فنڈس میں اپناحصہ وصول کرنے کا ہنر

تلنگانہ / اے پی ڈائری       خیراللہ بیگ
حکومت کے فنڈس میں اپنا حصہ وصول کرنے کا ہنر سیاستدانوں کو بہت خوب آتا ہے ۔ حکمراں طبقہ کا رکن ہے تو وہ اپنا حصہ سب سے زیادہ وصول کرے گا ۔ پراجکٹس کے اعلانات کے ساتھ ہی فنڈس اور کاموں کی تکمیل کی تخمینی لاگت کے تفصیلات معلوم ہوتے ہی اس میں اپنے اپنے حصہ کو تلاش کرنے والوں کو جب سب کچھ مل جاتا ہے تو پھر پراجکٹ وہیں اعلانات یا کاغذات کی زینت بنا رہتا ہے ۔ حکومت کی پالیسیاں اور پراجکٹس جو مختلف عنوانات ہیں ، ان ہر دو کے لئے بجٹ لازمی ہے ۔ مالیہ کے بغیر کچھ نہیں ہوگا ۔ سیاست تلنگانہ کے معلنہ پراجکٹس اور حکومت کی پالیسیاں قدرے کامیاب ہورہی ہیں ۔ اس کے باوجود جب اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی خرابیوں کی نشاندہی ہوتی ہے تو عوام کو شبہ ضرور ہوگا ۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سابق رکن اسمبلی اور سینئر لیڈر پی ناگیشور راؤ نے حال ہی میں ٹی آر ایس حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ریاست کو بری طرح مالیاتی بحران کی جانب لے جارہی ہے ۔ ٹی آر ایس نے اپنی زائد از 3 سال کی حکمرانی کے دوران 1.67 لاکھ کروڑ روپئے اندھادھند طریقہ سے قرض حاصل کئے ہیں ۔ اس طرح ریاست کی معیشت کمزور ہوگی اور حکومت اپنی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے سے قاصر رہے گی ۔ ریاست کے مالیاتی موقف کے بارے میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے بھی جن باتوں کی جانب توجہ دلائی ہے وہ تشویشناک ہے کیوں کہ مالیاتی سال کے اختتامی مہینے مارچ 2016 ء کے دوران مختلف عنوانات پر جو رقم خرچ کی گئی اس میں خراب انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ اس لئے حکومت کی جانب سے شروع کردہ نئی پالیسی اقدامات یا تو پورے نہیں ہوئے یا پھر ابتدائی مرحلہ میں ہی دم توڑچکے ہیں۔ کسی بھی اسکیم کی منظوری سے پہلے رہنمایانہ خطوط کا ہونا ضروری ہے ۔ جب کاموں کی انجام دہی اور روپئے کے استعمال کا معاملہ ہی اعداد و شمار کی الٹ پھیر کا شکار بنادیا جائے تو پھر عوام کے حصہ میں صرف وعدہ اور پراجکٹس کے نقشے ہی آئیں گے ۔ پراجکٹ کے لئے مختص فنڈس پر تو ہاتھ صاف کرنے والوں نے تو اپنے اپنے حصہ کو چٹ کرلینے میں کامیابی حاصل کی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بڑی دیانتداری اور عوام کے حق میں پوری ایمانداری سے پراجکٹس اور پالیسیاں تیار کرتے آرہے ہیں مگر جب اس کے نتائج آنے میں تاخیر ہورہی ہے تو انہوں نے بتایا جاتا ہے کہ اپنے وزراء اور پارٹی کے ارکان اسمبلی سے لیکر اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی کارکردگی کے بارے میں خفیہ سروے کروایا ہے ۔ شاید یہ دنیا کا پہلا ایسا سروے ہے جس میں حکمران پارٹی کے سربراہ نے پہلی مرتبہ اپوزیشن کے پارٹی ایم ایل ایز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے سروے کروایا ہو ۔ ان دنوں سیاسی حلقوں میں چیف منسٹر کے سی آر کے اس خفیہ سروے کے چرچے ہیں مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ آخر اس سروے کے لئے ٹیم کب تشکیل دی گئی اور کس ایجنسی نے یہ سروے کیا ہے اور کس بنیاد پر سروے کروایا گیا ہے یا پھر یہ سروے شاید چیف منسٹر کے محل پرگتی بھون کے ڈائننگ ٹیبل کی اختراع ہے ۔

