غریب عوام کی قوت مدافعت

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
انسان کو اپنی ذات میں کوئی خرابی ہی نظر نہیں آتی خاص کر جب وہ کسی خاص یا اعلی عہدہ پر فائز ہو تو اسے اپنے سوا ہر چیز خراب دکھائی دیتی ہے ۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈوکو اس طرح کے انسانوں کی صف میں کھڑاکرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے تکبر کی وجہ سے تلنگانہ میں برقی بحران پیدا ہورہا ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ سے پرانی پرخاش کے نتیجہ میں تلنگانہ کے عوام کو کئی مسائل سے دوچار ہونا پڑرہا ہے ۔ ایک مسئلہ برقی کا ہے آگے چل کر پانی اور چاول کا مسئلہ پیدا ہوگا ۔ کے چندر شیکھر راو کے رویہ سے بھی اب تکبر جھلکنے لگا ہے اس لئے وہ اپنی پالیسیاں اور منصوبے اس ٹھاٹ سے بیان کررہے ہیں جیسے وہ ان پر فوری عمل کرکے انتخابی وعدوں کو پورا کریں گے ۔ ان دنوں دونوں ریاستوں کے چیف منسٹرس اور ان کے حواریاں حالات سے بیخبر دکھائی دے رہے ہیں ۔ صرف اخبارات اور چیانلوں پر ان کے خوش کن بیانات آرہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ سنہرے ریاست کی گود سے بے خبر لے گا اور آندھرا میں دودھ کی ندیاں بہائی جائیں گی ۔ ان چیف منسٹرس کے بیانات اور حکمرانی کا طریقہ عوام کے ایک گوشے کہ ’’بے جا ضدیں‘‘ شخصیتوں کی انا پرستی عوام کو روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جارہی ہے۔

حکومت کے سامنے غریب عوام کی ’’قوت مدافعت‘‘ بھی آہستہ آہستہ اور آندھرا کے خود ساختہ عوامی و سیاسی رہنماؤں کے سیاسی حربوں کی وجہ سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ نے دلت خاندانوں کے لئے زرعی اراضی اسکیم کا اعلان کیا ، اب اس پر عمل آوری ان کے گلے میں اٹکی ہڈی بن رہی ہے کیوں کہ ریاست میں دلتوں کو دینے کے لئے سرکار کے پاس زرعی اراضی ہی نہیں ہے ۔ خانگی زمینات خرید کر دلتوں کو اراضی دینے کی اسکیم پر عمل آوری حکومت کے لئے مہنگا پڑرہا ہے ۔ فی ایکڑ 8 تا 10 لاکھ روپے میں خرید کرکے دلتوں کو زرعی اراضی دی جارہی ہے تو اس سے سرکاری خزانہ خلاص ہوجائے گا ۔ ضلع کلکٹرس کو ہدایت دی گئی ہے کہ سرکاری اراضیات کی عدم موجودگی پر وہ عوام الناس سے ان کی زرعی اراضیات خریدیں ۔ اس کے بعد خانگی افراد نے اپنی زمین کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے ۔ حکومت فی ایکڑ 3 لاکھ روپے ادا کرنا چاہتی ہے مگر ریاست میں اتنی سستی اراضی دستیاب نہیں ہے ۔ جن کے پاس اراضی ہے وہ 8 تا 10 لاکھ روپے ایکڑ سے اراضی فروخت کرنا چاہتے ہیں ۔ انتخابات میں کئے گئے وعدوں سے حکومت کی پہلی دلت پالیسی بھاری مصارف اور خزانہ کو خالی کرنے کا موقف بن رہی ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جو اپنے پاس ایس سی ایس ٹی اور اقلیتوں کی بہبود کا بھی قلمدان رکھتے ہیں ، دلتوں کو اراضی کی تقسیم کے لئے کوشاں ہیں مگر وہ کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ دلت افراد ہی بتائیں گے ۔ تلنگانہ میں دسہرہ تہوار کو بتکماں تہوار کے جذبہ کے ساتھ منایا گیا تو حکومت تلنگانہ نے سرکاری طور پر تہوار منانے کی ہدایت دی تھی جس کے بعد سرکاری دفاتر اور سرکاری سطح کے تمام اداروں میں بتکماں کھیلا گیا ۔ حکومت کے فرائض کی ادائیگی کا مرحلہ کب شروع ہوگا یہ کسی کو نہیں معلوم کیوں کہ چیف منسٹر نے تاخیر سے کام لینے کا حربہ اختیار کرلیا ۔

کئی وزارتیں خالی اور کئی نامزد عہدے بھی خالی ہیں ٹی آر ایس کے کئی قائدین کو کابینہ میں شمولیت کا بے صبری سے انتظار ہے مگر چیف منسٹر ان تمام ارکان اسمبلی کو بتکماں کے لئے انتظامات کرنے کی ذمہ داری دے کر ان کا ذہن کابینی قلمدان سے ہٹادینے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ وہ کابینہ میں توسیع اور دیگر کارپوریشنوں کے عہدوں پر اپنے خاص آدمیوں کا تقرر عمل میں لائیں ۔ ٹی آر ایس ایم ایل ایز اور لیڈروں کی نظریں کابینہ اور نامزد عہدوں پر ٹکی ہوئی ہیں کہ کب چیف منسٹر ان عہدوں اور قلمدانوں کو پُر کریں گے ۔ لیکن دسہرہ نے چیف منسٹر کو ایک بہانہ فراہم کردیا ہے تاکہ قلمدانوں کی آرزو رکھنے والے پارٹی قائدین کو مزید انتظار کی گھڑیاں گننے کا موقع دیا جائے ۔ کابینہ میں توسیع کا اعلان اور نامزد عہدوں پر تقررات کا فیصلہ ہنوز نہیں ہوا ۔ کے سی آر نے اگرچیکہ چند نامزد عہدوں پر تقررات عمل میں لائے ہیں جس میں تلنگانہ پریس اکیڈیمی کے سربراہ الم نارائنا ہیں جبکہ جی چکراپانی کو تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کا چیرمین بنایا گیا ۔ ریاستی نظم و نسق کو چار ماہ کی حکمرانی میں بھی موثر نہیں بنایا جاسکا تو عوام کو مختلف پریشانیوں کا سامناکرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا ہوگا کیوں کہ تلنگانہ حکومت میں سب سے زیادہ تکلیف دہ پریشانی برقی سربراہی میں کٹوتی ہے ۔ ماضی میں بھی آندھرائی قائدین نے تلنگانہ میں برقی کے مسئلہ کو سنگین بنایا تھا اس کا تسلسل نئی ریاست تلنگانہ میں پیدا کیا جارہاہے ۔ دنیا میں کسی بھی قوم کو ترقی کرنے کے لئے بنیادی انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے ۔

