فیشن پرستی … عصر حاضر کا ایک سنگین فتنہ

مولاناسید احمدومیض ندوی
دوسری اور آخری قسط

خلقت ِ خداوندی میں تغیر نہ آئے
لباس وآرائش کا ایک اصول یہ ہے کہ اس سے خلقتِ خداوندی میں تغیر نہ آئے، یعنی زینت وآرائش کی خاطر قدرتی اعضاء میں تبدیلی نہ لائی جائے، فیشن پرست عورتوں میں اس قبیل کی بہت سی چیزیں رائج ہیں، مثلاً بالوں کی زینت کے لیے مختلف طریقے رائج ہیں: بال ترشوانا، بھوؤں کا چھیلنا یا انہیں باریک کرنا تغیر خلق اللہ ہے، رسولِ اکرم ا نے اسے زیبائش میں مبالغہ قراردیا ہے ۔حضرت فضالہؓ سے روایت ہے کہ: ’’رسول اللہ ا ہمیں ارفاء سے منع کرتے تھے‘‘ (سنن ابوداؤد۲/۵۷۳) بعض عورتیں محض بدن کو متناسب بنانے کے لیے عمل جراحی یعنی آپریشن کرتی ہیں، چونکہ یہ بھی تغیر خلق اللہ ہے، اس لیے مطلق حرام ہے، البتہ اپنے شوہروں کے لیے، اگر یہ مقصد ورزش وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (المفصل فی احکام المرأۃ: ۳/۴۰۵) اسی طرح چہرہ کو متناسب اور مصنوعی طورپر خوب صورت بنانے کے لیے سرجری کرنا بھی ناجائز ہے، اس لیے کہ یہ بھی تغیر خلق اللہ ہے، حتی کہ رنگ کے نکھار یا آنکھ کے حلقہ اور ٹھوڑی میں نکھار پیدا کرنے کے لیے مالش کرانا بھی درست نہیں، حدیث میں نبی اکرم ا نے ایسی عورتو ںپر لعنت فرمائی ہے جو مالش کرتی ہیں یا کراتی ہیں ۔(الجامع الصغیر: ۲/۳۲۹) البتہ کسی عورت کے چہرہ پر خلافِ عادت بال اگ آئیں اور تغیر خلق کے بغیر دوا وغیرہ سے ان کو ختم کرنا ممکن ہو تو ایسا کرنا درست ہے۔(عمدۃ القاری شرح بخاری: ۲/۱۹۳)یہی حال دانتوں کا بھی ہے، اگر گھسوانا اورکشادگی پیدا کرنا علاج کی غرض سے ہو توجائزاور اگر لوگوںکے سامنے حسن کو ابھارنے کے لیے کیا جائے تو یہ بھی تغیر خلق اللہ ہے۔
لباس غرور وتکبر کا مظہر نہ ہو
لباس وزیبائش غرور وتکبر کا مظہر نہ ہو، تکبر ایک مذموم صفت ہے، جسے اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتا ہے، حدیث کے مطابق رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر رکھنے والا شخص جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔(کتاب الکبائرللذھبی:۶۴) متکبر آدمی کا تکبر اس کے لباس سے بھی جھلکتا ہے، جدید فیشن کے ڈیزائین میں اس کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ زیادہ لوگوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے والا ہو، ایسا لباس پہن کر جب آدمی چلتا ہے تو اس کی چال سے بھی تکبرچھلکنے لگتا ہے۔
لباس کا مقصد نمودنہ ہو
اسی طرح لباس اور آرائش کا مقصود نمود وریا نہ ہو، کہ اس کی خاطر آدمی خوب اسراف اور فضول خرچی کرنے لگے، فیشن زدہ مرد وعورت ہر نئے نئے طرز کے لباسوں کی خریداری میں پانی کی طرح جو پیسہ بہاتے ہیں اس کا بنیادی مقصد نمود وریا ہوتا ہے، مغرب کی تقلید میں لوگ بلاضرورت نئے کپڑوں کی خریدی میں بے تحاشہ مال صرف کرتے ہیں، مہینہ بھی گزرنے نہیں پاتا کہ نیا فیشن عام ہو جاتا ہے اور لوگ اسے تیزی کے ساتھ خریدتے ہیں، متمول گھرانوں میں ہزاروں روپے صرف جدید فیشن اپنانے میں خرچ کیے جاتے ہیں، اس سے ایک تو فضول خرچی لازم آتی ہے، جو کہ سخت گناہ ہے، فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے، دوسرے ریا کے لباس کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی ا ہے: ’’جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا‘‘ (ابنِ ماجہ ۲/۱۹۳)