بہرحال سروے میں اپوزیشن پارٹیوں کے مخصوص لیڈروں کی تعریف کی گئی ہے تو اس پارٹی کے دیگر لیڈروں کی خرابی بھی ظاہر کی گئی ہے ۔ جبکہ چیف منسٹر کو اپنی پارٹی کے ارکان میں ہی تو تو میں میں ہورہی ہے ۔ چیف منسٹر سروے کرواکر بظاہر دوسری پارٹیوں کے اندرونی معاملات میں جھانک رہے ہیں ۔ بی جے پی کے کشن ریڈی کو ڈی لکشمن پر برتری بتارہے ہیں تو کانگریس میں صدر پردیش اتم کمار کو نیچے دکھاکر جاناریڈی کو اونچا ظاہر کیا جارہا ہے ۔ ٹی آر ایس کے اندر کیا سرگرمیاں جاری ہیں اس سے بے خبر رہنا بھی تعجب کی بات ہے ۔ محبوب نگر سے تعلق رکھنے والے دو ٹی آر ایس سینئر قائدین میں زبردست رسہ کشی چل رہی ہے ۔ سیاسی طور پر حساس اس ضلع میں پارٹی کے اندر برتری حاصل کرنے کے لئے باہمی طاقت کا مظاہرہ ہورہا ہے ۔ محبوب نگر ایم ایل اے اور تلنگانہ گزیٹیڈ آفیسرس اسوسی ایشن کے اعزازی صدر سرینواس گوڑ کے تعلق سے ایک رپورٹ آئی تھی کہ انہوں نے اس ضلع کے رکن پارلیمنٹ جیتندر ریڈی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے لئے کئی سیاسی رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی کابینہ میں وزیر بننے کی خواہش رکھنے والے سرینواس گوڑ کی شکایت قابل نوٹ ہے ۔ اس طرح کی ناراضگیاں بڑھتے بڑھتے ٹی آر ایس کے لئے مسائل پیدا کرتی ہیں جبکہ ایم پی جیتندر ریڈی کا دعویٰ ہے کہ اگر سوامی گوڑ نے اپنے الزامات ثابت کردیئے تو وہ سرگرم سیاست سے ہی سبکدوش ہوں گے ۔ پارٹی کے اندر اس طرح کے سیاسی طوفان کا سنجیدگی سے نوٹ لیتے ہوئے چیف منسٹر نے دونوں کو طلب کیا ہے اگر وہ اپنے ان دو ناراض لیڈروں کو خوش یا چپ کرانے میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر دیگر اضلاع میں بھی پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی اس طرح کی خرابیاں ایک دن ٹی آر ایس کے لئے مشکلات پیدا کردیں گی ۔ پارٹی میں قائدین کی ناراضگیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب انہیں ان کے حصہ کا مقام یا مال نہیں ملتا ۔ ان لوگوں کو غصہ جب آتا ہے تب انہیںمعلوم ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی کے دوسرے لیڈر نے اتنا مال اندر کیا ہے اور اس کا حصہ ادا نہیں کیا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ہر سرکاری محکمہ کے اعلیٰ افسر اور ماتحت عہدیداروں کے درمیان بھی اپنے حصہ کے مال کو لیکر تنازعہ چلتا ہے ۔ کسی پولیس اسٹیشن کی ہی مثال لیجئے اگر کوئی شہری شکایت درج کرانے کے باوجود پولیس اسٹیشن کے آفیسر سے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں ہوتی تو وہ اعلیٰ آفیسر سے ملتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ فلاں پولیس اسٹیشن کا انسپکٹر ان کی شکایت کو خاطر میں نہیں لارہا ہے کیوں کہ سامنے والی پارٹی سے رشوت لے کر کیس دبانے کی کوشش کررہا ہے ۔ یہ سن کر بڑے آفیسر کو غصہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس انسپکٹر کی تو اب خیر نہیں ۔ آپ جائیں میں دیکھتا ہوں جب وہ شہری چلا جاتا ہے تو یہ آفیسر اپنے آپ بڑبڑاتا ہے کہ اچھا بیٹا اکیلے ہی مال ہڑپ کرنے لگا ہے ۔ اس سے اپنا حصہ وصول کرکے ہی رہوں گا ۔ دونوں صورتوں نقصان شہریوں کا ہی ہوا ۔ ایسے ہی حکومت کی سطح پر مال میں حصہ لینے اپنی جگہ بنانے کے لئے کوشاں لیڈروں کا فائدہ ہی فائدہ ہے اور عوام کے حصہ میں صرف وعدے ہی وعدے رہ جاتے ہیں ۔ اترپردیش میں مسالخ کو بند کرانے میں کامیاب بی جے پی نے اب تلنگانہ کی شرپسند ٹولیوں کو اکسانا شروع کردیا ہے اس لئے آئندہ تلنگانہ میں مسالخ بند کرنے کی مہم میں شدت پیدا ہوتی ہے تو پھر میٹ کے شوقین کو ان کے حصہ کا گوشت نہیں ملے گا ۔ ٹی آر ایس زیرقیادت حکومت آیا بی جے پی قائدین کے دباؤ کا شکار ہوتی ہے یا اس ریاست کو زعفرانی زد میں آنے سے بچانے کی ہمت دکھاتی ہے ، یہ اس کی آئندہ کی پالیسیوں اور اقدامات پر منحصر ہے ۔ تلنگانہ بی جے پی  ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ ان دنوں ریاست کے آدتیہ ناتھ کا رول ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ انہوں نے ٹی آر ایس حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے غیرقانونی مسالخ کو بند نہیں کروایا تو وہ سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ کریں گے ۔

ملک کی قیادت جب ان طاقتوں کے حوالے ہوچکی ہے تو پھر یہ لوگ ریاستوں میں اپنی طاقت کا بھونڈا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے ۔ یہ ریاستی نظم و نسق کی صلاحیتوں اور اس کی اثرپذیری پر منحصر ہے کہ وہ ان طاقتوں کو کس طرح کچلتی ہے ۔ مسلم تحفظات کی مخالفت کرنے والی تلنگانہ بی جے پی قیادت نے اب حیدرآباد میں غیرقانونی مسالخ بند کرنے پر زور دینا شروع کیا ہے ۔ اب تک بی جے پی تلنگانہ قائدین کی اشتعال انگیزیوں کا حکمراں جماعت نے کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ اس کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی اس پارٹی کی برتری سے خائف ہوگئی ہے جب کوئی خوف زدہ ہوتا ہے تو وہ آسانی سے شکار بھی ہوجاتا ہے ۔ آئندہ 2019 ء کے انتخابات کی تیاری کرنے والی ٹی آر ایس کے سامنے بی جے پی کی مقبولیت کیا رنگ لائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ تاہم وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ کو ملک میں بی جے پی کی لہر کی کوئی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ اس پارٹی کو جنوبی ہند میں خاص کر تلنگانہ میں کامیابی نہیں ملے گی ۔ جنوبی ہند میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے ٹی راما راؤ اپنی ریاست تلنگانہ ، اے پی ، ٹاملناڈو اور کیرالا کی سیاسی صورتحال سے مطمئین نظر آرہے ہیں ۔ جب عوام کو علاقائی پارٹیوں پر ہی کامل بھروسہ ہوتا ہے تو وہ دوسری قومی پارٹیوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے ۔
kbaig92@gmail.com