فنا نظامی کانپور ی کی میزان شاعری

صابر علی سیوانی
مشاعرے ہماری تہذیب کی نہ صرف علامت تصور کئے جاتے ہیں بلکہ اردو زبان کے فروغ و ارتقاء میں مشاعروں کا اہم رول رہا ہے۔ مشاعروں کے پڑھے جانے والے کلام ان تخلیقات سے کسی حد تک مختلف ہوتے ہیں جو معیاری رسائل و جرائد میں شائع ہوتے ہیں یا یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بیشتر مشاعرے کے شعراء ایسے ہوتے ہیں جو صرف اسٹیج پر ہی اپنا کلام سنانا پسند کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اُردو دنیا میں ان کی شناخت ہوتی ہے جبکہ ایسے تخلیق کار جو صرف جرائد و رسائل میں اپنی تخلیقات شائع کراتے ہیں۔ وہ اسٹیج کی شاعری سے خود کو دور رکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسے شاعروں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو دونوں جگہوں پر اپنی موجودگی درج کرانا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ دونوں جگہوں پر کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ چاہے کتنا بھی اچھا شاعر کیوں نہ ہو اگر وہ اسٹیج کی شاعری سے کلی طور پر وابستہ ہوجاتا ہے تو اسے ادب عالیہ کی تخلیق کرنے والے فنکار مشاعروں کا شاعر کہہ کر اسے قابل اعتناء نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جو بہترین شعر تخلیق کرتے ہیں اور مشاعروں کی وجہ سے انہیں شہرت حاصل ہے۔ ماضی قریب اور ماضی بعید میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ ایسے بہت سے نامور شعراء کی فہرست میں جگر مراد آبادی، خمار بارہ بنکوی وغیرہ آتے ہیں۔ انہیں شعراء میں سے ایک نام فنا نظامی کانپوری کا بھی ہے۔
فنا نظامی کانپوری کو ان کے پڑھنے کے منفرد انداز کی وجہ سے جانا جاتا ہے، وہ ترنم میں بھی کلام سنایا کرتے تھے۔ وہ صرف مشاعرے کے مقبول شاعر تھے اور اسی وجہ سے انہیں شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے بہت سے اشعار اج بھی لوگوں کے دلوں میں محفوظ ہیں۔ فنا نظامی کانپوری کا نام مرزا نثار علی بیگ تھا اور فنا تخلص کرتے تھے۔ فنا کی پیدائش 1922ء میں کانپور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی اور وہ صرف دین تعلیم کے حصول پر اکتفا کرگئے۔ مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا اور عربی، فارسی اور اردو کی بنیادی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ شعراء کے دوابین سے استفادہ کیا اور اس طرح باقاعدہ طور پر شاعری کی حسین دادی میں داخل ہوگئے جس وقت وہ کانپور میں تھے تو وہیں مذاق شعراء سے شغف حاصل ہوا۔ چھوٹی چھوٹی ادبی نشستوں میں کلام سناتے رہے اور بعد میں مقامی شاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ چونکہ ان کی آواز اچھی تھی اور تحت میں بھی اچھی طرح اور ٹھہر ٹھہر کر اشعار سناتے تھے۔ اس لئے رفتہ رفتہ انہیں مقبولیت حاصل ہونے لگی اور 60ء کی دہائی میں انہیں ہندوستان گیر پیمانے پر شہرت حاصل ہوئی۔ 80 کی دہائی میں حیدرآباد کسی مشاعرے میں شرکت کی غرض سے آئے تھے۔ اس مشاعرے میں خمار بارہ بنکوی بھی شامل تھے۔ اس مشاعرے کی ریکارڈنگ نیٹ پر موجود ہے۔ اس موقع پر ایک غزل جو انہوں نے سنائی تھی، وہ بہت پسند کی گئی، وہ غزل واقعی مشاعرے میں پسند کی جانے والی غزل تھی۔ اس غزل کے چند شعر نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فنا کی شاعری کا جو خاص طنطنہ، آہنگ اور رنگ تھا، اس سے قارئین واقف ہوسکیں۔ یہ غزل خودداری، انا پسندی اور انسانی اقدار کی پاسدار ہے۔
نااہلوں میں پینا پلانا میرے بس کی بات نہیں
لیکن پیاسوں کو ترسانا میرے بس کی بات نہیں
آنکھ اٹھاکر میں تو نہ دیکھوں جس سے میرا دل نہ ملے
سب سے رسماً ہاتھ ملانا میرے بس کی بات نہیں
فنا نظامی کانپوری ایک قدم آگے بڑھ کر صاف طور پر یہ کہتے ہیں کہ جس سے ان کا دل نہیں تھا، اس سے رسماً سہی ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگلے کو اس بات کا احساس ہوجانا چاہئے کہ اس سے دل نہیں ملتا ہے، اس لئے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہیں ہے، فنا کی اس غزل کے یہ اشعار ہیں
تو چاہے تو بھردے داتا ، تو چاہے تو خالی رکھ
اور کہیں دامن پھیلانا ، میرے بس کی بات نہیں
سب کے دن سے وہ واقف ہے بیش و کم کا شکوہ کیا
ساقی پر الزام لگانا، میرے بس کی بات نہیں
موسم گل ہی کیا ہے ضروری، فصل خزاں میں بھی لیں گے
اہل چمن کے ناز اٹھانا، میرے بس کی بات نہیں
اہل زر سے کوئی یہ کہہ دے، خودداری بھی دولت ہے
اپنے سرمائے کو لٹانا، میرے بس کی بات نہیں
اشکوں سے کیونکر سمجھاؤں اپنے دل کا حال اسے
پانی پر تصویر بنانا، میرے بس کی بات نہیں