لباس آخرت سے غفلت کا سبب نہ ہومؤمن کابنیادی مقصد اخروی کامیابی ہے، وہ دنیا کو عارضی ٹھکانہ سمجھتا ہے، وہ کسی لمحہ اللہ اور آخرت سے غافل نہیں ہوتا، اس لیے لباس میں اس کی بھی رعایت رہے کہ وہ آدمی کو آخرت سے غافل کرنے والانہ ہو، مغربی تمدن کی بنیادی خصوصیت آخرت فراموشی ہے، وہ انسان کو دنیا کی رنگینیوں میں ایسے محو کردیتی ہے کہ انسان اسی زندگی کومطمحِ نظر بنالے، اس لیے اس کے لباس وآرائش میں بھی خدا فراموشی اور آخرت فراموشی کا عنصر پایا جاتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ موجودہ فیشن ایبل لباس آدمی کو آخرت سے غافل نہ کرے۔مذکورہ بالا اصولوں کی روشنی میں فیشن زدہ لباس کا جائزہ لیجئے، ہرشخص بآسانی اس نتیجہ تک پہنچ سکے گا کہ وہ اسلامی اصول سے ہٹا ہوا ہے، اس کے بے شمار دینی ودنیوی نقصانات ہیں، لیکن پھر بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بغیر سوچے سمجھے فیشن کے پیچھے بھاگ رہا ہے، موجودہ طرزِ زندگی میں فیشن کے غلبہ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض لباس انتہائی تنگ، نامعقول اور نقصاندہ ہونے کے باوجود ہم انہیں محض اس لیے خریدتے ہیں کہ فلاں امریکی کمپنی کا ایجاد کردہ ہے، بسا اوقات انتہائی کم قیمت کے لباس موتی کے داموں میں خریدے جاتے ہیں، محض اس وجہ سے کہ وہ مارکیٹ میں ابھی آئے ہیں، بعض لباس اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ ہاتھ کا حرکت کرنا بھی دشوار ہوتا ہے، مگر خطیر رقم دے کر یہ مصیبت خریدی جاتی ہے۔مغرب کو ہماری فیشن زدگی کا بخوبی اندازہ ہے، چنانچہ اس نے ہمیں کنگال کرنے کے لیے موسم اور اوقات کے لحاظ سے الگ الگ کپڑے متعارف کرائے ہیں، موسم سرما کے الگ موسم گرما کے الگ، موسم بہار کے الگ، موسم خزاں کے الگ، حالانکہ اکثر ممالک میں نہ اتنے موسم ہوتے ہیں او رنہ ہی ایسی موسمی تبدیلیاں ہوتی ہیں، یہی حال اوقات کا بھی ہے، صبح کے لیے الگ، شام کے لیے الگ، ظہر سے پہلے کا لباس الگ، ظہر کے بعد کا لباس الگ، اب تو یہ حال ہے کہ ایک ہی قسم کے لباس میں تقریبوں میں شرکت کو عار سمجھا جاتا ہے۔
مسلمانوں میں فیشن پرستی کا آغاز
اس اندھی فیشن پرستی کو مسلمانوں میں کیسے رواج ملا اور یہ لعنت کب سے مسلم ملکوں میں درآئی؟ اس کی قطعی تحدید تو نہیں کی جاسکتی، تاہم اتنا ضرور ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد سے مسلم ملکوں میں مغرب کا تسلط بڑھتا گیا اور آہستہ آہستہ مغربی زندگی جڑ پکڑنے لگی، خلافتِ عثمانیہ کے دورِ آخر میں ایک شخص نے اس دور کے شیخ الاسلام کا ایک جھوٹا فتویٰ جاری کیا، فتویٰ کو جس پر سلطان عبدالمجید کی مہر تھی یہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ سلطان نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے، فتویٰ میں اسلامی ٹوپی اتار پھینکنے اور اس کی جگہ مغربی طرز کی ہیٹ پہننے کو لازم کردیا گیا تھا، کسی مغرب پرست کی اس حرکت نے مسلمانوں کی رگِ حمیت بھڑکادی اور انہوں نے اس اسلامی لباس اور وضع قطع سے دستبرداری سے انکار کردیا، کچھ ہی عرصہ کے بعد جب ترکی پر مغرب نواز حکمران کمال اتاترک کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے بالجبر حکومتی طاقت کے زور پر سارے مسلمانوں کے لیے مغربی طرز کا لباس لازم کردیا، جس کے نتیجے میں عالم اسلام کے اندر مغربی فیشن عام ہوتا گیا اور لوگ مغربی ڈیزائن کے کپڑوں کے دلدادہ ہوگئے، عالم اسلام میں فیشن پرستی کے