید میں ایک جگہ زینت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا: ’’اے اولادِ آدم! تم مسجد کی حاضری کے وقت آرائش کا لباس پہنا کرو‘‘ (الاعراف: ۱۳)آیت میں بعض علماء لباس سے وہ لباس مراد لیتے ہیں جو آرائش کے لیے پہنا جائے، عورتوں کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے لیے زینت اختیار کریں ’’اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں، مگر اپنے شوہروں کے لیے‘‘(النور:۱ ۳) احادیث میں بھی صفائی اور زینت کی تاکید ملتی ہے، ایک موقع پر آپ ا نے فرمایا: تم اپنا کجاوہ اور اپنا لباس درست رکھو، یہاں تک کہ تم لوگوں میں ایسے خوب صورت معلوم ہو جیسے کہ چہرے پر تل نمایاں ہوتا ہے‘‘ نیز رسول اکرمؐ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو اپنی شکل وصورت یاہیئت خراب بنائے رہتا ہے۔
چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص کو پراگندہ بالوں والا دیکھا تو فرمایا: ’’کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی جس سے وہ اپنے سر کے بال درست کرے ؟پھر وہی شخص جب کنگھی کر کے اور اپنی شکل وصورت اچھی بناکر آیا تو آپ ا نے فرمایایہ بہترہے اس کے مقابلہ میں کہ تم میں کوئی پراگندہ بال رہے ۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایاوہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی تکبر ہے ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ! آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو، آپؐ نے فرمایا: ’’انّ اللّٰہ جمیل یحبّ الجمال‘‘اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔

عورتوں کے لیے زینت وزیبائش
پھر مرد وعورت میں عورت فطری طور پر آرائش پسند ہوا کرتی ہے، اس لیے مرد کے مقابلہ میں عورت کے لیے تزئین وآرائش اور زیب وزینت کی کافی گنجائش رکھی گئی ہے، اس لیے عورت کے لیے سونا، ریشم اور تزئین کی دیگر شکلیں درست قرار دی گئی، تاہم اسلام نے زیب وزینت اور آرائش وزیبائش کے سلسلہ میں عورتوں کو آزاد نہیں چھوڑا، بلکہ لباس اور جسمانی آرائش کی دیگر شکلوں کے لیے کچھ ضروری قوانین وضع فرمائے اور آرائش وزیبائش کی جو شکلیں ان ضوابط سے متصادم ہوں وہ اسلام کی نگاہ میں ناجائز ہیں، اس طرح کے کم وبیش دس ضوابط ہیں، ذیل کی سطروں میں ان ضوابط کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔

لباس ساتر ہو
لباس ایسا ہو جس سے جسم پورا ڈھکا رہے اور مکمل ستر حاصل ہو، اسلام میں ہر اس فیشن ایبل لباس کی اجازت نہیں ہے، جس سے کسی بھی طرح کی بے ستری ہوتی ہو یا جسم کا چھپا رہنے والا حصہ کھلا رہتا ہو، دورِ جاہلیت میں بعض عورتیں جسم پر ایسا کرتہ پہنتی تھیں جس میں موتی جڑے ہوتے تھے اور بغلوں کے دونوں جانب کھلے رہتے تھے، باریک مختصر لباس جس سے جسم پورا نہ ڈھکتا ہو یا نرم ہونے سے جسم جھلکتا ہو شریعت کی نگاہ میں ناجائز ہے، اس طرح کا لباس پہننے والی عورتو ںکو حدیث میں لباس پہننے کے باوجود برہنہ قرار دیا گیا ہے اور جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی، موجودہ فیشن والے لباس کی امتیازی خصوصیت عورت کا زیادہ سے زیادہ حصہ کھلا رہنا ہے، چنانچہ جو لباس جتنا زیادہ برہنگی پر مبنی ہو فیشن کی دنیا میں اتنا ہی زیادہ معیاری سمجھا جاتا ہے، فیشن پرست خواتین کے جسم کا بیشتر حصہ کھلا رہتا ہے، شانے، پنڈلیاں عام طور پر کھلی رہتی ہیں، پھر کپڑا انتہائی نرم اور جالی دار ہونے سے جسم کا بقیہ حصہ بھی جھلکتا رہتا ہے، ستر کلی کے لیے قرآن میں چار قسم کے کپڑوں کا ذکر آیا ہے۔
لباس تنگ نہ ہو
لباس تنگ نہ ہو، بلکہ بھرپور اور کشادہ ہو، تنگ لباس جسم کے نشیب وفراز کو نمایاں کردیتا ہے، جس سے بے حیائی جنم لیتی ہے، رسولِ اکرم ا کے زمانہ میں ایک انتہائی تنگ لباس پہنا جاتا تھا، جسے قبطی لباس کہا جاتا تھا، آپ ا نے ایسے لباس سے منع فرمایا اور اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اس طرح کا لباس جسم کے حجم کو واضح نہ کردے، اسلام کا مقصد یہ ہے کہ عورت کا حسن وجمال اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہو، چوں کہ یہ چیزبے حیائی و فحاشی تک پہنچادیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں عورتوں کو اپنے مردوں کے علاوہ کسی کے آگے اپنی زینت کے اظہار سے منع کیا گیا ہے، ارشاد ہے: ’’اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں، مگر اپنے شوہروں کے لیے‘‘(النور: ۳۱)
لباس فتنہ کا باعث نہ بنے
فحاشی اور بے حیائی کے انسداد اور معاشرہ کو اخلاقی انار کی اور جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لیے اسلام ہر اس لباس کو حرام ٹھہراتا ہے جو دوسروں کے لیے فتنہ بنتا ہو، جس سے مرد کا عورتوں کی طرف میلان ہونے لگے، فی زمانہ خواتین ایسا لباس زیب تن کرنے لگی ہیں، جو بظاہر ستر کو پورا کرنے والا نظر آتا ہے، لیکن اس قدر بھڑکیلا ہوتا ہے کہ مرد للچائی نگاہیں ڈالنے لگتے ہیں، فیشن پرستی کے اس دور میں بیشتر کمپنیاں اس قسم کا لباس تیار کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہی ہیں، پھر فلمی ہیروئن جن بھڑکیلے لباسوں کی نمائش کر رہی ہیں ان سے عورتوں میں ایسا لباس پہننے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے، احادیث میں ان عورتوں کو سخت وعیدیں سنائی گئیں جو بھڑکیلے لباس اور چال ڈھال کے ذریعہ مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں ’’مائلات ممیلات‘‘ کے الفاظ ہیں کہ خود بھی اجنبی مردوں کی طرف مائل رہتی ہیں اور اجنبی مردوں کو لباس کے ذریعہ اپنی طرف مائل بھی کرتی ہیں۔ (مسندالفردوس)
لباس کفار ومشرکین اور غیر مسلم اقوام کا شعار نہ ہو
اسلام کی اپنی مستقل تہذیب ہے، وہ ہر شعبۂ زندگی میں رہنمائی کرتا ہے، رہن سہن، چال چلن اور عادات واطوار ہر چیز میں اسلامی رہنمائی پائی جاتی ہے، زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق اسلامی ہدایات دیگر تمام مذاہب کے طور طریقوں پر اس لیے افضلیت رکھتے ہیں کہ اسلامی ہدایات ربانی ہدایات ہیں، اس لیے اسلام یہ گوارا نہیں کرتا کہ ایک مسلمان دیگر اہلِ مذاہب کی تقلید کرے اورلباس و آرائش میں بھی