غوث خواہ مخواہ کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نئے رجحانات اور نئے تجربے

ڈاکٹر ضامن علی حسرت
طنز و مزاح بظاہر تو آسان سی صنف معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سنگلاخ میدان ہے اور اس میں قہقہوں کے گل کھلانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ آج کی روتی بسورتی دنیا میں مسکراہٹوں اور قہقہوں کا بڑا کال ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی قلمکار اپنے مزاح کے ذریعہ لوگوں میں قہقہوں اور مسکراہٹوںکو تقسیم کرتا ہے تو اس سے بڑا کارخیر اور کیا ہوسکتا ہے ظرافت ایک دو دھاری تلوار کا نام ہے جس کی ایک دھار مزاح ہے تو دوسری طنز ہے ۔ اسی لئے مزاح نگار کو کافی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے ۔ سامعین اور قارئین کی طبع نازک اور حس مزاح جیسے رموز کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے ۔ اگر اس عمل میں ذرا سی بھی چوک ہوجائے تو ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے اور طنز و مزاح اپنے معیار سے گر پر پھکڑپن اور بھدے پن میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ طنز و مزاح ظرف کے اعتبار سے ایک سمندر ہے یہ جتنا گہرا ہوتا ہے سطحی طورپر اتنا ہی پرسکون نظر آتا ہے جس کو مٹھیوں میں سمیٹا نہیں جاسکتا ۔ اس سے لطف اندوز ہونے کیلئے اس کی عمیق ترین گہرائیوں میں ڈوبنا ضروری ہے ۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کی ابتداء ہجویہ شاعری سے ہوئی جو دراصل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جذبہ کے تحت وجود میں آئی تھی ۔
نامور نقاد و دانشور نثار احمد فاروقی اپنے مضمون ’’اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت‘‘ میں طنز و مزاح سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’طنز و مزاح کاتعلق معاشرت کے مسائل سے ہے جب تک انسان کا شعور اتنا بالغ نہ ہو کہ وہ صرف گردو پیش کی بے ہنگم باتوں پر ہنس سکے بلکہ خود اپنا بھی خاکہ اڑاسکے اس وقت تک وہ طنز و مزاح کی روح کو سمجھ نہیں سکتا ۔ طنز و مزاح بے معنی ہنسی کا نام نہیں ہے یہ گہرے عرفان ذات یا معاشرہ کے شعور سے پیدا ہوتا ہے‘‘ ۔

نامور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی مختلف کتابوں کے دیباچوں میں طنز و مزاح اور اس کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بڑے پرمغز و دلچسپ انداز میں تبصرہ کیا ہے وہ اپنی اولین کتاب ’’چراغ تلے‘‘ کے دیباچے ’’پہلا پتھر‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’عمل مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتی ہیرا بن جاتا ہے‘‘ ۔
تہذیب و معاشرے کے مجہول اور اس کی خامیوں اور ناہمواریوں کا ہمدردانہ جائزہ لے کر اس کو سچائی اور صداقت کے ساتھ واضح کردینا ہی ایک طنز و مزاح نگار کا اولین فرض ہوتا ہے ۔ طنز و ظرافت میں شوخی و ذہانت اور مبالغہ ان تین چیزوں کا اشتراک لازم ہے ۔ایک کامیاب و باصلاحیت تخلیق کار ان ہی چیزوں سے قاری کو ہنسنے پر مجبور کرسکتا ہے ۔
طنز و مزاح کے قلم کارں نے اپنی تخلیقات میں ہمیشہ ہی عصر حاضر کے سماجی مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہوئے سوئے ہوئے سماج کو جگانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہے ہیں ۔
نامور طنز و مزاح کے قلم کاروں نے ہمیشہ ہی اپنی سماجی ذمہ داریوں کو بڑی جانفشانی کے ساتھ انجام دیا ہے ۔ طنز و مزاح کے ان فنکاروں میں مزاح نگار ، ادیب اور شعراء حضرات سبھی شامل ہیں ۔ اپنے بے باک ، بے لاگ اور بے خوف قلم کے ذریعہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ہے ۔ دور حاضر کا کوئی بھی سماجی مسئلہ ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا ۔ ادھر کسی مسئلہ کا جنم ہوا ادھر ان کے قلم نے حرکت کی ۔ اردو طنز و مزاح کے ادب کو کسی بھی لحاظ سے دوسرے ادب سے کم تر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
طنز و مزاح کے ادباء کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کے شعراء نے بھی عصر حاضر کے سماجی مسائل کواپنا موضوع بناتے ہوئے اپنی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے ذریعہ سماج کی بہترین خدمت انجام دی ہے اور دے رہے ہیں ۔ میں اپنی گفتگو طنز و مزاح کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر جناب غوث خواہ مخواہ کے اشعار کے حوالے سے کرنا چاہوں گا جس میں غوث خواہ مخواہ نے عصر حاضر کے سماج میں رونما ہونے والے مسائل ، دشواریوں اور ناہمواروں کو اپنی بہترین طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں پیش کیا ہے ۔ غوث خواہ مخواہ دور حاضر میں اردو زبان کی مٹتی ہوئی تہذیب پر فکر مند نظر آتے ہیں ۔ اور وہ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آج کی نوجوان نسل کو حوصلہ دے کر وہ اس زبان کو فروغ دینے اور اسے زندہ رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔ اپنے ان ہی احساسات و جذبات کو وہ اپنی شاعری میں کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں ۔

