فرض نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم

مولانا ازہار احمد امجدی ازہری
ہر مکلف یعنی عاقل و بالغ مسلمان پر نماز کی ادائیگی فرض عین ہے، اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور جو قصداً چھوڑے اگرچہ ایک ہی وقت کی، وہ فاسق ہے۔ حکم یہ ہے کہ جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو اُسے قید کیا جائے، یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز پڑھنے لگے۔ ائمہ ثلاثہ حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رضی اللہ عنہم کے نزدیک سلطان اسلام کو ایسے شخص کے قتل کا حکم ہے (درمختار، بہار شریعت) یہ حکم صرف ایک بار قصداً نماز چھوڑنے والے کا ہے، پھر جو لوگ پابندی سے نمازیں چھوڑتے ہیں، بلکہ پڑھتے ہی نہیں، ان کا کیا حال ہوگا؟۔ بلاعذر شرعی نماز قضا کرنا بہت سخت گناہ ہے، قضا کرنے والے پر فرض ہے کہ قضا پڑھے اور سچے دل سے توبہ کرے۔ توبہ یا حج مقبول سے تاخیر کا گناہ معاف ہو جائے گا۔ توبہ اسی وقت صحیح ہے کہ قضا پڑھ لے۔ اگر کوئی شخص قضا نہ پڑھے اور توبہ کئے جائے تو یہ سچی توبہ نہیں ہے، کیونکہ اس شخص کے ذمہ جو نماز تھی اس کی ادائیگی تو اب بھی باقی ہے اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو پھر توبہ کہاں ہوئی۔ (ردالمحتار، بہار شریعت)
ہر عاقل و بالغ مسلمان کے لئے جس طرح بھی ہو کھڑے ہوکر، اگر کھڑے ہونے پر قدرت نہیں تو بیٹھ کر اور بیٹھنے کی قدرت نہیں تو لیٹ کر سر کے اشارہ سے نماز پڑھنا ضروری ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اگر سر کے اشارہ سے بھی نماز ادا نہ کرسکے تو نماز ساقط ہے، اس کی ضرورت نہیں کہ آنکھ یا بھووں یا دل کے اشارہ سے پڑھے۔ پھر اگر چھ وقت اسی حالت میں گزر جائے تو ان نمازوں کی قضا بھی ساقط ہے، فدیہ کی بھی حاجت نہیں، ورنہ بعد صحت ان نمازوں کی قضا لازم ہے، اگرچہ اتنی ہی صحت ہو کہ سر کے اشارہ سے پڑھ سکے۔ (درمختار، بہار شریعت)
آج ہمارا یہ حال ہے کہ اگر تھوڑا سا بخار بھی ہو گیا یا ذرا سی سردی لگ گئی تو جماعت تو جماعت نماز ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ کوئی مسلمان جب بیمار ہوتا ہے تو اس کے گناہ جھڑتے ہیں، لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ بیماری کی حالت میں ہمارا گناہ جتنا جھڑتا نہیں ہے، اس سے کہیں زیادہ نماز چھوڑکر ہم اپنی جان کے لئے وبال کا سامان مہیا کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک ہدایت دے۔ (آمین)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر گھر میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو عشاء کی نماز قائم کرتا اور جوانوں کو حکم دیتا کہ جو کچھ گھروں میں ہے آگ سے جلادیں‘‘۔ واضح رہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے، اس کا ایک بار بھی قصداً چھوڑنا گناہ صغیرہ اور چند بار ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے، جب کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب مستحق عذاب ہے۔ نماز باجماعت صرف اِن صورتوں میں ترک کی جاسکتی ہے، یعنی ایسا مریض جسے مسجد تک جانے میں مشقت ہو، اپاہج، جس کا پاؤں کٹ گیا ہو، جس پر فالج کا اثر ہو، اتنا ضعیف کہ مسجد تک جانے سے عاجز ہو، اندھا (اگرچہ اندھے کے لئے کوئی ایسا شخص ہو جو ہاتھ پکڑکر مسجد تک پہنچا دے)، سخت بارش اور کیچڑ کا حائل ہونا، سخت سردی، سخت تاریکی، آندھی، مال یا کھانے کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو، قرض خواہ کا خوف ہو اور مقروض تنگ دست ہو، ظالم کا خوف، پاخانہ پیشاب یا ریاح کی حاجت شدید ہو، کھانا حاضر ہے اور نفس کو اس کی خواہش ہے، قافلہ چلے جانے کا اندیشہ ہے، مریض کی تیمارداری کہ جماعت کے لئے جانے سے اس کو تکلیف ہوگی اور گھبرائے گا، یہ سب ترک جماعت کے اعذار ہیں۔ (درمختار، بہار شریعت)
یہ وہ اعذار ہیں، جن کے سبب ترک جماعت کی اجازت ہے، مگر آج ہم بلاوجہ، سستی، کاہلی اور محض لاپرواہی کے سبب جماعت چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر مسلمان کو اس قسم کا عمل ترک کرکے نماز باجماعت کا التزام کرنا چاہئے، تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی ملے اور ہم سب عذاب الہٰی سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز باجماعت کا پابند بنائے اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ (آمین)