رواج کا ایک ذریعہ ذرائع ابلاغ اور فلمیں ہیں، ٹی وی اور مغربی فلموں کے ذریعہ مغربی فیشن عام ہوتا گیا، خلیجی ملکوں کے نوجوانوں کے دماغوں پر برطانیہ اور فرانس کی فلمی شخصیتیں بھوت کی طرح سوار ہوگئیں اور وہ ان کی ایک ایک ادا کے دیوانے ہوگئے، پھر یہ کہ مغربی کمپنیاں اپنی اشیاء کو رواج دینے کے لیے جس طرح تشہیر کرتی ہیں اور پروپگنڈہ پر جتنا کچھ پیسہ بہاتی ہیں اس سے بھی لوگ متاثر ہوگئے، مغربی طرز کے لباس کی تشہیر اس طرح ہوتی رہی کہ آدمی جس جگہ بھی جائے اسے ان لباسوں کے اشتہار نظر آتے ہیں، عوامی مقامات انہیں سے پُر ہوتے ہیں۔
فیشن پرستی کے اسباب
اس وقت لوگ فیشن پرستی کے سیلاب میں تنکہ کی طرح بہ رہے ہیں، جس کے مختلف اسباب ہیں، کسی کو کوئی خاص قسم کا فیشن لبھاتا ہے تو وہ اس کا دلدادہ بن جاتا ہے، کوئی ہے کہ کسی خاص فلمی ہیرو کے لباس سے متاثر ہو کر اسے اپناتا ہے، مگر یہ فیشن پرستی کے ظاہری اسباب ہیں، جہاں تک حقیقی اسباب کا تعلق ہے تو عیش پرستی حد سے زیادہ مال اور دولت کی فراوانی، غفلت کی زندگی، خودپسندی، تکبر، ایمانی کمزوری، روحانی خلا، غلط خاندانی تربیت، فقراء ومساکین سے ہمدردی کا نہ ہونا، سنگ دلی وقساوتِ قلبی، معاشرہ میں امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر کا نہ ہونا اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت وغیرہ وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے فیشن پرستی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، عموماً وہ لوگ فیشن سے متاثر ہوتے ہیں جو دولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات سے دور ہیں، جنھیں ابتداء میں صحیح اسلامی تربیت نہیں مل سکی اور جن کے اندر خوفِ خدا اور فکرِ آخرت نہیں ہے اور جو اسلام کو ایک کامل ومکمل دستورِ حیات کے بجائے صرف چندرسموں اور عبادات کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔
فیشن پرستی کے نقصانات
فیشن پرستی ایک ایسی لت بن گئی ہے جو چھڑائے نہیں چھٹتی، جب کہ فیشن کے پیچھے دوڑنے میں مختلف قسم کے نقصانات ہیں، موجودہ دورمیں فیشن پرستی کا ایک بڑا نقصان کثرتِ طلاق کی شکل میں سامنے آرہا ہے، شوہر جب اپنی بیوی کی ہر نئی خواہش کی تکمیل سے عاجز آجاتا ہے تو پھر اقدام طلاق کر بیٹھتا ہے، موجودہ خواتین کی صورتِ حال یہ ہے کہ ادھر کوئی نیا ڈیزائن آیا ادھر خواتین بازار میں خریدنے کے لیے دوڑیں، حد سے زیادہ اخراجات سے جب شوہر عاجز آجاتا ہے تو طلاق پر مجبور ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ فیشن پرستی کے بہت سے نفسیاتی نقصانات بھی ہیں، یہ تو انسانی فطرت ہے کہ انسان ہر نئی چیز کی طرف لپکتا ہے، اس لحاظ سے لباس وپوشاک کے نئے ڈیزائن کی طرف میلان بھی فطری ہوتا ہے، اگر یہ چیز حدود کے اندر ہوتو کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن حد سے زیادہ اس کا دلدادہ ہونا نفسیاتی خلل کی نشاندہی کرتا ہے، فیشن پرستی جب دیوانگی کی حدوںکو چھونے لگے تو اس سے آدمی کئی نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے، فیشن پرست آدمی مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے کہ جب ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بتائے گئے نئے طرز کے قیمتی لباس کے خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو لامحالہ مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہو جائے گا، اسی طرح ایسا آدمی قناعت اور موجودہ وسائل پر خوش دلی سے زندگی گزارنے سے محروم ہو جاتا ہے، اسے اپنی شکل وصورت آمدنی اور ذرائع آمدنی سے نفرت ہونے لگتی ہے، جب دوسرے فیشن زدہ لوگوں کے فیشن ایبل لباس دیکھے گا تو اس کے دل میں ان لوگوں سے حسدوجلن پیدا ہوگی اور سماج کے مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی اس نابرابری سے آپسی محبت ختم ہو جائے گی۔