غیر حاجی کا قربانی کے بعد حلق کرنا

غیر حاجی کا قربانی کے بعد حلق کرنا
عورت کی قربانی میں شوہر کا نام لینا یا والد کا
سوال : قربانی کے بارے میں عوام الناس میں عموماً یہ خیال ہے کہ جب صاحب قربانی اپنی طرف سے قربانی کردے تو وہ قربانی کے بعد اپنے بال نکال لے۔ بعض حضرات کی جانب سے یہ بات مشہور کروائی جارہی ہے ۔ شرعی نقطہ نظر سے آپ بیان فرمائیں کہ ہر صاحب قربانی پر بعد قربانی بال کم کرنا یا پورے بال نکالنا ضروری ہے یا نہیں؟ دوسری الجھن یہ ہے کہ جب کسی شادی شدہ خاتون کی جانب سے قربانی کی جائے تو اس کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام لینا چاہئے یا اس کے شوہر کا یا اس کی والدہ کا۔
محمد عبدالرحمن ، چار چمن
جواب : شرعاً حاجی کیلئے بعد قربانی حلق یا قصر کا حکم ہے ۔ غیر حاجی صاحب قربانی کیلئے پورے سر کے بال نکالنا یا بال کم کرنا نہیں ہے۔ نیز قربانی میں صاحب قربانی کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام لیا جائے ۔ خواہ مرد ہو یا عورت اور یہ حکم صرف صاحب قربانی کی تعیین کیلئے ہے جو نام سے بھی متعین ہے۔

دوران خطبہ چھینکنے والے کا الحمدللہ کہنا
سوال : بسا اوقات جمعہ کے خطبہ دوران چھینک آجاتی ہے ، ایسے وقت میں الحمدللہ کہنا چاہئے یا نہیں جبکہ یہ بات مشہور ہے کہ خطبہ کے دوران سرکار کا نام مبارک آئے تو درود نہیں پڑھنا چاہئے تو کیا چھینکنے والے پر الحمدللہ کہنا ضروری ہے یا نہیں ؟
نام ندارد
جواب : جب خطیب خطبہ کیلئے نکلے تو لفجوائے حدیث شریف نہ کوئی نماز ہے اور نہ کلام کرنا ہے ۔ دوران خطبہ ہمہ تن گوش ہوکر خطبہ سننا لازم ہے۔ دوران خطبہ بات چیت حتی کہ ذکر و اذکار بھی منع ہیں اس لئے اگر کسی شخص کو خطیب کے خطبہ دیتے وقت چھینک آجائے تو اس پر شرعاً ’’الحمدللہ‘‘ کہنا نہیں ہے ۔ تاہم صحیح قول یہی ہے کہ ایسا شخص دل میں الحمد للہ کہہ لے۔ بدائع الصنائع جلد اول ص : 404 میں ہے : واماالعاطس فھل یحمد اللہ تعالیٰ؟ فالصحیح : انہ یقول ذلک فی نفسہ لان ذ لک لما لا یشغلہ عن سماع الخطبۃ۔

نکاح کے فوری بعد ولیمہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین ان مسائل میں کہ شریعت میں بعد از نکاح جو تقریب/ طعام و غیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ آیا وہ تقریب ولیمہ میں داخل ہے؟ اور ولیمہ کس دن کرنا سنت ہے ۔ کیا ولیمہ کیلئے صحبت شرط ہے؟ کیا نکاح کے دن ولیمہ کیا جاسکتا ہے ؟ بلا لحاظ استطاعت کتنے افراد کیلئے ولیمہ کی تقریب کرنا چاہئے؟ ولیمہ کی تقریب کا سنت طریقہ کیا ہے ؟
نام …
جواب : ایجاب و قبول کے بعدجب میاں بیوی کے درمیان ملاپ (صحبت یا خلوت صحیحہ) کی خوشی میں جو تقریب منعقد ہوتی ہے اس کو ولیمہ کہتے ہیں ۔ ولیمہ مسنون ہے ۔ نکاح کے بعد قبل از بناء (ملاپ) جو دعوت ہوتی ہے اس پر مسنون ولیمہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ولیمہ کیلئے صحبت شرط نہیں ۔ میاں بیوی کا تنہائی میں ملنا کافی ہے۔ دلہا حسب استطاعت ولیمہ کا اہتمام کرسکتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے کیوں نہ ہو۔

