فالج کا مریض اور پیشاب کا عارضہ

فالج کا مریض اور پیشاب کا عارضہ
سوال : میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوکر تقریباً پانچ سال کا عرصہ ہورہا ہے۔ کافی علاج کروانے کے باوجود صحت نہ ہوسکی اس وقت میری یہ حالت ہے کہ میں بیٹھ کر پیشاب نہیں کرسکتا۔ کھڑا رہ کر ہی ضرورت سے فارغ ہوتا ہوں۔ گھٹنوں میں کافی درد ہے بغیر واکر کے چل نہیں سکتا اور پھر پیشاب بار بار آتا ہے اور پیشاب کرنے کیلئے جانے تک کپڑوں میں نکل جاتا ہے روکنے کی کوشش کے باوجود نہیں رکتا۔ قطرے کپڑوں میں گرجاتے ہیں۔ اس طرح طہارت نہیں رہتی ایسی حالت میں مجھے نماز پڑھنے میں اور قرآن پڑھنے میں معذوری ہے۔ میں ایسی حالت میں نماز اور قرآن پڑھنا بند کردیا ہوں۔ صرف ذکر میں مشغول رہتا ہوں ۔ مجھے نماز اور قرآن پرھنے کیلئے کیا کرنا چاہئے ۔ ایسے معذور اور مجبور شخص کو اسلامی احکامات پر عمل کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے ۔شرعی احکامات سے معلومات فراہم کیجئے یا ایسی حالت میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ تفصیل سے معلوم کیجئے ۔
عبدالخالق
جواب : عذر کی بناء کھڑے ہوکر پیشاب سے فارغ ہونے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ طہارت خانہ کو جانے سے قبل پیشاب خطا ہوجائے اور پیشاب کے قطرے ہتھیلی کے گڑھے کی مقدار سے زیادہ کپڑے کو لگ جائیں تو ایسی صورت میں اس حصہ کو دھونا واجب ہوجاتا ہے ۔ ہتھیلی کے گڑھے (ایک سکہ کی مقدار) سے کم ہو تو قابل عفو ہے۔ مذکورہ مقدار سے زیادہ ہو تو اس حصہ کو دھولیں یا کپڑا تبدیل کرلیں اور جس مقام کو پیشاب کے قطرے لگے ہیں اتنا حصہ بدن کو تین مرتبہ دھولیا جائے تو طہارت کیلئے کافی ہے اور جب پیشاب کے قطرے مکمل طور پر رک جائیں تو لباس تبدیل کر کے وضو کرلیں۔ آپ کی طہارت مکمل ہے اور آپ نماز کو ادا کرسکتے ہیں اور قرآن کو چھو سکتے ہیں ۔
نماز کسی صورت میں ذمہ سے ساقط ہونے والی نہیں۔ سوال میں ذکر کردہ صورت میں نماز ترک کرنے کی شرعاً گنجائش نہیں۔

اسلامی کیلنڈر میں منحوس تواریخ شمش و قمر
سوال : اسلامی کیلنڈرس میں منحوس تواریخ شمش و قمر کے نام سے شائع کی جاتی ہیں۔ حتی کہ رمضان المبارک 2014 ء کے ماہ میں بھی 5 ، 13 ، 14 ، 16 ، 20 ، 21 ، 24 ، 25 اور 26 نحس قمری تواریخ اور قمر دربرج عقرب کے ساتھ 10 ، 11 ، 12 جولائی شائع کیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کی ا یک کثیر تعداد شادیوں یا کوئی مبارک کام کو ان تاریخوں میں انجام دینا شروع کرنا منحوس سمجھتی ہے ۔ ان تواریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دیتے ہیں ۔ اس بارے میں صحیح رہنمائی فرمائیں۔ شریعت کے حکم سے آگاہ کریں تو بہت بہت مہربانی ہوگی۔
عبدالحکیم، محبوب نگر
جواب : اسلام میں کوئی سال ، کوئی مہینہ ، کوئی دن ، کوئی رات ، کوئی گھڑی منحوس نہیں ۔ یہ مسلمان کا حتمی عقیدہ ہے کہ ہر خیر و شر نفع و نقصان ، مرض و شفاء کا مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ اس کی اذن و اجازت کے بغیر کسی شئی میں کوئی اثر و تاثیر نہیں۔ قمر دربرج عقرب ایک اصطلاح ہے اس کو منحوس سمجھنا غیر اسلامی ہے۔ کسی بھی کیلنڈر میں نقل کردہ تواریخ کو منحوس جان کر شادی بیاہ اور خوشی کی تقاریب کا اہتمام نہ کرنا اور کرنے کی صورت میں نقصان اور بدشگونی کا خیال کرنا قابل اصلاح ہے۔ مسلمان کا عقیدہ اور اعتقاد نہایت عالی اور بلند ہے ۔ اس میں توہمات اور اوہام پرستی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔

شادی سے قبل عاقدہ کے ہاتھ کا کھانا تناول کرنا
سوال : میری بیوی سے میں شادی سے پہلے ان کے ہاتھوں سے پکایا ہوا کھانا وغیرہ کھایا کرتا تھا اور اب میں ماں باپ بھائی بہن سے دور رہ کر کاروبار کے نام پر بیوی ، ساس ، سالی وغیرہ کے ساتھ رہ رہا ہوں تو لوگ مجھے دیکھنا پسند نہیں کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں آپ کا نکاح درست نہیں ہے کیونکہ آپ نے شادی سے پہلے ان سے خدمت لی پھر ساس سالی سے پردہ نہیں کیا تو ایسے میں مجھے کیا کرنا ہے ۔ شریعت کیا کہتی ہے ، کیا میں نکاح دوبارہ پڑھالوں ؟
علی بابا ، کرناٹک
جواب : شادی سے قبل عاقدہ سے شرعی پردہ لازم ہے۔ البتہ عاقدہ کے ہاتھ کا تیار کردہ کھانا تناول کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ۔ اگر پردہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا تو بے پردگی کا گناہ ہوگا ، توبہ کرنی چاہئے ۔ تاہم اس کی وجہ سے رشتہ نکاح پر کوئی اثر واقع نہیں ہوا ۔ تجدید نکاح کی ضرورت نہیں۔ سوال میں ذکر کردہ افراد کا دعویٰ شرعاً معتبر نہیں۔ نیز سالی غیر محرم ہے اس سے پردہ ضروری ہے ۔ ساس محارم میں داخل ہے ۔ نکاح سے قبل ساس اور سالی سے بے پردگی درست نہیں۔

معاملہ طئے کر کے فسخ کرنا
سوال : ہمارے ایک رشتے دار سے مکان کی خریدی کا معاملہ مقرر ہوا ، آج سے 16 ماہ پہلے ہم نے بیعانہ 80,000 دیا ہے ۔ آج 16 ماہ بعد ہمارے رشتہ دار مکان بیچنے سے انکار کر رہے ہیں ۔ شرعی حوالہ سے ہم کیا کریں۔ جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں، بڑی مشکل ہے۔
حافظ شیخ حبیب الدین، سلطان شاہی
جواب : اگر خرید و فروخت کے معاملہ کو طئے پانے کے بعد فسخ کیا جائے تو اصطلاح فقہ میں ’’اقالہ‘‘ کہلاتا ہے اور ’’اقالہ ‘‘ شرعاً جائز ہے ۔ فروخت کنندہ پر اپنے معاملہ کی پاسداری ضروری ہے اور ان کو ا پنے عہد و وعدہ کا پابند ہونا چاہئے ۔ لقولہ تعالیٰ اوفوا بالعھد ان العھد کان مسئو ولا (قرآن ) اپنے معاہدہ کو پورے کرو کیونکہ قیامت میں تم سے معاہدہ سے متعلق باز پرس ہوگی۔ اگر آپ نے معاہدہ کے شرائط میں سے کسی شرط کی تکمیل نہیں کی تو ان کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہے۔

بیرونی مائیک کا استعمال
سوال : الحمدللہ ۔ اللہ رب العزت کا بے انتہا فضل و کرم ہے کہ قدیم شہر حیدرآباد میں خصوصاً اور پورے شہر و مضافات میں عموماً سینکڑوں نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ سو دو سو قدم کے فاصلے سے بھی الحمد للہ مساجد ہیں۔ ہر مسجد میں اذان پنجوقتہ کے علاوہ اذان جمعہ اور قبل نماز جمعہ اردو میں بیان اور عربی میں خطبہ جمعہ اور پوری نماز قرات جہری و تکبیر انتقالات بھی مساجد کے باہر کے لاؤڈ اسپیکر پر ہی بڑی آواز سے ادا کی جاتی ہیں جبکہ قرأت کی سماعت اور تکبیر انتقالات کے سننے کے مکلف صرف مسجد میں موجود مقتدی ہی ہوتے ہیں نہ کہ پورا محلہ اور راہ گیر بیان اور خطبہ قریب قریب کی کئی مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کی آوازوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے مساجد کے باہر نہ صاف سنائی دیتا ہے نہ سمجھ میں آتا ہے ۔ خطیب صاحبین ائمہ کرام اور حفاظ صاحبین بھی مسائل آداب تلاوت سے عوام سے زیادہ واقف ہوتے ہیں ۔ حکم تو یہ ہے کہ اگر مسجد میں کوئی نفل نماز بھی پڑھ رہا ہو تو تلاوت قران مجید دھیمی آواز سے کی جائے تاکہ نماز میں خلل نہ ہو۔ بڑی آواز سے بیان خطبہ اور قرات کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنے والی خو اتین اور نوافل یا تلاوت یا ذ کر و اذکار کی ادائی میں بے حد خلل واقع ہوتا ہے ۔ یہ سلسلہ اذان اولیٰ سے لیکر دن کے تین بجے کے بعد تک جاری رہتا ہے کیونکہ قریب قریب کی مساجد میں وقت کے فاصلے سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ نماز کے بعد سلام بھی لاؤڈ اسپیکر پر ہی پڑھا جاتا ہے جس میں بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک آتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والا سخت گنہگار ہوتا ہے ۔ ایک اور قابل توجہ امر یہ ہے کہ محلہ کالا پتھر علی باغ کی کسی مسجد سے رات دو بجے سے چار بجے تک انتہائی بلند آواز میں بلا وقفہ نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ رات کے سناٹے کی وجہ سے آواز کافی دور تک جاتی ہے ۔ ایسے میں جو لوگ قبل سحر نماز تہجد پڑھنا چاہیں یا کاروباری مسلمان سحر کے وقت تک آرام کرنا چاہیں تو بڑا خلل واقع ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں حوائج ضروریہ کا مسئلہ بھی ہے کیونکہ حمام و بیت الخلاء میں بھی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
میر مخدوم علی، بہادر پورہ
جواب : مسجد میں بوقت ضرورت آلۂ مبکر ا لصورت (لاؤڈ اسپیکر) کا استعمال مسجد میں موجود حاضرین کیلئے ہونا چاہئے اور حاضرین تک ہی محدود رہنا چاہئے ۔ بیرونی مائیک کو کھولنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ بیرونی اسپیکر کھول کر گھر اور بازار میں مصروف افراد کو سنانا ، قرآنی آیات کی تلاوت کرنا ، نعت شریف پڑھنا وعظ و بیان کرنا عظمت و حرمت کے خلاف ہے ۔ قرآن مجید کی تلاوت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کے وقت عوام کی بے التفاتی و بے توجہی کا وزر اور وبال بیرونی لاؤڈ اسپیکر کھولنے والوں پر رہے گا ۔ دین کے نام پر کسی فرد کو تکلیف دینے کی شرعاً اجازت نہیں جو خواہشمند ہوں گے وہ خود مسجد میں آکر سماعت کریں گے۔

