فتویٰ کو نہ ماننا

فتویٰ کو نہ ماننا
سوال : (1 فتویٰ کی اہمیت کیا ہے۔ (2) فتویٰ کی کس حد تک پابند ہونی چاہئے ؟ (3) کیا فتویٰ قابل عمل ہے ؟ (4) اگر کسی فتویٰ پر عمل نہ کیا جائے تو اس کا مذہبی رد عمل کیا ہوگا ۔ (5) اگر فتویٰ پر عمل نہ کیا جائے تو دوسرا اقدام کیا کیا جاسکتا ہے؟ (6) اگر فتویٰ کا احترام نہ کیا جائے تو شریعت کا کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب : کسی بھی مسئلہ کے شرعی حکم یا اس مسئلہ کے حل کا نام ’’ فتویٰ ‘‘ ہے جو سوال کی صحت پر موقوف ہوگا۔ (2) فتوی فقہ (جو قرآن ، حدیث اور اجماع و اجتہاد) سے حکم شرعی کے مطابق ہوتا ہے۔ ( 3 تا 5) اگر انسان کے ذاتی عمل سے متعلق ہے (جیسے صحت نماز) تو مستفتی کو اس پر عمل کرنا چاہئے ورنہ وہ عنداللہ ماخوذ ہوگا اور کسی دوسرے کے حقوق سے متعلق ہے تو اس پر عمل نہ کرنے کی صورت فریق ثانی کو یہ حق ہے کہ حاکم مجاز سے رجوع ہو۔ (6) فتویٰ چونکہ حکم شرعی ہے، اس کا احترام کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ اس کی توہین سے شریعت کی توہین ہوگی جس میں کفر کا اندیشہ ہے۔

حدود حرم میں قربانی
سوال : ایک شخص حج کیا اور حج کی قربانی غیر حرم میں کسی دوسرے ملک میں کیا تو کیا اس کی قربانی صحیح ہوجاتی ہے یا نہیں ؟
(2 دوسرا سوال یہ ہے کہ حج کے دنوں میںحدود حرم میں اجتماعی قربانی ہوتی ہے ۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ان اداروں کو صرف قربانی کے پیسے دے دینے سے قربانی ہوجاتی ہے ۔ چاہے ہم ان اوقات میں وہاں موجود نہ ہوں۔ دلیل کے طور پر وہ کہتے ہے کہ میت کی جانب سے جب قربانی کی جاتی ہے تو کیا میت وہاں موجود ہوتی ہے ؟ اسی طرح ہم کسی بھی اداروں کو پیسے دے دینے کی وجہ سے ہم پر سے قربانی کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے یا وہ شحص یا وہ ادارہ ثقہ و عادل ہونا ضروری ہے ؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دس ذی الحجہ کے دن اپنے سروں کو مونڈ واتے ہیں۔ عید کے دن غیر حاجی اور صاحب قربانی و غیر صاحب قربانی کا اس طرح ا پنے سروں کو مونڈنا کہاں تک درست ہے ؟ کیا کوئی حدیث میں یا کسی اولیاء اللہ رحمھم اللہ کا طریقہ رہا ہے ۔ تشفی بخش جوابات عنایت فرمائے تو عین نوازش ہوگی ؟
نام …
جواب : حج کی قربانی حدود حرم میں ایام نحر میں دینا لازم ہے، حدود حرم کے باہر حج کی قربانی دی جائے تو حدود حرم میں دوبارہ دینا لازم ہے۔
صاحب قربانی کا بوقت قربانی موجود رہنا بہتر ہے اور اگر وہ کسی کو وکیل بنادے اور وہ شخص اس کی طرف سے قربانی کردے تو قربانی ہوجائے گی۔ اگرچہ صاحب قربانی موجود نہ رہے جس کو آپ قربانی کے لئے وکیل بنائیں وہ قابل بھروسہ و امانت دار ہونا چاہئے ۔ صاحب قربانی بعد قربانی حلق کرنا چاہے یا بال کم کرنا چاہے تو یہ اس کا اختیاری عمل ہے۔

قبرستان میں دنیوی گفتگو کرنا
سوال : عموماً نماز جنازہ کے لئے وقت باقی رہے تو لوگ گفتگو کرتے ہیں اور قبرستان میں میت کے قریبی عزیز و اقارب تدفین میں مصروف رہتے ہیں اور دیگر رشتہ دار و احباب باتیں کرتے رہتے ہیں، وہ بھی دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔
آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ کوئی خاص ذکر اس وقت مسنون ہے تو بیان کیجئے ؟
محمد حافظ ، مصری گنج

