فلسطینیوں پر کوئی بھی اپنا فیصلہ مسلط نہیں کرسکتا

حماس کے رہنما ڈاکٹر موسیٰ محمد ابو مرزوق سے انٹرویو

محمد مبشر الدین خرم
فلسطین کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کا حل ممکن نہیں ہے اور نہ ہی کوئی طاقت مسئلہ فلسطین پر عوامی جدوجہد کو روک سکتی ہے کیونکہ مسئلہ فلسطین مقامی فلسطینی باشندوں کی سرزمین کے مسئلہ کے ساتھ ساتھ مقام مقدس سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر جاری مظالم کو روکنے کیلئے طاقتور جمہوری ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے لیکن امریکہ جیسی طاقتیں ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے ‘ حماس ان کوششوں کے خلاف اپنی مزاحمت کاسلسلہ جاری رکھے گی اور ہر اس طاقت کے ساتھ اتحاد کرے گی جو مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کی جدوجہد کا حصہ بننے تیارہے۔ حماس کا بنیادی ایجنڈہ آزاد مملکت فلسطین کا قیام اور خطہ کے تقدس کی بازیابی ہے ۔ڈاکٹر موسی محمد ابو مرزوق سینیئر رکن پولیٹ بیورو سابق ڈپٹی چیف حماس و انچارج بین الاقوامی سیاسی امور نے قطر میں ’’روزنامہ سیاست ‘‘ کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران یہ بات کہی۔بیشتر عرب ممالک امریکہ کے نظریہ کو قبول کرنے لگے ہیں اور حماس اور فلسطینی عوام کو ان کے ملک سے محروم کرتے ہوئے مسئلہ کا حل نہیں نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ دنیا ہم پر دباؤ ڈالتے ہوئے کوئی حل قبول نہیں کروا سکتی کیونکہ جب تک انصاف نہیں ہوگا اور فلسطینی عوام کی آواز نہیں سنی جائے گی اس وقت تک مسئلہ جوں کا توں برقرار رہے گا۔فلسطین کے مسئلہ کے حل کیلئے ضروری ہے کہ دنیا مظلوم فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرے اور ان کی مظلومیت پر تماش بین نہ رہتے ہوئے انصاف کے اصولوں کو پورا کرے۔

ہندستان فلسطینی کاز کی ابتداء سے حمایت کرتا رہا ہے اور قیام اسرائیل سے قبل کا ساتھی ہے اور 1956کے بعد بھی ہندستان نے فلسطین کا ساتھی رہا ہے اور ہند۔فلسطین تعلقات کی عظیم تاریخ ہے اور ہندستان نے قیام امن کا حصہ بننے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے ہند۔اسرائیل کے فروغ پارہے تعلقات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ہندستانی حکومت کے تعلقات اسرائیل سے بہتر ہو سکتے ہیں لیکن ہندستانی عوام ظالم اور ناانصافیوں کے مرتکبین کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیل ہندستان کی کچھ شعبوں میں مدد کر رہا ہوگا لیکن یہ مدد دیگر ممالک سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے بتایاکہ حماس کو امید ہے کہ ہندستان اور فلسطین کے دیرینہ تعلقات برقرار رہیں گے اور ان تعلقات کو مزید استحکام حاصل ہوتا رہے گا۔انہوں نے عرب اور ہندستان کے اسرائیل تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ تمام ممالک کو ناانصافیوں کے خلاف اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہنے کی روایات کو برقرار رکھنا چاہئے ۔ڈاکٹر مرزوق نے فلسطینی قائدین کے دورۂ ہندستان اور ہندستان سے دیرینہ قرابت داری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور اس خطہ کے عوام کے ساتھ ہندستانی عوام کی جذباتی وابستگی رہی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔
ڈاکٹر موسی ابو مرزوق نے انٹرویو کے دوران کہا کہ مملکت فلسطین کا فیصلہ فلسطین کے عوام کو ہجرت پر مجبور کرتے ہوئے نہیں کیا جاسکتا اسی لئے مسئلہ فلسطین کا حل اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک فلسطینیوں کو ان سے چھینی گئی اراضیات اور ان کے اپنے مکان واپس نہیں کئے جاتے‘ فلسطینی عوام اور مظلوموں کو کسی بھی فیصلہ میں شامل کئے بغیر مسئلہ فلسطین کے عاجلانہ حل کی توقع کرنا فضول ہے اسی لئے حماس کا یہ موقف ہے کہ کوئی اپنا فیصلہ فلسطینی عوام پر مسلط نہیں کرسکتا ۔فلسطین کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ فلسطینیو ںکو ان کے شہر حوالہ کئے جائیں‘ انہیں آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کے استعمال کی اجازت حاصل ہو‘مقبوضہ علاقو ںمیں فلسطینی عوام کو مکمل حقوق فراہم کئے جائیں اور آزادی حاصل ہو۔امریکہ کی جانب سے یروشلم کے متعلق اختیار کردہ موقف اور پیش کئے گئے حل پر بات چیت کے امکان ہیں لیکن اس کے باوجود بنیادی مطالبات سے دستبرداری اختیار نہیں کی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ 2006 سے جو غزہ کا محاصرہ کیا گیا ہے اس کا خاتمہ کیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ مطالبہ عرصہ دراز سے کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر مرزوق نے کہا کہ غزہ کا محاصرہ 2006 میں حماس کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کیا گیا تھا اور اس کے خاتمہ کیلئے حماس کی جدوجہد جاری ہے۔انہوں نے صدر فلسطین کی جانب سے کی جانے والی تنقیدوں کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حماس امریکی منصوبہ سے اتفاق نہیں رکھتی کیونکہ امریکہ غزہ اور مغربی کنارہ کے بیشتر علاقو ں کو علحدہ ریاست بناتے ہوئے اسرائیل کے حوالہ کرنا چاہتاہے جو کہ حماس کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں ہے۔

امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا صدر مقام بنائے جانے کے اعلان کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اگر امریکہ اپنے سفارتخانہ کو یروشلم منتقل کرتا ہے تو ایسی صورت میں مسئلہ مزید سنگین نوعیت اختیار کرسکتا ہے کیونکہ فلسطینی عوام اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کیا جانا انہیں ان کے حق سے محروم کئے جانے کے مترادف ہے۔فلسطینی عوام امریکہ کو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ثالث کے طور پر تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ امریکہ نے اسرائیل کے اس خواب کو پورا کرنے کی سمت پیشرفت کی ہے جو خواب اسرائیل عرصۂ دراز سے دیکھ رہا تھا اور اس بات کی کوشش میں تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا صدر مقام بنایا جائے لیکن اسرائیل کو ان کوششوں میں گذشتہ 60 برسوں کے دوران کامیابی نہیں مل پائی لیکن اب امریکہ نے یروشلم کو صدر مقام تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کی مدد کی ہے اور فلسطینی عوام کو ان کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر مرزوق نے کہا کہ امریکہ کے اس فیصلہ کو اقوام متحدہ سیکوریٹی کونسل کی جانب سے مسترد کئے جانے کے باوجود اس سمت کی جانے والی پیشرفت سے لگ رہا ہے کہ امریکہ خود مسائل پیدا کررہا ہے۔انہوں نے بتایاکہ کوئی بھی فلسطینی شہری امریکہ کے اس فیصلہ کو قبول نہیں کرے گا اور حماس فلسطین میں مختلف مزاحمتی تحریکات کا حصہ ہے اور تمام مزاحمتی تحریکوں اور تنظیموں کی جانب سے امریکہ کے فیصلہ کو مسترد کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کی جانب سے امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کی مزاحمت فلسطینیوں کا حق ہے اور فلسطینی اپنے اس حق کا استعمال کریں گے۔

حماس دنیا کے چند ممالک امریکہ ‘ جاپان‘ اسرائیل‘ مصر‘ یوروپ‘ کینیڈا میں دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے جبکہ دنیا کے بعض ممالک کی جانب سے حماس کے عسکری شعبہ عزالدین القسام بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل رکھا گیا ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے بلکہ حماس کو مزاحمت کار تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر موسی محمد ابو مرزوق حماس کے سینیئر پولیٹ بیورو رکن ہیں اور عالمی سیاسی امور کے نگران ہیں ۔ وہ حماس میں ڈپٹی چیف کے عہدہ کے علاوہ دیگر کئی اہم عہدوں پر برقرار رہ چکے ہیں اور فی الحال امور خارجہ و عالمی سیاسی امور کے نگران ہیں۔