فن شاعری میں صنعت ِ تاریخ گوئی

ایم۔ ایس ۔ حسین خادم باب العلم
مضمون ہذا کتاب جامع التاریخ (۱۳۵۶ھ ) سے ماخوذہے جس کے مصنف سید دلدار حسین اظہر ؔ الہٰ آبادی ہیں ۔ جس کا کتبہ دین محمد لاہوری نے تیار کیا ۔ اس کتاب کے ملنے کا پتہ جہانگیر بکڈپو لاہور نولکھا بازار تحریر ہے ۔ کتاب کا عکسی ایڈیشن ۹۰ سال قبل ۱۳۵۶؁ھ میں آعظم اسٹیم پریس حیدرآباد دکن میں طبع ہوا ۔ صفحہ ۳ پر مصنف نے عرض حال عنوان کے تحت تحریر کیا کہ رجب المرجب ۱۳۵۶؁ھ میں سلطان العلوم نظام الملک آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی مبارک و مسعود تقریب کی یادگار میں بطور نذرانہ عقیدت ۵۵ قطعات تاریخ کا ایک مختصر سا انتخاب ’’ جامع التاریخ ‘ ‘ کے نام سے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی تھی ۔ جسے اس قدر قبولیت حاصل ہوئی کہ ۱۹۳۹؁ء میں اسے دوبارہ ’’ مخزن التاریخ ‘ ‘ کے نام سے شائع کیا گیا ۔ یہ مصنف کا عرضِ حال بروز جمعہ ۲۵/ محرم الحرام ۱۳۶۰؁ھ بازارِ نورالامراء حیدرآبا دکن کو تحریر کیاگیا ۔ کتاب ’’ جامع التاریخ ‘ ‘ کے صفحہ ۴ پر اس کتاب کی تقریظ عالی جناب مولوی سید صدیق حسین صاحب آئی ۔سی ۔ ایس کلکٹر ہمیر پور ، یو پی نے ۱۷/ اکٹوبر ۱۹۳۷؁ء کو لکھا جس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ایشیاء کی سرزمین ’’ صنعت ِ تاریخ گوئی ‘ ‘ کی جنم بھومی ہے ۔ ہمارا تمدن اس صنعت کا واحد علم بردار ہے ۔ اور مغرب غالباً اس صنعت سے نا آشنا ہے ۔ فن کی حیثیت سے تاریخ گوئی شاعری سے جُدا ہے ۔ مگر رسم و رواج اور استعمال نے ان میں ایک رشتہ پیدا کردیاہے ۔ تاریخ گو کو کئی پابندیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ اولاً اوزان و ردیف کی پابندی ‘ پھر حروف کے مقررہ اعداد کی پابندی ۔ ان پابندیوں کے باوجود اک ایسا تاریخی قطعہ کہنا جو نوعیت واقعہ کی صحیح ترجمانی کرے ۔ اور شاعری کے نقطئہ نظر سے بھی کم درجہ کا نہ ہو ‘ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ ’’ جامع التاریخ ‘ ‘ کے بارے میں جناب صدیق حسین صاحب لکھتے ہیں کہ یہ مولانا سید دلدار حسین صاحب اظہر کے چند تاریخی قطعات کا مجموعہ ہے ۔ اس رسالے میں بعض قطعے اس قدر بے ساختہ اور اظہارِ جذبات کے لحاظ سے ایک عجیب سی کیفیت کے حامل ہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ کتاب کے صفحہ ۱۳ پر قطعہ تاریخ ’’بشکریہ باریابی و سرفرازی خاصہ ‘ ‘کا قطعہ
واقعہ آپ اپنی ہے تاریخ
آج اظہر بھی باریاب ہوا
۱۳۵۵ھ