جواب : نماز جنازہ میں شرکت کرنا تدفین میں شریک رہنا موجب اجر و ثواب ہے۔ اسی طرح کسی کا انتقال کرجانا دنیا کی بے ثباتی پر دلالت کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اور ہمارے بدن میں موجود ہماری روح ایک دن اس بدن کو چھوڑ کر روانہ ہوجائے گی پھر اس جسم میں کوئی حس و حرکت باقی نہیں رہے گی۔ اور وہ شخص جو مانباپ کا منظور نظر تھا ، اولاد کا محبوب تھا، دوست و احباب کا دلعزیز تھا ، وہی ماں باپ ، اولاد ، دوست و احباب اس کے بے جان جسم کو جلد سے جلد زمین کے نیچے دفن کرنے کی فکر کریں گے اور اس کے بعد کے منازل اس کو اکیلے ، تنہا طئے کرنے ہوں گے ۔ اس کے ماں باپ ، اولاد ، دوست و ا حباب ، رشتہ دار قبر تک ساتھ آئیں گے پھر واپس چلے جائیں گے ۔ قبر میں تنہا چھوڑ جائیں گے۔ نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مونس پاس ہوگا ۔ بس وہ ہوگا ، اس کے اعمال ہوں گے اور خدا کا فضل ہوگا ۔ اسی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی تر غیب دی کیونکہ اس سے آخرت کی یاد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔

بناء بریں حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 401 میں ہے : جنازہ کے ساتھ جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور غور و فکر کرے کہ میت کو کیا حالات درپیش ہوں گے اور اس دنیا کے انجام و نتیجہ پر غور کرے اور اس موقعہ پر بالخصوص لا یعنی بے فائدہ گفتگو سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ ذکر و شغل اور نصیحت حاصل کرنے کا وقت ہے ۔ تاہم بلند آواز سے ذکر نہ کرے اور ایسے وقت میں غافل رہنا نہایت بری بات ہے اور اگر وہ ذکر نہ کرے تو اس کو خاموش رہنا چاہئے ۔ وفی السراج یستحب لمن تبع الجنازۃ ان یکون مشغولا بذکراللہ تعالیٰ والتفکر فیما یلقاہ المیت وان ھذا عاقبۃ أھل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام فان ھذا وقت ذکر و موعظۃ فتقبح فیہ الغفلۃ فان لم یذکراللہ تعالیٰ فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقراء ۃ ولا بالذکر۔

امام سے پہلے مقتدی کا رکوع و سجود سے سر اٹھانا
سوال : بعض وقت دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اس قدر جلدی میں ہوتے ہیں کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کا انتظار نہیں کرتے اور اس سے قبل اٹھ جاتے ہیں ۔ شرعی لحاظ سے اگر کوئی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے سر اٹھالے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ :
محمد عمران ، وجئے نگر کالونی
جواب : مقتدی پر امام کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی مقتدی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے ا پنا سراٹھالے تو فقہاء نے صراحت کی کہ اس کے لئے دوبارہ رکوع اور سجدہ میں چلے جانا مناسب ہے تاکہ امام کی اقتداء اور اتباع مکمل ہوسکے اور امام کی مخالفت لازم نہ آئے ۔ دوبارہ رکوع اور سجدہ میں جانے سے تکرار متصور نہیں ہوگی ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 171, 170 میں ہے : من الواجب متابعۃ المقتدی امامہ فی الارکان الفعلیۃ فلو رفع المقتدی رأسہ من الرکوع اوالسجود قبل الامام ینبغی لہ ان یعود لتزول المخالفۃ بالموافقۃ ولا یصیر ذلک تکرار!

مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنا
سوال : زید نے اولا رشیدہ سے نکاح کیا۔ رشیدہ کے بطن سے تین لڑکے ہیں جو کہ بالغ ہیں۔ زید نے رشیدہ کو طلاق دیدیا اس کے تقریباً تین سال بعد رشیدہ کی حقیقی بہن سے نکاح کرلیا جس کے بطن سے تین نابالغ لڑکے ایک لڑکی 15 سالہ اور ایک لڑکی 9 سالہ ہے۔ اب زید نے اس کی بہن سے کسی خلع یا طلاق کے بغیر علحدگی اختیار کرتے ہوئے دوبارہ رشیدہ کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے ۔ شرعاً زید کا یہ عمل کیسا ہے ۔ زید رشیدہ کی بہن اور اس کے بچوں کا نفقہ بھی ادا نہیں کر رہا ہے۔ شرعاً اس پر رشیدہ کی بہن اور اس کے بچوں کا نفقہ واجب ہے یا نہیں ؟
عبدالرشید ، ہمت پورہ