فیشن ایبل لباس آدمی کے اندر غرور تکبر پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اپنے دوست واحباب کی نگاہ میں قابل نفرت بن جاتا ہے، لوگ اس کی متکبرانہ چال سے نفرت کرنے لگتے ہیں، نیز فیشن زدہ انسان کسی بھی قسم کی جدت اور ارتقاء سے محروم رہتا ہے، اس لیے کہ فیشن پرستی کے نتیجہ میں وہ دوسروں کی تقلیدِ محض کا عادی ہو جاتا ہے، وہ باہر سے آنے والی ہرچیز کو آنکھیں بند کر کے قبول کرتا ہے، خود سے سوچ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، پھر یہ کہ ایسے لوگ ہمیشہ ایک طرح کی بے چینی اور رنج وغم سے دوچار رہتے ہیں، ہر وقت فکر لاحق رہتی ہے کہ نئے فیشن کو اپنانے کے لیے سرمایہ کیسے اکھٹا کیا جائے۔
علاج
اخیر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر فیشن پرستی کی اس لعنت سے کیسے بچاجائے اور اس کے لیے کیا وسائل اپنائے جائیں؟ تو اس سلسلہ میں پہلی بات یہ ذہن میں رہے کہ ہمارا دین کامل ومکمل ہے، اس لیے ہمیں کسی اور کے پیچھے دوڑنے کی ضرورت نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ ہماری حد درجہ کی فیشن پرستی سے فائدہ دشمنانِ اسلام ہی کا ہوتا ہے، ساری کمپنیاں مغربی ملکوں اور یہودونصاری ٰکی ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی اشیاء کی جتنی کھپت ہوگی اتنا ہی انہیں اقتصادی استحکام نصیب ہوگا، نیز یہ کمپنیاں فحاشی وعریانیت پر مبنی لباس ہی تیار کرتی ہیں، تاکہ مسلمانوں میں فحاشی کو عام کیا جائے اور ان کے ایمان کو کمزور کیا جائے، چنانچہ فیشن پرستی کے دلدادہ مسلمان اس سے شدید متاثر ہورہے ہیں، پھر یہ کہ ان کمپنیوں کے اصل مالک یہودونصاریٰ ہیں جو اپنی مصنوعات سے حاصل ہونے والے نفع کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کرتے ہیں، ہر مسلمان سوچ سکتا ہے کہ وہ کس طرح غیر شعوری طور پر دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔فیشن کے رواج کے ذریعہ دشمنوں کا مقصد عام مسلمانوں کو علماء کے سلسلہ میں بدگمان کرنا بھی ہے، اس لیے کہ جب علماء فیشن کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو لوگ یہ کہہ کر ان سے بدظن ہوں گے کہ علماء ترقی اور اسبابِ ترقی کے مخالف ہیں، ملت کو پستی کے غاروں میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں، علمائے امت کو بدنام کرنا یہودیوں کا بنیادی مقصد ہے، ا س لیے وہ ہر اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیںدیتے جس سے علماء کا وقار مجروح کیا جاسکتا ہو۔عام مسلمانو ںکو فیشن کے دلدل سے نکالنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو اہتمام کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے، ان کے سامنے فیشن پرستی کے نقصانات ذکر کئے جائیں، اسلامی تعلیمات سے انہیں آگاہ کیا جائے، فضول خرچی اور اسراف پر پائی جانے والی وعیدیں سنائی جائیں اور مال کے خرچ کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر کی توضیح کی جائے۔