رضاعی ماموں کے لڑکے سے نکاح
سوال : رضیہ بیگم اپنے بھانجے (ایاز خان) کو مدت رضاعت میں دودھ پلایا تھا۔ رضیہ بیگم کی چھوٹی بیٹی (کنیز بیگم) کی لڑکی زینب سے ایاز خان کے لڑکے اکرم خان کا نکاح درست ہے یا نہیں ؟
نام …
جواب : کنیز بیگم کی لڑکی زینب کا نکاح کنیز بیگم کے رضاعی بھائی ایاز خان (لڑکی کے رضاعی ماموں) کے لڑ کے اکرم خان سے شرعاً جائز ہے ۔
غیر مسلم سے شادی کے سبب مسلمان لڑکی کی نماز جنازہ
سوال : اگر کوئی مسلم لڑکی اپنی مرضی سے غیر مسلم سے شادی کرلے اور وہ پھر مرجائے تو کیا شرعی طریقے سے نماز جنازہ پڑھنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا درست ہے؟
ای میل
جواب : کوئی مسلمان لڑکی غیر مسلم سے شادی کرے لیکن اسلام پر قائم رہے۔ کفریہ ، شرکیہ کوئی عمل و حرکت نہ کرے تو اس کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس کا غیر مسلم سے تعلق زن و شوہر قائم کرنا فسق و فجور اور سنگین جرم ہے جو کہ شرعاً حرام اور زنا ہے ۔ اسلامی ملک ہو تو حد شرعی کی مستحق ہے۔ باوجود گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے اسلام پر موت ہوئی ہے تو نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اگر اس نے غیر مسلم سے نکاح کو حلال سمجھ کر شادی کی تھی اور اس سے توبہ نہیں کی، تاحیات ناجائز رشتہ کو حلال سمجھتی رہی یااسلام سے مرتد ہوکر انتقال کی ہے تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
ایک طلاق کے بعد مزید دو طلاق دینا
سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے خارج کردیا ۔ بعد میں لڑکی والوں کی جانب سے اصرار بڑھ گیا کہ دوبارہ شادی کی جائے کیونکہ اس کی گنجائش ہے لیکن لڑکا قطعاً آمادہ نہ تھا اس لئے اس نے دوسری اور تیسری طلاق دے دی ۔ اب جب کہ وہ عورت اس کی زوجہ باقی نہ رہی اور زوجیت سے خارج ہوچکی ہے ۔ ایسی صورت میں کیا مزید دی گئی طلاقیں واقع ہوں گی یا نہیں ؟ اس بارے میں شرعی احکام بیان فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ۔
نام مخفی
جواب : طلاق کے واقع ہونے کیلئے عورت کا طلاق دہندہ کے نکاح میں ہونا یا عدت طلاق میں ہونا شرط ہے۔ البحرالرائق جلد 3 ص : 414 میں ہے : واما شرطہ فی الزوج فالعقل والبلوغ و فی الزوجۃ ان تکون منکوحتہ او فی عدتہ التی تصلح معھا محلا للطلاق وھی المعتدۃ بعدہ الطلاق۔ مخفی مبادکہ فقہاء نے مدخول بھا بیوی کو تین طھر میں دی جانی والی بالترتیب تین طلاق کو طلاق حسن سے تعبیر کیا ہے ۔ نیز قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ میں دو طلاق رجعی کے بعد اندرون عدت رجوع کرلینے یا چھوڑنے کی صراحت ہے، جس سے واضح ہے کہ عورت، عدت طلاق میں بھی طلاق کا محل باقی رہتی ہے اور عدت گزر جائے تو وہ طلاق کا محل باقی نہیں رہتی کیونکہ بعد ختم عدت بیوی شوہر کے بالکلیہ نکاح سے خارج ہوجاتی ہے۔ ردالمحتار جلد 2 ص : 481 میں ہے : (قولہ بشرط العدۃ) ھذا الشرط لابدمنہ فی جمیع صور الالحاق فالاولیٰ تاخیرہ عنھا۔
لہذاشوہر نے عدت طلاق(غیر حاملہ کیلئے تین حیض اور حاملہ کیلئے وضع حمل) کے دوران مزید دو طلاقیں دی ہیںتو مزید دو طلاق واقع ہوکر دونوں میں تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا۔ اب وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرلے سکتے اور اگر دو طلاقیں بعد ختم عدت دی گئی ہیں تو شرعاً اس کا اعتبار نہیں۔
عرفہ میں مقیم حاجی اور ظہر، عصر کی نماز
سوال : حج کے دوران عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز کس طرح ادا کرنی ہوگی۔ برائے کرم تفصیل سے بتائیں ؟ کیا یہ نماز قصر ہوگی ؟
محمد افضل
جواب : حاجی اگر میدان عرفات میں قیام کے وقت مسافر ہو تو وہ قصر کرے گا ، ورنہ مکمل نماز ادا کرے۔
مسافر حاجی مسجد نمرہ میں بوقت ِ ظہر پہنچ جائے تو امام صاحب پہلے دو رکعت ظہر کے پڑھائیں گے ۔ سلام پھیرتے ہی پھر اقامت ہوگی اور امام صاحب دو رکعت (ظہر ہی کے وقت میں) عصر کے پڑھائیں گے۔ اس میں ظہر کے بعد کی سنتیں نہیں پڑھیں گے جو حاجی مقیم ہو (یعنی حج سے قبل اس کا مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام ہو) تو وہ مسجد نمرہ نہ جائے کیونکہ اس کو ظہر کی چار رکعت پڑھنی ہے اور مسجد میں امام دو رکعت پڑھاتا ہے۔ اس لئے مقیم حاجی اپنی قیام کی جگہ ظہر کے وقت ظہر کی فرض و سنتیں پڑھیں۔ پھر عصر کا وقت شروع ہونے کے بعد چار رکعت عصر کے پڑھے۔

