فیس باز ادائیگی اسکیم پر عدم توجہ ، حالات انتہائی پیچیدہ

طلبہ کے علاوہ کالجس انتظامیہ کو پریشانی لاحق ، طلبہ کی تعلیم پر منفی اثرات پڑنے کا امکان
محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔31اکٹوبر۔ تلنگانہ طلبہ اور کالج انتظامیہ حکومت کے فیس بازادائیگی معاملہ میں اختیار کردہ رویہ سے انتہائی دلبرداشتہ ہو چکے ہیں ۔ ریاست میں چلائے جانے والے کئی خانگی کالجس اپنے اساتذہ کی تنخواہوں کی اجرائی کیلئے بینکوں سے قرض حاصل کر رہے تھے لیکن اب وہ تنخواہوں کی اجرائی بند کر چکے ہیں جس سے طلبہ کی تعلیم متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ریاست تلنگانہ میں فیس بازادائیگی اسکیم پر عدم عمل آوری اور حکومت کی جانب سے رقومات کی عدم اجرائی کے سبب حالات انتہائی پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ کالج انتظامیہ اپنے ملازمین و اساتذہ کو تنخواہوں کی اجرائی کے متعلق فکر مند ہو چکے ہیں اور حکومت دو سال کے بقایاجات کی عدم ادائیگی کے باوجود کوئی تیقن دینے سے قاصر ہے۔ ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم اور تشکیل تلنگانہ کے بعد صرف ایک مرتبہ چند کالجس کو حکومت کی جانب سے بقایا جات کا 25فیصد حصہ ادا کیا گیا اور اس کے بعد سے ابھی تک فیس کی بازادائیگی اسکیم میں کوئی رقومات جاری نہیں کی گئیں جس کے سبب طلبہ ذہنی کوفت میں مبتلاء ہیں اور انتظامیہ مجبور ہے کہ کس طرح تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جائے؟ خانگی پروفیشنل کالجس کے علاوہ ڈگری کالجس میں فیس باز ادائیگی اسکیم میں درخواستیں داخل کرتے ہوئے داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ سے کالج انتظامیہ فیس طلب نہیں کر سکتا لیکن ان حالات میں جب طلبہ اور حکومت دونوں ہی فیس ادا نہ کریں تو تو انتظامیہ کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اب تک کالجس کے ریکارڈس اور حکومت کی جانب سے فیس باز ادائیگی میں ہونے والی تاخیر کو مد نظر رکھتے ہوئے کالجس کے بینکر انہیں اوور ڈرافٹ قرض منظور کیا کرتے تھے لیکن موجودہ حکومت کے
حالات اور سرکاری خزانہ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بینکرس بھی اب ان کالجس کو قرض جاری کرنے میں پس و پیش کرنے لگے ہیں۔ کالج انتظامیہ حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے تیقنات کے سبب حالات کے معمول پر آنے کی امید کے ساتھ دو سال سے کروڑہا روپئے کے بقایا جات کے باوجود کالجس چلا رہے تھے لیکن اب ان میں کئی کالجس کی حالت معاشی اعتبار سے تباہ ہوچکی ہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں جن کالجس سے ہزاروں طلبہ نے تعلیم حاصل کی ہے وہ کالجس فیس کی عدم وصولی کے سبب بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ شہر کے نامور کالجس میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ ہوں یا غیر معروف کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ہوں سب کے سب فیس کی بازادائیگی اسکیم کی رقومات موصول نہ ہونے کی بناء پر مختلف مسائل سے دوچار ہیں جن میں کالجس کی جانب سے سرٹیفیکیٹ کی عدم حوالگی بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش میں سرگرداں نوجوان اسنادات کالج میں جمع ہونے کے سبب پریشان ہیں جو شرائط کے مطابق مکمل فیس کی ادائیگی کے بعد ہی کالج جاری کرتے ہیں اور دو سال سے کئی ہزار بچوں کی فیس حکومت کی جانب سے جاری نہیں کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود بعض کالجس تعلیمی اسنادات انٹرویوز یا ملازمت کے حصول کے مکتوب ملنے پر طلبہ کو حوالے کر رہے ہیں۔ کالجس کے ذمہ داران کے بموجب حکومت اقلیتی و غیر اقلیتی کالجس کے زائد از 3000کروڑ روپئے جاری کرنا باقی ہے جبکہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے قریب 350تا400کروڑ کی اجرائی کا عمل انجام دیا جانا ہے۔ تعلیمی سال 2013-14کے بقایا جات کچھ کالجس کو جاری نہیں کئے گئے جبکہ 2014-15تعلیمی سال کے علاوہ تعلیمی سال 2015-16کے دوران کسی بھی کالج کو فیس بازادائیگی اسکیم کے تحت رقومات کی اجرائی عمل میں نہیں لائی گئی اور اب تعلیمی سال 2016-17کے پہلے سہ ماہی امتحانات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ حکومت میں شامل بیشتر وزراء سے کی گئی نمائندگیاں رائیگاں ثابت ہو رہی ہیں اور چیف منسٹر تک کسی کو رسائی حاصل نہیں ہو رہی ہے جس کے سبب ان کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں اور کوئی اس مسئلہ پر قطعی بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔حکومت کی جانب سے گذشتہ دو برسوں کے دوران تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے نام پر کالجس کو نشانہ بنایا گیا لیکن اب جبکہ کالجس میں درکار عملہ و اساتذہ کے علاوہ سہولتوں کی فراہمی عمل میں لائی جا چکی ہے اور اساتذہ کی تنخواہیں ہی ادا کرنا دشوار ہوجائے تو ایسی صورت میں کیسے تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے گا؟ کالجس کے ذمہ داران کا ماننا ہے کہ کالج میں خدمات انجام دے رہے اساتذہ یا غیر تدریسی ملازمین کی تنخواہیں جب انتظامیہ ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہوتا تو وہ کام لینے کے حق سے بھی خود کو محروم تصور کرنے لگتا ہے۔ اس صورتحال کے باوجود اگر حکومت کی جانب سے فوری فیس بازادائیگی کے بقایاجات کی اجرائی عمل میں نہیں لائی جاتی تو ایسی صور ت میں لاکھوں طلبہ کا مستقبل اور کالجس انتظامیہ کے حالات تباہ ہو سکتے ہیں ۔ ریاست بھر میں کانگریس کی جانب سے فیس باز ادائیگی اسکیم کے بقایاجات کی اجرائی کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے لیکن مابقی سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اقلیتی کالجس میں جہاں 90فیصد اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیر تعلیم ہیں ان کے فیس بقایاجات جو حکومت کی جانب سے ادا شدنی ہیں ان کی اجرائی کیلئے نمائندگی ناگزیر ہے لیکن اس کے باوجود دیگر سیاسی جماعتوں کی خاموشی ان کے کردار کو مشتبہ بناتی جا رہی ہے۔