فرقہ پرستوں کی تہنیت افسوسناک

فکروخیال
لے کے چٹکی میں نمک آنکھ میں جادو بھر کے
وہ مچلتے ہیں کہ ہم زخم جگر دیکھیں گے
فرقہ پرستوں کی تہنیت افسوسناک
بی جے پی ایک نئے فتنہ اور اُلجھن کا آغاز کرتے ہوئے اترپردیش میں اپنے فرقہ وارانہ رنگ میں مزید گہرائی لانے کی خاطر مظفرنگر کے دو ارکان اسمبلی سنگیت سنگھ سوم اور سریش رانا کو تہنیت پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جنھیں فرقہ وارانہ فسادات میں اشتعال انگیزی اور فساد کو بھڑکانے کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے ان دونوں کو حال ہی میں رہا کیا ہے۔ 21 نومبر کو آگرہ میں منعقد ہونے والی نریندر مودی کی ریالی میں جب ان دو فرقہ پرست لیڈروں کو ان کی کارکردگی کا تمغہ دیا جائے گا تو اس ملک کو یہی پیام ملے گا کہ ہندوستان میں اب فرقہ پرستوں کا ہی راج ہوگا۔ اترپردیش حکومت نے قومی سلامتی قانون کے تحت ان دونوں ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا تھا، عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دونوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر عوام میں مذہبی منافرت پھیلانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ فیس بُک پر فرضی ویڈیوز اَپ لوڈ کرکے عوام کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسانے والی حرکتوں کو اس ملک کا قانون سخت ناپسند کرتا ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں قانون کے ساتھ بھی کھلواڑ ہوتا ہے۔ ستمبر میں مظفرنگر کو فرقہ وارانہ آگ میں جھونکنے کے بعد یہاں تقریباً 62 افراد ہلاک اور 40 ہزار سے زائد مسلم خاندان بے گھر ہوگئے تھے۔ ان میں سے مسلمانوں کی اکثریت اب بھی راحت کاری کیمپوں سے اپنے گھروں کو واپس ہونے سے خائف ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی اپنا اصل رنگ دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور ان کے بعد لوک سبھا انتخابات کی تیاری کرنے والی بی جے پی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے سیاسی امکانات میں مزید استحکام لانا چاہتی ہے۔ بظاہر بی جے پی خود کو متوازی پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن اس کا نظریاتی مسئلہ سیکولر ہندوستان کے لئے نقصاندہ ہے۔ نریندر مودی اپنی اِمیج درست کرنے کی نیم دلانہ یا سازشانہ کوشش کرتے ہوئے 2011ء میں سدبھاؤنا مشن شروع کیا تھا۔ اس کے بعد گجرات کے مسلمانوں کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ بی جے پی 2012ء کے گجرات اسمبلی انتخابات کے لئے چند مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جو مسلم ارکان بی جے پی سے قربت رکھتے تھے، انھیں مایوسی ہوئی۔ اب مدھیہ پردیش، راجستھان اور دہلی میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں۔ یہاں سے بھی اس نے مسلمانوں کو خاصی نمائندگی نہیں دی۔ ان تین ریاستوں سے صرف 6 مسلم امیدواروں کو بی جے پی کا ٹکٹ ملا ہے، جہاں زائد از 500 ارکان اسمبلی کو بہت جلد منتخب کیا جائے گا۔ ان 500 ارکان میں سے صرف 6 مسلم ارکان کو بی جے پی ٹکٹ کا دیا جانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو مسلم قائدین بی جے پی سے وابستہ ہیں، انھیں تو تکلیف ہو نہ ہو، لیکن اس ملک کے سیکولر عوام کو بی جے پی کی پالیسیوں سے اندیشے ہورہے ہیں۔ ایک طرف سیکولر کا ڈھونگ رچاتے ہوئے محفوظ سیاسی راہداری پر چلنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف فرقہ پرستی کا مضبوط پھندہ پھیلاتے ہوئے ملک کے سیکولر عوام کو گردن ناپی جانے کی تیاری ہورہی ہے۔ اس وقت اسمبلی انتخابات کے تناظر میں جو حالات پیدا ہورہے ہیں، وہ سراسر سیکولر پسند مزاج کے مغائر ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کو ان حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس ملک کے سیکولر کردار پر آنے والی آنچ کو روکنے کی استقدامی پہل کرنی ہوگی۔ اترپردیش میں فرقہ پرستوں کو سیاسی سرپرستی کے ساتھ اب انھیں اعزاز و اکرام سے نوازا جانے کا چلن ہورہا ہے تو یہ بدبختانہ تبدیلی ہے۔ اترپردیش میں اگرچہ کہ سماج وادی پارٹی، کانگریس، بہوجن سماج پارٹی سیکولرزم کے نعرے پر عوام سے ووٹ لیتی ہیں، مگر ان کے سامنے بی جے پی کی مخالف سیکولر سرگرمیوں کو عام ہوتا دیکھا جارہا ہے تو یہ پارٹیاں فرقہ پرستوں کے عزائم کو ناکام بنانے سے قاصر نظر آرہی ہیں۔ سماج وادی پارٹی خود کو مسلمانوں کی حقیقی محافظ پارٹی ہونے کا دعویٰ کررہی ہے۔ صدر ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل پر ہر وقت مناسب فورم پر مناسب بحث کرکے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی پالیسیاں مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچانے کا موجب بن جائیں تو اس سے زیادہ المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ مظفرنگر اور بعد کے واقعات میں صرف مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا۔ مظفرنگر فسادات کے زخم ابھی ہرے ہیں، بھرے نہیں ہیں اور بی جے پی ان زخموں کو مزید لہولہان کرنے کے لئے فرقہ پرستوں کو شاباشی دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ مظفرنگر میں غم و غصہ کی آگ اور رنجشوں کا ماحول فی الحال دبا نہیں ہے۔ یہ پوری طرح بجھا نہیں ہے۔ سیکولر پارٹیوں کو اس وقت متحدہ طور پر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ فرقہ پرستوں کے عزائم کو ناکام بنائیں۔ نفرت کی مہم کو فوری ختم کردیا جائے۔ فرقہ واریت کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی حکمت ِ عملی وضع کرنے اور دِلوں میں پلنے والی نفرتوں کا سدباب کرنے کا وقت ہے۔ بی جے پی کو اس ملک سے محبت ہے تو اسے فرقہ واریت کا ناسور پالنے کی بجائے اس کا علاج کرنے پر دھیان دینا چاہئے۔ اگر اس سے فرقہ وارانہ ماحول کو ہوا دینے کا خفیہ منصوبہ بنایا ہے تو پھر وہ ہندوستان کی سیکولر فضاء میں زیادہ دن تک سانس نہیں لے سکے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیکولر عوام اور قائدین کو امن و امان کو ملک سے بھگانے کا منصوبہ بنانے والی پارٹیوں اور قائدین کو سبق سکھائیں۔ سیکولر پارٹیاں اگر فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے سے قاصر ہوں تو پھر وہ خود کو سیکولر قرار دیتے ہوئے عوام سے ووٹ لیتے ہیں تو یہ رائے دہندوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