فنا کی یہ پوری غزل احساس خودداری، احساس تشکر اور احساس تفاخر کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے، خدا کے علاوہ کسی سے اپنے درد کے ازالے کی سبیل پیدا کرنے کی التجا کرنے اور اہل چمن کے ناز اٹھانے سے صاف انکار کرتے ہیں۔ خودداری کو ایک بیش بہا دولت بتاتے ہیں اور اس سرمائے کو لٹانا اپنی توہین قرار دیتے ہیں۔ شاعر کا یہ احساس ہمیں خوددار، خود شناس، خود کفیل ہونے کی دعوت دیتا ہے اور قناعت پسندی سے کام لینے کا درس دیتا ہے۔ فنا نے اس غزل میں کئی علامتوں کا استعمال کیا ہے مثلاً ساقی کو رازق مطلق، خزاں کو تنگ دستی، اہل چمن کو صاحب ثروت کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ واحد متکلم کے صیغے میں اپنی بات کہہ کر شاعر نے ایک خوبصورت زندگی گزارنے کا پیغام دیا ہے۔ یہاں واحد متکلم کے صیغے کے پردے میں فنا کے جمع متکلم کے دل کی بات کہہ دی ہے۔
فنا نظامی کے بعض اشعار ایک ملت سے ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتے آئے ہیں۔ یہ اشعار زندگی کے ان تلخ و شیریں تجربات کا نچوڑ ہیں، جو ہر شخص کسی نہ کسی انداز سے اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فنا نے یہ موضوع پہلی بار اپنی تخلیقات کے ذریعے پیش کیا ہے لیکن جب جس ڈھنگ اور آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے، اس سے ان کی انفرادیت کی راہ ضرور ہموار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، مثلاً دوستوں کی ستم ظریفی اپنوں کی بے وفائی اور دھوکہ دہی سے پہنچنے والے نقصانات کی بات۔ فنا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی فہرست میں دوستوں کے نام بھی گنا دیئے ہیں اور اس انداز سے گنائے ہیں کہ دوستوں کے اصلی چہرے، جو پوشیدہ تھے، سامنے آگئے ہیں۔
ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمناں
یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھالئے
احمد فراز کا ایک نہایت مشہور شعر ہے جس میں انہوں نے اس شخص کا شکوہ کیا ہے جو جاتے جاتے تمام مراسم اور سلسلے منقطع کرکے چلا گیا، تھوڑی بھی گنجائش نہیں رکھی۔
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کھاتے جاتے
فنا نظامی کا ایک ضرب المثل شعر ہے جو ربط و تعلقات کی نزاکتوں کو بخوبی اجاگر کرتا ہے، تعلقات بنتے بنتے زمانہ گزر جاتا ہے جبکہ اسے توڑنے کے لئے صرف ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے لئے سوچتے سوچتے پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ ایک بار تعلقات ٹوٹ گئے تو ریشم کے تار کی طرح اُلجھ جاتے ہیں جس کے سمجھانے میں پوری حیات مستعار صرف ہوجاتی ہے۔ اسی مفہوم کو فنا کا یہ شعرا بڑی خوبصورتی سے ادا کرتا ہے:
ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہئے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا
انسان کی تلاش آسان کام نہیں ہے کیونکہ سیکڑوں لوگوں میں ایک انسان پایا جاتا ہے جو انسانیت کی صفت سے پوری طرح منصف ہوتا ہے، فنا کا خیال ہے کہ ابھی تو پھر بھی انسانوں کی تلاشی ممکن ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ انسان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا اور انسان کی تلاش کو انسان جائے گا۔
دنیا میں ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن
انسان کی تلاش میں انسان جائے گا
فنا کا بھی ایک شعر اقبال کے اس شعر کی تفسیر پیش کرتا ہے۔ فنا زندگی کو جہد مسلسل کا نام دیتے ہیں اور جو زندگی کے سفر میں آرام کا خواہاں ہوتا ہے تو آرام کرنے کے بعد وہ اور بھی زیادہ تھک جاتا ہے۔ اس لئے زندگی میں مسلسل سفر کرتے رہنا چاہئے۔ منزل ایک نہ ایک دن قدم ضرور چومتی ہے۔ فنا کے اس شعر پر نظر ڈالئے۔
زندگی نام ہے اک جہل مسلسل کا فنا
راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد
فنا کے متعدد اشعار جو زندگی کی حقیقتوں کو بڑی عمدگی سے پیش کرتے ہیں، لوگوں کو ازبر ہوچکے ہیں۔ ان میں چند کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، ملاحظہ کیجئے یہ اشعار:
آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً
کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا
اک تجھ کو دیکھنے کے لئے بزم میں مجھے
اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا
میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں اس لئے
ترک تعلقات کا احساس مر نہ جائے
شب ہوں گے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں
مجھ کو میرے سکوت سے پہچانا جائے گا
اک تشتہ لب نے بڑھ کر جو ساغر اٹھا لیا
ہر بوالہوس نے میکدہ سر پر اٹھا لیا
موجوں کی اتحاد کا عالم نہ پوچھئے
قطرہ اٹھا اور اٹھ کے سمندر اٹھا لیا
میں ایسا بدنصیب کہ جس نے ازل کے روز
پھینکا ہوا کسی کا مقدر اٹھا لیا
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
میخانہ ہستی میں میکش وہی میکش ہے
سنبھلے تو بہک جائے بہکے تو سنبھل جائے
رِند جنت میں جا بھی چکے
واعظ محترم رہ گئے