اسلام کا یہی اصول ہے کہ ایسا لباس نہ اپنایا جائے جو کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ کا امتیاز اور مذہبی شعار ہو، زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمان اقوام کی نقالی درحقیقت غضبِ خداوندی کو دعوت دینا ہے، ارشادِ نبوی ا ہے: ’’جو جس قوم سے مشابہت اور اس کی نقالی کرے گا قیامت کے دن اس کو اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا‘‘ (ابوداؤد۲/۵۵۹)یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس لیے سنگین ہو جاتی ہے کہ خدا کے نافرمانوں کی نقالی کا مطلب ان سے محبت وتعلق ہے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی کرنا خدا کو ناراض کرنا ہے۔
موجودہ فیشن کی دنیا پر یہود ونصاریٰ کا غلبہ ہے، لباس وپوشاک کے لیے فیشن یہودی کمپنیاں ہی ایجاد کر رہی ہیں، ان جدید ڈیزائین میں مذہبی عنصر بھی شامل ہوتا ہے، یہودی بسا اوقات جدید فیشن کے عنوان سے لباس میں ایسی تراش وخراش یاڈیزائین کرتے ہیں جس سے اسلامی شعار کی توہین ہوتی ہے، یہ بات صاف ظاہر ہے کہ یہود ونصاریٰ کی اصل دشمنی اسلام سے ہے، چنانچہ وہ فکری وتہذیبی یلغار کے ذریعہ اسلامی تمدن کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، ایسے میں یہودیوں کی ایماء پر تیار ہونے والے فیشن ایبل لباس کا استعمال دراصل ان کی اسلام دشمن مہم کو کامیاب بنانا ہے، اسی طرح فلمی اسکرین کے ذریعہ جڑپکڑنے والی فیشن پرستی میں بھی اس پرکافی زور دیا جارہا ہے، غیرمسلم اقوام کے مذہبی لباس اور شعار کو کافی اہتمام کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، جس کی مسلمان نوجوان نقالی کرنے لگتے ہیں، بہت سی فلموں میں اسلامی شعار کا مذاق اڑاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، لیکن لوگوں پر فلمی میدان میں کام کرنے والے فحاشوں کی نقالی کا ایسا بھوت سوار ہو جاتا ہے کہ اس کے لیے ہرچیز قربان کردی جاتی ہے۔
تشبّہ بالرجال نہ ہو
مردوں جیسا لباس عورتیں نہ پہنیں اور عورتوں جیسا لباس مرد نہ پہنیں، فطری لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے مردوعورت کو دو الگ الگ صنف کی شکل میں پیدا کیا ہے، ہر ایک کے فطری تقاضے الگ الگ ہیں، انسانیت اسی میں ہے کہ دونوں اپنی فطرت پر باقی رہتے ہوئے خالق فطرت کے نظام کے آگے جھک جائیں اور اپنی فطرت کو مسخ نہ کریں، اس لیے شریعت میں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ مرد عورت سے مشابہت اختیار کرے یاعورت مرد سے مشابہت اختیار کرے، رسولِ اکرمﷺ نے ایسی عورتوں پر جو مردوں کا لباس زیب تن کریں اور ایسے مردوں پر جو عورتوں کا لباس اپنائیں لعنت فرمائی ہے ۔(ابوداؤد۲/۵۶۶) بعض روایتوں میں ان دونوں کو آپس میں ایک دوسرے سے کسی بھی طرح کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس لیے لباس وپوشاک اور آرائش وتزئین کے معاملہ میںبھی دونوں میں فرق رکھا گیا ہے، عورتوں کا لباس مکمل اور ساتر ہوتاکہ کوئی حصہ کھلا نہ رہے جب کہ مردوں کے لباس میں یہ بات نہیں ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے ریشم اور رنگین کپڑوں کا استعمال اور زیورات مہندی وغیرہ اسبابِ تزئین جائز رکھے گئے، جب کہ مرد کے لیے یہ جائز نہیں ہیں۔