ان میں سخت گیر انفراسٹراکچر ، توانائی ، ٹرانسپورٹ ، پانی ، مواصلات اور سافٹ انفراسٹرکچر میں حکمرانی ؟ سماجی و لاء اینڈ آرڈر کی برقراری وغیرہ شامل ہیں مگر حکومتیں ان بنیادی چیزوںکو فراہم کرنے میں ناکام ہیں اور غریب عوام حکومتوں کے دھوکے کا شکار ہوتے ہیں ۔ شہر میں باقاعدہ برقی کٹوتی ہورہی ہے تو پھر حیدرآباد کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کا خواب اور وعدہ رفو ہوجائے گا ۔ آئی ٹی کے گڑھ والے شہر کو برقی کی ضرورت ہے لیکن مسلسل برقی کٹوتی کے بعد کئی کمپنیوں کے سربراہوں جیسے گوکل ، مائیکرو سافٹ اور ایموزن کو حیدرآباد میں حکومت کی لاپرواہی کا علم ہوجائے گا اور وہ اپنی سرمایہ کاری کا عمل روک دیں گے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اس مسئلہ پر جنگی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ آنے والے دنوں میں گریٹر حیدرآباد میں بلدی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ ٹی آر ایس کو شکست ہوتی ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ شہر میں حکمران پارٹی کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ اس نے حال ہی میں لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے مگر حیدرآباد کا مسئلہ الگ ہے ۔ گریٹر حیدرآباد میں بلدی حلقوں کا اضافہ بھی ہوگیا ہے ۔ حیدرآباد ، سائبرآباد اور سکندرآباد کو ملا کر 150 تا 200 کارپوریٹ حلقے ہوں گے ۔ جی ایچ ایم سی حدود میں تلگو دیشم کو بھاری ووٹ ملے ہیں اس لئے ٹی آر ایس کا شہر میں کوئی خاص اثر نہیں ہے تو بلدی کاموں میں دیگر پارٹیوں کا عمل دخل بڑھے گا اس سے رشوت ستانی کو زبردست ہوا ملے گا ۔ تلنگانہ میں موسم خشک چل رہا ہے بارش کی کمی یا نہ ہونے سے موسم نے حبس کا ماحول بنادیا ہے ۔ تبش اور برقی کی کٹوتی سے عوام پریشان ہیں لیکن ان کے مزاج میں ابھی تلخی نہیں آئی ہے اس لئے کے سی آر کی حکومت کو فی الفور کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ نئی ریاست تلنگانہ میں اس حبس زدہ سیاسی ماحول میں عوام یہی دعا کریں گے کہ ان کا یہ مہینہ بھی سکون سے گذر جائے مرکز میں نریندر مودی امریکہ کی سیر کرکے آچکے ہیں تو امریکہ کی مہمان نوازی پر وہ خوش ہو کر امریکہ کا شکریہ ادا کرچکے ہیں وہ ریاستوں کی جانب کب توجہ دیں گے اور تلنگانہ کے مسائل حل کرنے کے لئے کیا اقدامات کرنے والے ہیں غیر واضح ہے ۔ تلنگانہ کو خصوصی پیاکیج دینے کا مسئلہ کھٹائی میں پڑرہا ہے ۔ آندھرا پردیش بھی اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات کے حصول کے لئے کوشاں ہے مگر تلنگانہ کے ضمن میں مرکز نے ابھی تک کوئی ہمدردانہ قدم نہیں اٹھایا ۔ مرکزی امداد کے بغیر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو ترقیاتی اقدامات اور عوامی فلاحی کاموں کی انجام دہی میں رکاوٹ پیدا ہوگی ۔ خاص کر حیدرآباد میں انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کا کام سست روی سے دوچار ہوگا ۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات سے قبل حیدرآباد کے میئر کے خلاف قتل اور فسادات برپا کرنے کی کوشش کے الزامات کی فہرست سامنے آئی ہیکہ شہر کے 15 کارپوریٹر کے منجملہ 41 فیصد کارپوریٹرس پر فوجداری مقدمات درج ہیں ۔ سب سے زیادہ گوشہ محل کے بی جے پی ایم ایل اے راجہ سنگھ کے خلاف 18 کیس درج ہیں جو سابق کارپوریٹر بھی ہیں ۔ جس بلدیہ کو عوامی خدمات انجام دینے میں اس کے کارپوریٹرس مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں تو شہر حیدرآباد کو عالمی سطح کی ترقی دینے کا خواب پورا ہونا مشکل ہے ۔
kbaig92@gmail.com