غریبی عیب نہیں غریب ہونا بُری بات نہیں

 

محمد مصطفیٰ علی سروری
حبیب اللہ لشکر کا تعلق جنوبی پرگنہ مغربی بنگال سے ہے ۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران حکومت مغربی بنگال نے جب ریاستی سیول سرویسز کے کامیاب امیدواروں کا اعلان کیا تو اُن میں حبیب اللہ کا نام بھی شامل تھا ۔ حبیب اللہ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے ۔ حبیب کے والد سائیکل پر گھوم گھوم کر آئسکریم فروخت کرتے تھے ۔ چار سال پہلے حبیب کے بڑ ے بھائی کو جب نوکری مل گئی تو انہوں نے اپنے والد کو اس کام سے آرام دے دیا ۔ حبیب اللہ نے اپنے والد کی غریبی اور کمزور معاشی موقف کو اپنے تعلیمی سفر کے دوران رکاوٹ بننے نہیں دیا اور گریجویشن کرنے کے بعد بنگال سیول سرویسز کی تیاری کرنے لگے ۔ حالانکہ اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کیلئے حبیب نے نوکری بھی شروع کی مگر سیول سرویسز کے امتحانات سے آٹھ مہینے پہلے اس نے نوکری چھوڑ کر پوری توجہ سیول سرویسز کے امتحانات پر مرکوز کردی ۔ حبیب کی محنت کا مثبت نتیجہ بھی سامنے آیا اور اب حبیب کو مغربی بنگال کی حکومت میں گزیٹیڈ پوسٹ کی نوکری مل گئی ۔ حبیب اللہ نے نیوز 18 کو بتلایا کہ تعلیم ہی کو وہ تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں اور انہوں نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ اب دوسرے ضرورت مند طلباء کی امتحان کی تیاری میں مدد کریں گے ۔
قارئین اکرام حبیب اللہ کا تعلق مغربی بنگال کے اس مسلمان طبقے سے ہے جو بری طرح سے غریبی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ مغربی بنگال کی سیول سرویسز کے لئے جملہ (321) امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا جن میں سے 40 امیدوار مسلمان ہیں اور اس میں بھی خاص بات یہ کہ 33 مسلمان تحفظات کے زمرے میں کامیاب قرار پائے جبکہ صرف 7 امیدواروں نے جنرل زمرے میں کامیابی درج کی۔ بحوالہ (نیوز 18 اردو) حبیب اللہ نے غریبی کے دلدل سے باہر نکل آنے کیلئے تعلیم کو اپنے لئے سیڑھی بنایا ۔ صرف غریبی ہی نہیں دیگر مسائل سے نمٹنے کیلئے پریشان حال لوگوں کو تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ سمجھ میں آتا ہے جس کے توسط سے وہ مسائل کا نہ صرف سامنا کرسکتے ہیں بلکہ مسائل کے انبار سے بڑی آسانی سے باہر نکل سکتے ہیں۔
اپراجیتا رائے کا تعلق ایک پڑھے لکھے خاندان سے تھا ، والد فارسٹ آفیسر تھے اور ماں ایک ٹیچر تھی ۔ رائے کی عمر بمشکل 8 برس تھی جب ان کے والد چل بسے۔ اپنے والد کی موت کے بعد رائے کو احساس ہوا کہ ان کے سر سے صرف والد کا سایہ نہیں اٹھا بلکہ دنیا کے خود غرض لوگوں کے چہروں سے نقاب اتر گیا ۔ اپراجیتا رائے نے لوگوں کی اس بے حسی کو دیکھ کر طئے کرلیا کہ جس طرح کا سلوک اس کے ساتھ روا رکھا گیا ، وہ کسی اور کے ساتھ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ رائے خود پڑھ لکھ کر ایک بڑی افسر بننے کا فیصلہ کرلیا ۔ والد کی موت کے بعد پیش آئے حالات نے رائے کو کمزور نہیں بنایا بلکہ مزید قوت بخشی ۔ رائے نے محنت کر کے جی جان لگاکر اسکول کی تعلیم ختم کی اور جب اسکول کا نتیجہ سامنے آیا تو اپنی ریاست سکم میں رائے نے ٹاپ کیا اور اس کو ایوارڈس سے نوازا گیا۔ 2009 ء میں رائے نے دوبارہ امتحان لکھا تو اس کو 768 واں رینک آیا ۔ رائے اپنے اس رینک سے خوش نہیں تھی ۔ اس نے سال 2011 ء میں دوبارہ سیول سرویسز کا امتحان لکھا اور 2012 ء میں جب تک اپراجیتا رائے کو 358 واں رینک نہیں ملا وہ چین سے نہیں بیٹھی اور بالآخر سکم بھر میں وہ پہلی آئی پی ایس آفیسر بن ہی گئی (ہندوستان ٹائمز)