مغربی فیشن کا امتیاز یہ ہے کہ اس کے لباس کی بنیاد اس اصول کے خلاف ہے، عورتوں کے لیے مردوں جیسا لباس پسند کیا جاتا ہے کہ خوب تنگ ہو اور جسم کا زیادہ سے زیادہ حصہ کھلا رہے، جب کہ مردوں کے لباس میں ستر کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے کہ کوئی حصہ کھلا نہ رہے، حالانکہ ان کے لباس میں مکمل ستر مطلوب نہیں ہے، اس لیے مردوں کو ٹخنوں کے نیچے لباس پہننا ممنوع قرار دیا گیا، لیکن مغربی طرز کے لباس میں مرد مکمل طور پر ڈھکا رہتا ہے، فیشن زدہ خواتین پر مردوں جیسی شکل وصورت بنانے کا بھوت سوار رہتا ہے، مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ نے آج سے کافی عرصہ پہلے انگلستانی اخبارات کے حوالے سے ایک مقدمہ کی رپورٹ شائع کی تھی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مردوں سے مشابہت کے جنون میں ایک نوجوان عورت نے مردانہ لباس پہن کر خود کو مرد ظاہر کرتے ہوئے ایک دوسری نوعمر عورت سے گرجاگھر میں جاکر باضابطہ نکاح کرلیا اور ایک عرصہ تک برابر اپنی بیوی کی طرح ہمراہ رکھا ۔(سچ: ۱۵؍نومبر ۱۹۲۹ء)
صحت ِ انسانی کے لیے مضر نہ ہو
لباس اور آرائش وزیبائش کے لیے ایک اصول یہ ہے کہ وہ صحتِ انسانی کے لیے نقصان دہ نہ ہو، اس لیے کہ شریعت ہر اس چیز کو حرام قرار دیتی ہے جو انسان کے لیے نقصان کا باعث بنے موجودہ فیشن پرستی کے دور میں نت نئے فیشن کے جتنے لباس اختیار کیے جارہے ہیں اور میک اپ کی جتنی شکلیں رائج ہیں صحتِ انسانی کے لیے ان کے نقصان دہ ہونے کا خود مغربی محققین نے اعتراف کیا ہے، تنگ لباس جو آج کے فیشن کا معیار سمجھا جاتا ہے جسم کے لیے مضر ہے، ایک تو اس سے جسم پر رگڑپڑتی ہے، جو بجائے خود مضر ہے، پھر اس سے ہوا کا داخلہ بھی متاثر ہوتا ہے، چنانچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تنگ لباس سے الرجی، وائرس، ایگزیما اور دیگر جلدی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔
موجودہ فیشن کے رحجان نے عورتوں میں خوب صورتی بڑھانے کا ایک ہیجان پیدا کردیا ہے، چنانچہ اس نام نہاد خوب صورتی کے لیے خواتین میں سودوزیاں کا احساس بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور عورتیں مغرب سے آنے والی ہر چیز کے استعمال میں سبقت لے جارہی ہیں، چاہے صحت کے لیے وہ کتنی ہی نقصاندہ کیوں نہ ہو، میک اپ اور آرائش کے عنوان سے اس طرح کی بے شمار چیزیں عورتوں میں عام ہیں، جن میں سے ایک پستانوں کو حسن فراہم کرنے کے لیے بریزئر کا استعمال ہے، اس کا استعمال انتہائی نقصاندہ ہے، چنانچہ حکیم طارق محمود چغتائی اس سلسلہ میں ہوزری کے ماہرین سے ملاقات کر کے بریزئر کی تحقیق کے بعد درجِ ذیل نتائج تک پہنچے ہیں:
بریزئر میں فوم کی تہ سینہ کو ابھاردار اور نرم بنانے کے لیے ہوتی ہے، فوم جلدی غدود خاص طور پر روغنی گلینڈیز کو بہت متاثر کرتے ہیں، اس فوم کی تہ کی وجہ سے ہوا کا داخلہ بند ہو کر گھٹتاہے چوں کہ پستان بہت حساس اور زوداثر ہوتے ہیں اس لیے یہ تھوڑی سختی بھی برداشت نہیں کرسکتے، تمام بریزئر میں استعمال ہونے والا کپڑا پولیسٹر یا پتلون کا ہوتا ہے، جونہ پسینہ جذب کرتا ہے اور نہ ہوا داخل یا خارج ہونے دیتا ہے، چوں کہ بریزئر کا مقصد پستانوں کو ڈھلکنے سے بچانا ہے، اس لیے بریزئر اس انداز سے بنایا جاتا ہے کہ یہ پستانوں کو کھینچ کر رکھیں، بریزئر بذاتِ خود ایک شکنجہ نما چڑھاوابن کر بے شمار امراض کا باعث بن جاتا ہے، اس کی سختی کو مزید سخت کرنے کے لیے اس کے تسمے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔
ڈاکٹر خالدہ عثمانی کینسر اسپیشلسٹ لاہور نے انکشاف کیا ہے کہ میرے پاس پستانوں کے کینسر میں مبتلا اکثر مریض عورتیں ایسی ہیں جن کو صرف بریزئر کی وجہ سے کینسر ہوا، بریزئر کے استعمال سے چوں کہ پستان ڈھکے ہوئے اور گھٹے رہتے ہیں اس لیے ان کے اندر حساسیت پیدا ہو جاتی ہے، مزید یہ کہ دن بھر کے کام کاج عورتوں کو اوپر نیچے ہونے پر مجبور کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پستان بریزئر سے رگڑ کھاتے رہتے ہیں اور یہی رگڑ مریض کے لیے الرجی کا باعث بن جاتا ہے، جس سے وائرس اور بیکٹریا کے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں، تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پستانوں پر بریزئر کے دباؤ کا اثر جسم کے تمام اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے، ایسی خواتین ہمہ وقت مندرجہ ذیل کیفیات کا شکار رہتی ہیں: ایسی خواتین بہت حساس ہو جاتی ہیں اور چھوٹی موٹی باتیں زیادہ محسوس کرتی ہیں، ان میں چڑچڑا پن ہو کر ہسٹریائی کیفیت بن جاتی ہے، کمر اور شانوں کے درد کی مستقل مریض بن جاتی ہیں، سربوجھل اور دل پر گھٹن کے اثرات ہوتے ہیں۔(سنتِ نبوی ا اور جدید سائنس: ۳۲۰)
میک اپ کے نام سے چہرہ اور جسم پر جتنی اشیاء کا استعمال ہوتا ہے وہ صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں، اس لیے کہ سامانِ میک اپ میں جو کیمیکل استعمال ہوتا ہے وہ خطرناک قسم کا ہوتاہے چہرہ کے مہاسے، چہرہ پر سیاہ دانے، لیس دار تھیلی نما مہاسے، کیل اور چھائیں، ناک پر دانوں کا بگاڑ، تمام پھوڑے پھنسیاں، داد، پھپھوندے سے پیدا ہونے والے امراض یہ سب میک اپ کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض ہیں، مشہور مغربی مفکر اور حفظانِ صحت کا ماہر کہتا ہے ’’فیشن اور رواج کی دنیا نے ہمیں صرف دھوکہ اور فریب دیا ہے، میک اپ اب حسن نسواں کے لیے ہے، لیکن جتنا نقصان اس نے حسن نسواں کو دیا ہے شاید ہی کسی چیز نے دیا ہو، جنگوں سے ماحول اور حالات بدلے، بارود نے تباہ کاریوں کی انتہا کردی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کا نقصان اس سے کم ہے جتنا نقصان میک اپ سے ہوا ہے‘‘(سنتِ نبوی ا اور جدید سائنس: ۳۲۶) یہ صرف فیشن پرست لباس وآرائش کے صحتِ انسانی پر ہونے ولے اثرات کا ہلکا نمونہ ہے، ورنہ بیوٹی بارلر کے ذریعہ ہونے والی آرائش میں بے شمار نقصانات ہیں۔ (باقی آئندہ)