مروہ سے سعی کا آغاز کرنا
سوال : میں اس سال عمرہ کیلئے گیا تھا ، طواف کے بعد میں مروہ سے داخل ہوا اور مروہ سے میں نے اپنی سعی کا آغاز کیا اور سات چکر مکمل کرلئے ۔ بعد ازاں میرے دوست نے کہا کہ تمہاری سعی صحیح نہیں ہوئی کیونکہ سعی کا آغاز صفا سے کرنا چاہئے تھا ۔ اس کے بعد ایک دوست نے مشورہ دیا کہ تم مزید ایک چکر مروہ سے صفا اور صفا سے مروہ کرلو ۔ انشاء اللہ تمہاری سعی ہوجائے گی ۔ ان کے کہنے کے مطابق میں نے صفا سے دوبارہ سعی کا آغاز کیا ۔ مروہ پہنچ کر پھر مروہ سے صفا کو گیا ۔ اس طرح میں نے سعی مکمل کی ۔ واپسی کے بعد سے میرے دل میں خلش ہے ۔ اگر آپ اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں تو باعث تشکر۔
محمد عرفان حان ، آصف نگر
جواب : شرعاً سعی کا آغاز صفا سے کرنا چاہئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد اور عمل دونوں کے ذریعہ صفا سے سعی کا آغاز کرنے اور مروہ پر ختم کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے ، جب آیت کریمہ ’’ ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ (یعنی صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) کا نزول ہوا تو صحابہ کرام نے عرض کیا ہم سعی کا آ غاز صفا سے کریں یا مروہ سے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابدوا بما بدأ اللہ بہ ۔ اللہ تعالیٰ نے جس سے آغاز فرمایا اسی سے آغاز کرو (یعنی آیت کریمہ میں صفا کا ذکر پہلے ہے اس لئے آغاز اسی سے کرنے کا حکم ہے)
اگر کوئی شخص ترتیب کو بدل دے اور صفا کے بجائے مروہ سے سعی کا آغاز کرے تو اس پر مزید ایک چکر یعنی صفا سے مروہ تک لازم ہوگی۔ اگر وہ ایک چکر مکمل کرلے تو سعی کے سات چکر مکمل ہوکر واجب ادا ہوجائے گا۔ بدائع الاصنائع جلد دوم کتاب الحج ص : 319 میں ہے : ولنا ان الترتیب ھھنا مأموربہ لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم و فعلہ
اما قولہ فلما روی انہ لما نزل قولہ عز و جل ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ قالوا بأیھما نبدأیا رسول اللہ فقال صلی اللہ علیہ وسلم ابدا وابما بدأ اللہ بہ واما فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم فانہ بدأ بالصفا و ختم بالمروۃ و افعال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مثل ھذا موجبۃ لما تبین … فاذا بدأ بالمروۃ الی الصفا لا یعتد بذلک الشوط فاذا جاء من الصفا الی المروۃ حتی یتم سبعۃ ۔
پس آپ کی سعی مکمل ہوگئی، صرف ایک چکر کافی تھی۔ دوسری چکر کی ضرورت نہ تھی۔