فرض روزہ کی قضاء

سوال : میرا پہلا روزہ چھوٹ گیا چونکہ میری طبیعت اچانک بگڑ گئی جس کی وجہ سے ایک روزہ قضاء ہوگیا، میں ہر سال ستہ شوال کے روزے رکھتا ہوں۔ اگر چھ روزوں میں سے ایک روزہ میں رمضان کے روزہ کی قضاء کی نیت کرلی جائے تو کیا قضاء روزہ اور ستہ شوال ادا ہوجاتے ہیں یا نہیں ؟
نعمان بیگ، سکندرآباد
جواب : رمضان کے روزہ کی قضاء فرض ہے اور ستہ شوال کا روزہ سنت ہے ۔ لہذا اگر کوئی شخص رمضان کی قضاء اور ستہ شوال کے سنت روزہ کی نیت سے ایک روزہ رکھنا چاہئے تو شرعاً وہ روزہ قضاء کا ہوگا ۔ ستہ شوال کا نہیں۔ فتاوی عالمگیری ج : 1 ، ص : 197 میں ہے ’’ واذا نوی قضاء بعض رمضان و التطوع یقع عن رمضان فی قول ابی یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ وھو روایۃ عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ کذا فی الذخیرۃ‘‘۔

اوقات سحر و افطار میں احتیاط
سوال : ہمارے محلہ کی مسجد میں وقت سحر کی انتہا پر اذان دی جارہی ہے اور وقت افطار پر بھی سائرن سے پانچ منٹ قبل اذان دی جاتی ہے ۔ پوچھے جانے پر ذمہ دار حضرات کا کہنا ہے کہ یہی طریقہ سنت سے ثابت ہے کہ اذان سن کر رک جاؤ اور اذان ہی سے روزہ کھولو ۔ و نیز وقت سحر کا حقیقی وقت کیا اور کیا ان حضرات کا یہ عمل درست ہے جبکہ اس سے عوام میں انتشار ہورہا ہے ؟
نام …
جواب : شہر حیدرآباد میں اہل السنتہ والجماعت کی طرف سے شائع ہونے والے نظام الاوقات میں انتہائے وقت سحر و ابتدائے وقت فجر میں (22) منٹ کا جو وقفہ ہے، اس میں دس منٹ کی وقت سحر میں تقدیم اور بارہ منٹ کی وقت فجر میں تاخیر احتیاطاً ملحوظ ہے۔ کیونکہ گھڑیالوں میں تفاوت ظاہری امر ہے ۔ اگر کسی کی گھڑی درست ہو تو وہ سحر میں دس منٹ تک کھا سکتا ہے ، اگر گیارہ منٹ ہوجائیں تو فاقہ ہوگا ۔ اس لئے متعلقہ نظام الاوقات کے ابتدائے وقت فجر تک سحری کھانے سے روزہ نہیں ہوگا۔
ابتدائے وقت مغرب میں احتیاطاً پانچ منٹ کا فرق ہے ، اگر وقت افطار میں تاخیر ہو تو کراہت ہے، لیکن خدانخواستہ وقت سے قبل روزہ کھولیں تو پورا روزہ فاسد ہوگا۔ لہذا قدیم سے جو عملدر آمد ہے اسے برقرار رکھیں۔ صورت مسئول عنھا میں مساجدکے ذمہ داروں کو اپنے عمل سے باز آنا چاہئے چونکہ اس سے روزہ داروں کے روزے خراب ہونے اور امت میں انتشار کا خدشہ ہے۔

زکوٰۃ سے متعلق شرعی مسائل
سوال : مال تجارت پر زکوٰۃ واجب ہے جیسا کہ سونے اور چاندی پر زکوٰۃ دینے کی حد مقرر کی گئی ہے ۔ اسی طرح تاجر کیلئے یعنی بیوپاری ہو یا دوسری ایجنسی کو کس حد تک کاروبار کرنے پر زکوٰۃ دینا واجب ہے۔
ایسا شخص جس پر گذشتہ کئی سال سے نا واقفیت کی بناء زکوٰۃ واجب تھی مگر ادا نہیں کیا ۔ کیا اس کو ان پچھلے سالوں کی زکوٰۃ اب ادا کرنا فرض ہے۔ ادا نہ کرنے پر کیا وعید ہے۔
پلاٹس ، فلیٹس اور مکانات یا زمینات جن کو مستقبل میں زائد قیمت پر منافع کمانے کی غرض اور نیت سے خریدا جائے اور اس پر ایک سال گذر چکا ہو تو کیا زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے ۔ فروختگی کیلئے بعض وقت کئی سال لگ جاتے ہیں تو کیا ان کی فروخت تک ہر سال ان پر زکوٰۃ نکالنا فرض ہے ؟
افضال الرحمن، نیو ملے پلی
جواب : کسی تاجر کے پاس نصاب کی مقدار میں سامانِ تجارت ہو یعنی اس کا مال 60 گرام 755 ملی گرام سونا یا 425 گرام 285 ملی گرام چاندی کے برابر ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو ایسے تاجر و بیوپاری پر جتنا مال نصاب سے زائد ختم سال پر موجود ہو اس تمام مال کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔
(2 کسی شخص کے ذمہ سالہا سال کی زکوٰۃ واجب الادا ہو اور وہ شخص وجوب ِ زکوٰۃ سے لاعلم تھا تواس کی لاعلمی کی وجہ سے سالہا سال کی زکوٰۃ اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس کو سالہا سال کی زکوٰۃ کا اندازہ کر کے اسکو ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر بیک وقت سالہا سال کی زکوٰۃ ادا کرنا دشوار ہو تو بتدریج اقساط پر زکوٰۃ کی رقم ادا کرسکتا ہے۔
(3 تجارت کی غرض سے خریدے گئے مکانات اور زمینات پر زکوٰۃ ادا کرنا شرعاً فرض ہے ۔ اگرچہ کئی سال تک وہ فروخت نہ ہوں ۔ ہر سال کے اختتام پرجو اس کی قیمت ہوگی اس کے اعتبار سے زکوٰۃ کی رقم ادا کی جائے۔