عبدالباسط دہلی کے ایک گورنمنٹ اسکول میں دسویں جماعت کا طالب علم ہے ، ان کے والد کشمیری گیٹ کے پاس کاروں کے انٹینا بنانے کا کام کرتے ہیں۔ دہلی شہر میں اور اچھے خانگی اسکولس میں بچوں کو پڑھانے کے بارے میں ہر فرد سوچ بھی نہیں سکتا ہے ایسے میں عبدالباسط کے لئے گورنمنٹ اسکول میں پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا لیکن باسط نے اسکول میں جو کچھ سہولیات دستیاب تھی ، اس سے بھرپور فائدہ ا ٹھایا ۔ ہائی اسکول میں اس کو کمپیوٹر سکھایا گیا ۔ کمپیوٹر سیکھنے میں باسط نے اتنی دلچسپی لی کہ جلد ہی وہ پروگرامنگ کرنے لگا ، اب وہ اپنے بورڈ کے امتحان کے بعد کمپیوٹر پروگرامنگ میں ہی آگے کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ باسط کی ماں نہیں ہے اور گھر میں جب وہ پڑھائی میں دقت محسوس کرتا ہے تو اپنے والد کے موبائل فون میں Algorithm ڈیزائین کی کتاب ڈاؤن لوڈ کر کے اس کے جوابات دیکھتا رہتا ہے۔ باسط نے ٹیوشن بھی نہیں لی اور ساری پڑھائی وہ کر رہا ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ اخبار ہندوستان ٹائمز کو اس نے بتلایا کہ وہ مسابقتی امتحانات میں طلباء کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کے بارے میں جانچا جاتا ہے ، اور میں یہ کام بڑی آسانی سے کرسکتا ہوں۔ باسط نے اس عزم کا اظہار کیا وہ ایک دن آئی آئی ٹی (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی) میں داخلہ حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گی۔ غریب اور محنتی باپ کا یہ لڑکا ٹیوشن بھی نہیں جاتا ہے اور اپنی پڑھائی پر خود ہی توجہ مرکوز کر کے اپنے طور پر بڑی محنت کر رہا ہے اور بہت سارے بچوں کو (IIT) جیسے اداروں کے بارے میں معلوم بھی نہیں ہوگا لیکن باسط کو اس باوقار اداروں کے بارے میں معلوم بھی ہے اور وہ یہاں داخلے کے بارے میں سنجیدگی سے کوشش کر رہا ہے۔
قارئین اکرام ان حقیقی واقعات کو پڑھنے کے بعد اندازہ لگایئے اور غور کیجئے گا کہ اگر کوئی غریب ہے تو اس کی غریبی اس کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا لائسنس نہیں دیتی اور جو لوگ ایسے غریبوں کو کچھ دے دیتے ہیں ، وہ ان کی بہتر طریقہ سے بھی مدد کرسکتے ہیں۔ کسی بھوکے کی مدد کرنا یہ نہیں کہ اس کو ایک وقت کا کھانا کھلادیا جائے بلکہ بھوکے کی حقیقی مدد تو یہ ہوگی کہ اس کو ایسی صلاحیتوں سے لیس کردیا جائے کہ وہ اپنے کھانے کا خود انتظام کرسکے اور اپنے ہر نوالے کیلئے لوگوں کے آگے کاسہ گدائی لیکر نہ گھومے۔
انگریزی میں ایک مقولہ بڑا دلچسپ اور بڑے موثر انداز میں اس بات کو واضح کرتا ہے ۔ “Give a man a fish, you feed him for a day. Teach a man to fish,, and you feed him for a lifetime.
مذہب اسلام نے زکواۃ کی تقسیم کا باضابطہ طریقہ بتلایا ہے لیکن ہم نے اپنی زکوٰۃ کی تقسیم کو نمائش و نمود کی خاطر اتنا تقسیم کردیا ہے کہ جن کے ماں باپ زکوٰۃ لیتے آج ان کے بچے بھی زکوۃکیلئے درخواستیں لئے پھرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو زکوٰۃ کا اصل مقصد سمجھتے ہوئے اس کو اس کے حقیقی حقداروں تک پہونچانے والا بتائے (آمین)