جواب : رشیدہ کی بہن زید کی زوجہ ہے اور اس کا نفقہ (اخراجات طعام) سکنیٰ ، (اخراجات رہائش) کسوہ (اخراجات لباس) و دیگر حوائج ضروریہ کے اخراجات شوہر زید پر شرعاً واجب ہیں، تاتارخانیہ ج : 4 ص : 183 کتاب النفقات میں ہے ۔ فی ا لخانیۃ تجب علی الرجل نفقۃ امرأتہ المسلمۃ والذمیۃ والفقیرۃ والغنیۃ دخل بھا أ ولم یدخل بھا … و فی الجامع الجوامع ! نا بالغ اولاد کا نفقہ اور نکاح تک لڑکی کا نفقہ وغیرہ باپ پر واجب ہے ۔ جبکہ ان کے پاس مال نہ ہو۔ تاتارخانیہ کی مذکورہ جلد کے مذکورہ باب ص : 234 میں ہے ۔ واذا لم یکن للصبی مال فالنفقۃ علی والدہ لایشا رکہ أحد فی ذلک ص : 233 میں ہے ۔ و نفقۃ الصغیر واجبۃ علی أبیہ ۔ عالمگیری جلد اور ص : 563 میں ہے۔ ونفقۃ الاناث واجبۃ مطلقاً علی الاباء مالم یتز و جن اذا لم یکن لھن مال کذا فی الخلاصۃ۔

مذکورہ در سوال رشیدہ کی بہن کے بطن سے زید کو جو لڑکی 15 سالہ ہے اس کا نفقہ جبکہ زید اس کو ا پنے پاس رکھنے پر رضامند نہ ہو زید پر واجب ہے ۔ نو سالہ لڑکی کا نفقہ بھی اس کے نکاح تک زید پر لازم ہے، اس کی حضانت کا حق بھی بلوغ تک ماں کو ہے ۔ رشیدہ کی بہن کے اخراجات طعام و لباس و سکنیٰ و دیگر حوائج کے علاوہ ازدواجی حقوق کی ادائیگی بھی زید پر لازم ہے ۔ رشیدہ کی بہن زید کی منکوحہ شرعی ہے، اس کو نکاح میں رکھتے ہوئے علحدگی شرعاً درست نہیں۔ نیز رشیدہ، زید کی مطلقہ ہے اس کے ساتھ مذکورہ صورت میں کسی قسم کا کوئی تعلق رکھنا شرعاً جائز نہیں کیونکہ وہ زید کے حق میں اجنبیہ ہے ۔ اگر اس نے رشیدہ سے تعلق زن و شو قائم کیا ہے تو (جو گناہ کبیرہ و حرام ہے) اس کی عدت (تین حیض) کی تکمیل تک اپنی زوجہ یعنی رشیدہ کی بہن سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرے۔

مرحوم کے جیب میں موجود رقم کا حکم
سوال : میرے والد کا انتقال ہوگیا ۔ بعد تدفین معلوم ہوا کہ غسل سے قبل جو لباس زیب تن تھا ، اس میں نو ہزار سے زائد رقم تھی جو غسل کے لئے کھودے گئے گڑھے میں کپڑوں کے ساتھ چلی گئی ۔ اب وہ قابل استعمال ہے یا نہیں ، ہے تو کن امور میں استعال کی جاسکتی ہے مطلع فرمائیں ۔
انیس احمد ، بودھن
جواب : مرحوم کے انتقال کے وقت زیب تن کپڑوں میں موجود مرحوم کی رقم مرحوم کے متروکہ میں شامل ہوگی جس میں ان کے ورثہ حقدار ہیں اور وہ اس میں حسب احکام شرع حصہ پائیں گے۔

مسجد میں سلام کرنا
سوال : جمعہ کے دن لوگ خطبہ سے بہت پہلے مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں اور قرآن مجید بالخصوص سورہ الکہف ، سورۃ یسین کی تلاوت کرتے ہیں اور دوسرے حضرات اوراد و وظائف میں مشغول رہتے ہیں۔ بعض حضرات مسجد کے اندرونی حصہ میں داخل ہوکر بلند آواز سے سلام کرتے ہیں ۔ کیا اس طرح سلام کرنا شرعی لحاظ سے کیا حکم رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی شخص سلام کردے تو کیا قرآن کی تلاوت میں مشغول افراد پر سلام کا جواب دینا ضروری ہے یا نہیں ؟
محمد اسحاق، ٹولی چوکی
جواب : یہ سلام کا وقت نہیں، جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ وہ سلام نہ کرے ۔ اگر وہ سلام کردے تو بیٹھنے والوں پر اس کے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں۔
عالمگیری جلد 5 کتاب الکراھۃ ص : 361 میں ہے : السلام تحیۃ الزائرین ، والذین جلسوا فی المسجد للقراء ۃ والتسبیح ولانتظار الصلوۃ ما جلسوافیہ لدخول الزائرین علیھم فلیس ھذا اوان السلام فلا یسلم علیھم و لھذا قالوا لو سلم علیھم الدخول وسعھم ان لا یجیبوہ کذا فی القنیۃ۔