اگر غالب ؔکی مشہور نظم ’’ ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار ‘ ‘ والی نظم کی یاد دلاتا ہے تو ’’ شادی رچی ہے دختر مہدی حسین کی ‘ ‘ والے قطعے میں میر انیس ؔ کا رنگ غالب ہے ان دونوں قطعوں کے تاریخی مصرعے مصنف کے کمال کا اوج ہے ۔ ڈاکٹر انصاری کی تاریخ وفات اور اہلیہ مولوی فیاض الدین کے انتقال کی تاریخ جس خوبی سے مولانا نے نکالی ہیں وہ اپنی آپ نظیر ہیں۔ کتاب ’’جامع التاریخ ‘ ‘ کے صفحہ ۴۷ پر کئی مشہور کتابوں کے مصنف خان بہادر نواب احمد حسین صاحب او ۔ بی ۔ ای ‘ تعلقہ دار ( اودھ) کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قطعات تاریخ کا مجموعہ در حقیقت فصاحت و بلاغت کے جواہر ریزونکا خزانہ ہے ۔ نمونتاً کتاب ’’ جامع التاریخ ‘ ‘ سے موجودہ دور کے چند معروف اور جانے پہچانے مقامات کے کے تواریخ سے متعلق اشعار پیش ہیں ۔ خواتین کی انجمن برکات عزاء پرانی حویلی ‘حیدرآباد ‘دکن کے جلسہ سالانہ سے متعلق جو ۱۲ اشعار تحریر ہیں اس کا صرف آخری شعر پیش ہے
’’ کہہ رہے ہیں سال سے اظہر ؔ حروف نقطہ دار
دیں کا ایک فرض ہے امداد برکات عزاء
۹۵ ھ ۱۳
اسی طرح قطعات تاریخ متعلق ’’الاوئہ سرطوق ‘ ‘ دارالشفاء حیدرآباد پیش ہے ۔
بیمار کو دوا کی ضرورت نہیں یہاں
دارالشفاء ہے روضئہ بیمار کربلا
تاریخ اپنی آپ ہے اظہر ؔ یہ بارگاہ
ہے روضئہ امام چہارم ؑسنہ بنا
۵۷ھ۱۳
(صنعت زبر و بینات)
ہر صبح دکھاتی تھی یہاں شام کا منظر
گویا کہ عزاء خانہ سجاد تھا محبس
لطف ِ شہ عثمان ؔ سے بنا روضئہ رضواں
گلدستہء جنت ھو نہ کیوں ہر گل ِ نورس
روضہ میں پہنچتے ہی ندا آئی کہ اظہر
تاریخ ہے ماتم کدئہ عابد بیکس
۱۳۴۸ھ
تاریخ اسلام میں ۲/ ذی الحجہ کی تاریخ بوجہہ واقعہ مباہلہ ایک انفرادیت رکھتی ہے ۔ جس میں اسلام کو نصرانیوں کے مقابلے میں ہتھیار اُٹھائے بغیر ایک قطرئہ خون بہائے بغیر کامرانی حاصل ہوئی ۔ اور اسلام کی فوقیت مان لی گئی۔ جس کا ذکر کلام مجید میں سورئہ آلِ عمران کی آیت ۔۶۱ میں فرمایا گیا ہے ۔ ۲/ ذی الحجہ کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر کتاب ’’جامع التاریخ ‘ ‘ کے صفحہ ۱۲ پر ۹ اشعار مکمل واقعہ مباہلہ کو معہ تواریخ سپرد قلم کیا ہے ملاحظہ ہو ۔
بہ تہنیت عید ِ مباہلہ
بالاتفاق اہل سیر نے ہے یُوں لکھا
بستِ و چہارم مہ ذی الحجہ کا واقعہ
نصرانیوں نے دعوتِ دیں جب نہ کی قبُول
آخر مباھلے پہ ہؤا طے معاملہ
حسنینؑ و فاطمہؑ و علیؑ کو لئے رسولؐ
عصمت سرا سے نکلے جو بہر مباھلہ
چھایا یہ رعب خمہء انوارِ پنجتن
چاہی اماں نبیؐ سے بجائے مقابلہ
فتح مُباھلہ کی ہے یہ عید یادگار
اور شانِ اہلبیت کا پُورا مظاہرہ
بزم نشاط و جشن سعادت نشاں ہے
شاہِ دکن کی حُسن عقیدت کا آئینہ
پرُ نور و پُر شکوہ ہے تاریخؔ تہنیت
قربان صد تجمل جشنِ مباھلہ
۵۶ ھ ۱۳
اللہ سے دعا ہے کہ دارین میں رہے
عثمان علی پہ سایہء دامانِ فاطمہ ؑ
اظہرؔ ہے فالِ فاتح و ظفر سالِ تہنیت
عثمان علی کو روزمبارک مُباھلہ
۵۶ ھ ۱۳
بہر حال اب تو یہ صنعت تاریخ گوئی عام ہوچکی ہے ۔