خیر سے قارئین میں یہ بات بتلانا چاہ رہا تھا کہ اگر کوئی غریب ہو تو اس کو غریبی سے باہر نکل آنے کا آسان اور موثر راستہ تعلیم کا میدان ہے اور ایسی کئی مثالیں اور خبریں ہمارے سامنے آتی ہیں لیکن ہجوم میں ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ ہندوستان ٹائمز اخبار دہلی کے سرکاری اسکولس کو بہتر بنانے اور سرکاری اسکولس کے مسائل کو حکومت تک پہونچانے کیلئے مسلسل سلسلہ وار رپورٹس گزشتہ ایک سال سے شائع کر رہا ہے۔ فائنل امتحانات سے پہلے اخبار نے نازیہ ناز کے متعلق ایک اسٹوری شائع کی۔نازیہ اگرچہ ایک سرکاری اسکول میں پڑھ رہی ہے ، اپنے بارھویں کے امتحانات کے بعد نازیہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی دہلی میں بی کام کا کورس کرنا چاہتی ہے۔ نازیہ کے کمزور معاشی حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پچھلے سال نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا تو اس کے پاس پوری کتابیں (Textbooks) نہیں تھی ، نئی کتابیں خریدنے کیلئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے ۔ اپنے ا سکول کے پہلے دن نازیہ نے اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ کتابیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں ۔ میں اپنی بارھویں کی کتابیں نہیں خرید سکتی ہوں ۔ مجھے پہلے اپنی گیارھویں کی کتابیں بیچنی ہوگی اور اس سے مجھے پیسے ملتے ہیں تو تب ہی میں نئی کتابیں خرید سکوں گی ۔
بارھویں کی پوری تعلیم اس نے کچھ پرانی کتابوں (سیکنڈ ہینڈ) اور کچھ نئی کتابوں کے ذریعہ پوری کی ۔ دہلی کے گورنمنٹ اسکولس میں بھی ہمارے سرکاری اسکولس کی طرح بہت سارے مسائل ہیں اور نازیہ ایسے ہی ایک اسکول میں بارھویں کی تعلیم پوری کرچکی ہے اور اب فائنل امتحانات لکھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کا حبیب اللہ ہویا دہلی کے باسط اور نازیہ یہ لوگ تو بالکل ایسے خاندانوں اور حالات کا سامنا کر رہے تھے کہ بڑی آسانی سے تعلیم سے منہ موڑ کر لوگوں کے سامنے اپنی غریبی سمائل اور معاشی پریشانیوں کا ذکر کر کے اچھے خاصے پیسے بٹورسکتے تھے لیکن ان لوگوں نے پڑھ لکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ چنا۔ یہ ضروری نہیں کہ ان میں ہر طالب علم حبیب کی طرح گزیٹیڈ آفیسر بنے یا اپراجیتا رائے کی طرح آئی پی ایس بنے لیکن حصول تعلیم کے بعد یہ لوگ اتنی قابلیت تو ضرور حاصل کرلیں گے کہ اپنی مدد آپ کرسکیں اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھ سکیں۔ بل گیٹس کے حوالے سے اکثر یہ مقولہ نقل کیا جاتا ہے

If you are born poor it is not your mistake. But if you die poor it is your mistake
اخبار بزنس اسٹانڈرڈ میں 3 ا کتوبر 2016 ء کو شائع ایک رپو رٹ کے مطابق ہندوستان میں سب سے زیادہ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد 800 ملین بتلائی گئی ہے، ان کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ کیا اتنے سارے لوگ اب بھیک مانگ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا کام کرتے ہیں ۔ جی نہیں جو لوگ خوددار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ آپ بھی سوچ لیجئے گا آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
sarwari829@yahoo.com