حطیم کعبہ میں نماز
سوال : یہ بات مشہور ہے کہ حطیم کعبتہ اللہ شریف کا حصہ ہے لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے حطیم کو کعبہ کی تعمیر میں شامل نہیں کیا گیا ۔ کیا یہ حقیقت ہے ؟ اور اس میں نماز پڑھنا گویا کعبہ میں نماز پڑھنا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر لوگ حطیم کی طرف رخ کر کے نماز کیوں نہیں پڑھتے جبکہ وہ خانہ کعبہ ہی کا حصہ ہے اور جب لوگ اس کی طرف نماز نہیں پڑھتے ہیں بلکہ کعبہ کو رخ کرتے ہیں، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا جز نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں اگر آپ کی وضاحت ہو تو بہت سے شکوک و شبہات کا حل ہوسکتا ہے ؟
محمد مبین، کاچی گوڑہ
جواب : حطیم خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے فرمایا : تمہاری قوم کے پاس مالیہ کی کمی ہوئی تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے بیت اللہ شریف کو کم کردیا ۔ یقیناً حطیم بیت اللہ کا جز ہے ۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ عہد جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر کرتا اور اس کے دو دروازے ایک مشرقی اور ایک مغربی بناتا۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الحج باب فضل مکتہ کے تحت یہ حدیث ہے ۔ روی عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لھا ۔ ان قومک قصرت بھم النفقۃ فقصروا البیت عن قواعد ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام وان الحطیم من البیت ، ولولا حدثانِ عھد ھم بالجاھلیۃ لرددتہ الی قواعد ابراہیم و لجعلت لہ بابین ، بابا شرفیا و بابا غربیا۔
ایک شخص نے بیت اللہ شریف میں دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حطیم میں دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا ۔ روی ان رجلا نذر ان یصلی فی البیت رکعتین فامر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یصلی فی الحطیم (مسلم ،حج ، باب نقص الکعبۃ و بنائھا) اس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کعبہ میں نماز پڑھنے کی نذر کی تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حطیم میں دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ اب رہا جب حطیم خانہ کعبہ کا جز و حصہ ہے تو پھر دوران نماز اس کی طرف رخ کیوں نہیں کیا جاتا ہے تو اس کا جواب فقہاء نے اس طرح دیا ہے کہ نماز کے وقت خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم قرآن مجید کی نص قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وحیث ماکنتم فولوا وجوھکم شطرہ (سورۃ البقرۃ / 144 ) یعنی جہاں کہیں تم ہو تم اپنے چہروں کا رخ کعبہ کی جانب کیا کرو ) اور حطیم کا خانہ کعبہ کا جز ہونا ایسی حدیث سے ثابت ہے جس کو حدیث کے اصول میں خبر واحد کا درجہ حاصل ہے جس کا حکم کتاب اللہ کے حکم کی طرح قطعی نہیں ہوتا ۔ اس لئے راست خانہ کعبہ کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔(بدائع الصنائع جلد 2 ص : 314 )