کرتے ہیں ہم حفاظت ورثیہ تہذیب اردو کی
خدایا کاش آجائے یہ جذبہ نوجوانوں میں
قیامت تک سدا آتی رہیں گی دیکھ لیں گے سب
اذانیں اور اردو کی صدائیں سب کے کانوں میں
عصر حاضر کا ایک اہم مسئلہ آئے دن رونما ہونے والے فسادات اور ان کی آڑ میں ہونے والی لوٹ مار ، قتل و غارت گری ، ظلم و تباہی اور بربریت بھی ہے ۔ غوث خواہ مخواہ عصر حاضر کے اس ناسور کے تعلق سے لکھتے ہیں ۔
الہی خیر ہو امن و امان کی اب یہ حالت ہے
محافظ قید میں ہیں شہر لٹ جانے کا خطرہ ہے
اسی سلسلہ میں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ کریں
کبھی خود اپنا نام ونشاں بدلتے رہے
جو رہنما بھی ملے کارواں بدلتے رہے
تمام عمر فقط امن کی تلاش میں ہم
کرایہ دار کی طرح مکان بدلتے رہے
عصر حاضر کے سماجی مسائل میں جہیز بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سماج کا یہ ایک ایسا ناسور ہے جس پر لاکھ کوششوں کے باوجود بھی مکمل طور سے قابو پایا نہ جاسکا ۔ جہیز کی لعنت آج بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے چھوٹے گاؤں اور دیہاتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ غوث خواہ مخواہ جہیز کی چوکھٹ پر آئے دن قربان کی جانے والی معصوم لڑکیوں کی قربانی پر رنجیدہ نظر آتے ہیں اور اپنے جذبات و احساسات کو اپنے شعروں میں کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں ۔

کل اپنی بھی ایسی جل گئی تو معلوم ہوتا ہے
بہو کی ناحق جان جلارئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں
جہیز سے متعلق ان کا ایک اور قطعہ ملاحظہ کریں
ہر کسی میں من چاہی خوبیاں نہیں ہوتیں
کون ہے وہ جس میں کچھ خامیاں نہیں ہوتیں
کیا کریں وہ جن کے گھر خواہ مخواہ نصیبوں سے
بیٹیاں تو ہوتی ہیں شادیاں نہیں ہوتیں
غوث خواہ مخواہ کی شاعری کا ایک اہم موضوع سیاست اور سیاستداں بھی ہیں ۔ سیاست کے نام پر ہمارے رہنما مختلف فرقوں کو آپس میں لڑوادیتے ہیں ، معصوم لوگوں کی بستیوں کو جلادیتے ہیں ، دنگے فساد کرواتے ہیں ، بے گناہ معصول لوگوں کا بے وجہ لہو بہاتے ہیں اور پھر بڑی چالاکی سے لوگوں کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم بھی رکھتے ہیں ۔ پہلے تو بستیاں جلاتے ہیں اور ان ہی بستی والوں میں تھوڑی سی خیرات بانٹ کر مسیحا بن جاتے ہیں ۔ رہنماؤں نے سیاست کو مستقل طور پر اپنا دھندہ بنالیا ہے ۔ غوث خواہ مخواہ اور دور حاضر کے ایسے ہی مکار ،دغا باز اور بے ایمان سیاستدانوں کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے غم وغصہ کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
ابھی تو خود غرض نیتا ان ہی سے ہاتھ سیکیں گے
بہت سردی ہے جلتی بستیوں کو مت بجھادینا
عصر حاضر کی آلودہ سیاست سے متعلق غوث خواہ مخواہ آگے فرماتے ہیں۔
بغاوت جیسے شوریدہ سری کی آخری حد ہے
ادا و ناز و عشوہ دلبری کی آخری حد ہے
یہ کیسا کارواں ہے خواہ مخواہ اہل سیاست کا
یہاں تو رہزنی ہی رہبری کی آخری حد ہے
فیشن بھی موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ ہے ۔ فیشن کا بڑھتا ہوا رجحان خواتین کو سادگی سے دور کررہا ہے ۔ عصر حاضر میں بے شمار خواتین بہتر نظر آنے کی خاطر اپنے اچھے خاصے چہروں پر میک اپ لگا کر اسے بگاڑ لیتی ہیں ۔

حسن صورت پہ مرتا تھا میں کتنی سیدھی سادی تھی
اس پو میک اپ کرکے جارئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں
منہ پو میک اپ تھوپ کو جاتی عمر کے پیچھے مت بھاگو
گئی سو جوانی پھر آتی نئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں
آج کی فلموں میں بے ہودگی اور بے شرمی بے حد عام ہوگئی ہے ۔ آج کی نوجوان نسل بہت جلد ان چیزوں سے متاثر ہو کر خامیوں اور برائیوں کی جانب راغب ہورہی ہے ۔ فلموں کی بے ہودگی اور فحاش گانوں پر طنز کرتے ہوئے اپنے دکنی لب و لہجہ میں کہتے ہیں۔
اچھے اچھے فلماں دیکھو کتنا کتنا سمجھایا
گندے فلماں دیکھ کو آرئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں
اس کے پیچھے کیا ہے کی اور اس کے پیچھے کیا ہے کی
ایسے ویسے گانے گارئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں
غوث خواہ مخواہ کے شانہ بہ شانہ طنز و مزاح کے دیگر نامور شعراء اور ادیب بھی اپنے قلم کے ذریعہ عصر حاضر کے سماجی مسائل کو منظر عام پرلانے اور اس گندگی کوسماج سے مٹانے میں اپنا اہم رول ادا کررہے ہیں ۔ مستقبل میں بھی عصر حاضر کے سماج کو راہ راست پر لانے کیلئے طنزیہ و مزاحیہ ادب بے حد کارگر ثابت ہوسکتا ہے ۔