نماز جنازہ پڑھانے کیلئے وصیت کرنا
سوال : ایک مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں پہلے سے جنازہ موجود تھا ، میں نے چاہا کہ نماز جنازہ کے بعد اپنے کام کیلئے چلے جاؤں گا، بڑا افسوس ہوا کہ میت رکھی ہوئی ہے اور نماز جنازہ پڑھانے کیلئے تکرار ہورہی تھی۔ بعض افرادِ خاندان کا کہنا تھا کہ مرحوم نے ایک اپنے عزیز کو نماز جنازہ پڑھانے کے لئے وصیت کی تھی ، جبکہ وہ صاحب اس وقت موجود نہیں تھے ، ان لوگوں کا اصرار تھا کہ وہ صاحب آنے تک نماز جنازہ نہ پڑھی جائے ، تاہم مرحوم کے فرز ند نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام صاحب کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دیدی ۔ معلوم کرنا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انتقال سے قبل وصیت کرے کہ فلاں شخص اس کی نماز جنازہ پڑھائے تو کیا اس شخص کا ہی نماز جنازہ پڑھانا ضروری ہے یا اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں ؟
محمد فاروق قریشی، آصف نگر
جواب : اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں وصیت کرے کہ بعد وفات وہ اس کی نماز جنازہ پڑھائے تو شرعی لحاظ سے ایسی وصیت کی تعمیل ضروری نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 163 میں ہے ۔ وفی ا لکبری ا لمیت اذا اوصی بأن یصلی علیہ فلان فالو صیۃ باطلۃ و علیہ الفتوی کذا فی المضمرات۔
نفل روزوں کا کفارہ، نفل اعتکاف، عقیقہ
سوال : میرے تین متفرق سوالات ہیں، امید ہے کہ آپ اپنے صفحے میں شامل فرمائیں گے ۔ شوال کے نفل روزوں کا کفارہ وہی ہوگا جو رمضان کے فرض روزوں کا ہوتا ہے چونکہ شوال کے روزوں کے فرائض وہی ہیں جو رمضان کے روزوں کے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں عصر سے مغرب تک جائے نماز پر ذکر کرنے سے اعتکاف ہوجاتا ہے کیا یہ صحیح ہے؟ عقیقہ کرنا سنت ہے یا واجب ؟ برائے مہربانی ان سوالات کو آپ کے صفحے میں جلد شامل فرمائیں۔
مطھر سلطان، ٹولی چوکی
جواب : فرض روزے عمداً توڑنے سے کفارہ لازم آتا ہے۔ اس کے برخلاف نفل روزہ عمداً ترک کرنے سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا ۔ البتہ اس روزہ کی قضاء لازم رہے گی۔ لہذا اگر کوئی شوال کے نفل روزوں کو توڑدے تو اس پر شرعاً کوئی کفارہ نہیں۔ ایک روزہ کی قضاء لازم رہے گی۔
– 2 شریعت مطھرہ میں مسنون اعتکاف رمضان المبارک کے آخری دہے کا ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی مختصر وقت کیلئے اعتکاف کی نیت کرے تو وہ نفل اعتکاف ہوگا اور نفل اعتکاف کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔
– 3 عقیقہ کرنا شرعاً مسنون و مستحب ہے۔ فرض یا واجب نہیں۔