تراویح میں امام کو لقمہ دینا
سوال : دریافت طلب مسئلہ یہ ہیکہ کیا تراویح میں امام صاحب کو لقمہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔کیا لقمہ دینے سے مقتدی یا امام کی نماز فاسد ہوجاتی ہے ؟ اگر مقتدی لقمہ دے اور امام لقمہ نہ لے تو کیا مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے ؟
حافظ منیر الدین، بازار گھاٹ
جواب : مقتدی اپنے امام کو فرض و نفل ہر قسم کی جہری نماز میں لقمہ دے سکتا ہے۔ مقتدی کے ا پنے امام کو لقمہ دینے سے مقتدی اور امام کسی کی بھی نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ عالمگیری ، باب مایفسد الصلوۃ میں ہے : ’’ وان فتح علی امامہ لم تفسد ، ثم قیل ینوی الفاتح بالفتح علی امامہ التلاوۃ والصحیح ان ینوی الفتح علی امام دون القراء ۃ قالوا ھذا اذا ارتج علیہ اخریٰ قبل ان یقرأ قدر ما یجوز بہ الصلوۃ او بعد ما قرأ و لم یتحول الی آیۃ اخریٰ ، و اما اذا قرأ و تحول ففتح علیہ تفسد صلاۃ الفاتح ، والصحیح انھا لا تفسد صلوۃ الفاتح بکل حال ولا صلوۃ امام لو أخذ منہ علی الصحیح کذا فی الکافی‘‘ مقتدی کا امام کو فوراً لقمہ دینا مکروہ ہے۔ اس لئے مقتدی کو چاہئے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کرے، ممکن ہے کہ امام کو اسی وقت بھولا ہوا لفظ یاد آجائے۔ عالمگیری میں اسی جگہ ہے : ’’ و یکرہ للمقتدی ان یفتح علی امامہ من ساعتہ لجواز ان یتذکر من ساعتہ فیصیر قارئً خلف الامام من غیر حاجۃ کذا فی محیط السرخسی‘‘۔اگر مقتدی لقمہ دے اور امام لقمہ نہ لے تواس سے مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ فتاوی عالمگیری ج : 1 ، ص : 99 میں ہے ’’ و ان فتح علی امامہ لم تفسد ‘‘ اور اسی جگہ ہے ’’ والصحیح انھا لا تفسد صلوۃ الفاتح بکل حال و لا صلوۃ الامام لہ اخذ منہ علی الصحیح کذا فی الکافی‘‘۔

نابالغ لڑکی پرزکوٰۃ کا حکم
سوال : میری لڑکی آٹھ سال کی ہے۔ میں اس کی شادی کے لئے سونا جمع کرتی ہوں، ہر سال دو تین تولہ سونا خریدتی ہوں۔ اب تک میں نے اس کے نام سے گیارہ تولے سونا جمع کیا اور وہی اس کو استعمال کرتی ہے۔ کیا ہر سال اس کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ؟ مجھے معلوم نہیں۔ اگر اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اب تک جتنے سالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی اس کی زکوٰۃ نکالنا ضروری ہے ؟
روبینہ جاوید، ملک پیٹ
جواب : نابالغ لڑکا یا لڑکی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ البتہ ان کی جانب سے صدقہ فطر کی ادائی اور قربانی واجب ہے ۔ ’’ الزکوٰۃ فرض علی المخاطب ‘‘ (قاضی خان مطبوعہ بر عالمگیری ج : 1 ، ص : 225 ) و اما شرائط الوجوب منھا الیسار و ھو ما یتعلق بہ وجوب صدقۃ الفطر دون ما یتعلق بہ وجوب الزکوۃ واما البلوغ والعقل فلیس بشرط حتی کان للصغیر مال یضحی عنہ ابوہ اور وصیۃ من مالہ (عالمگیری ج : 4 کتاب الاضحیۃ) ۔صورت مسئول عنھا میں جو سونا خریدکر بچی کو دیا گیا ہے اگر بچی کو مالک بنایا گیا ہے تو بچی پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی ۔ اگر ملکیت ماں کی ہو صرف استعمال کے لئے بچی کو دیا گیا تو ایسی صورت میں ماں پر زکوٰ ۃ واجب ہوگی اور جس سال نصاب ہوا ، اس سال سے اب تک کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

تراویح میں بسم اللہ جہر سے پڑھنا
سوال : حفاظ کرام نماز تراویح پڑھاتے ہیں جس میں آخر دو رکعتوں میں حافظ صاحب سورہ اخلاص سے پہلے ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔ دیگر سورتوں کے شروع میں نہیں پڑھتے۔ کیا سورۃ اخلاص سے پہلے بلند آواز سے ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا ثابت ہے۔
عبدالناصر، ٹولی چوکی
جواب : بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن شریف کی ایک مستقل آیت ہے، تراویح میں تمام قرآن کے ساتھ اس کو ایک دفعہ کسی سورہ کے شروع میں جہر سے پڑھنا ضروری ہے۔ عالمگیری کتاب الصلوۃ فصل سنن الصلوۃ میں ہے ’’ وھی من القرآن آیۃ انزلت للفصل بین السور کذا فی الظھریۃ ‘‘۔ مولانا عبدالحی صاحب فرماتے ہیں اگر کوئی تراویح میںایک مرتبہ جہر سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت نہ کرے تو قرآن مکمل نہیں ہوگا ، ایک آیت کی کمی ہوگی۔ ’’ بسم اللہ آیتے است از قرآن مکر ر کردہ شد برسر ہر سورہ برائے فصل ، پس ہنگام ختم قرآن و تراویح یک مرتبہ بسم اللہ خواندن ضرور است برسر ہر سورہ کہ خواہد بخواند ، اگر ترک کردہ شد درختم قرآن قصور است ‘‘۔