غار ہائے اجنتا کی تصاویر کی مرمت اور تحفظ

آصف سابع کے عہد کا ناقابل فراموش کارنامہ

آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر سید داؤد اَشرف
غار ہائے اجنتا کی بازیافت اور انہیں دنیا کے سامنے قابل دید شئے کی حیثیت سے متعارف کروانا سابق ریاست حیدرآباد اور اس کے دورِ عثمانی کا ایک لازوال کارنامہ ہے۔ یہ غار وقت کے حوادث اور صدیوں سے جمی ہوئی دھول کے نیچے دَب گئے اور حسن شناس نظروں سے اوجھل ہوگئے تھے۔ ان غاروں کو پھر سے عجائب روزگار میں شامل کروانا میر عثمان علی خاں آصف سابع اور ان کی حکومت کی فراخ دلانہ سرپرستی اور قدر دانی کے عملی مظاہرے کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا۔اجنتا کے غار جو اورنگ آباد سے تقریباً 58 میل دور ایک دل کش پہاڑی کے دامن میں واقع ہیں۔ دراصل بدھ مذہب کے ماننے والوں کے تراشے ہوئے ہیں۔ ان غاروں میں منقش تصاویر اور پتھر کی تراشی ہوئی مورتیوں کے وہ نادر نمونے ہیں جنہیں عجائب روزگار کہا جاتا ہے۔ بدھ مذہب کے زوال کے بعد کئی صدیوں تک یہ غار سب کی نظروں سے اوجھل رہے۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں ان غاروں اور تصاویر کی دریافت کے بعد ہی حکومت ریاست حیدرآباد نے ان کے تحفظ میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی لیکن اس سلسلے میں اصل کام میر عثمان علی خاں آصف سابع کے عہد میں ہوا۔ غاروں کی اندرونی خرابیوں کو دُور کرنے، انہیں صاف کرنے، ان عجائب روزگار کی تصاویر کی مرمت و تحفظ، اجنتا کے غاروں تک شائقین کی آمد و رفت اور وہاں پر قیام کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے ایک محکمے کی ضرورت تھی چنانچہ آصف سابع نے جنہیں اپنی ریاست کے آثار کے تحفظ سے بڑی دلچسپی تھی، اپنی تخت نشینی کے دو سال بعد ستمبر 1913ء میں محکمہ آثار قدیمہ کے قیام کی منظوری عطا کی اور 1914ء میں اس محکمہ کی تنظیم جناب غلام یزدانی کے سپرد کی گئی۔ ریاست میں محکمہ آثار قدیمہ کا قیام اور غار ہائے اجنتا کی تصاویر کی مرمت و تحفظ کی کارروائی کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔

اجنتا کی تصاویر کی مرمت اور تحفظ کے لئے بھاری معاوضے پر دو ماہرین اٹلی سے طلب کئے گئے تھے۔ بعدازاں ان تصاویر کو دواماً محفوظ رکھنے کے لئے سہ رنگی عکسی تصاویر کی تیاری ضروری سمجھی گئی جس کے لئے ایک ماہر کو بیرون ملک سے بلوایا گیا تھا۔ ان تصاویر کے تیار ہونے پر برسوں کی محنت اور مشقت کے بعد ایک بے مثال کتاب ’’اجنتا‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ انگریزی کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی سے شائع ہوئی تھی۔غار ہائے اجنتا کی مرمت اور تحفظ کے سلسلے میں سابق ریاست حیدرآباد کی جانب سے اہم تدابیر اختیار کی گئی تھیں۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ ریکارڈ سے استفادہ کرتے ہوئے ان کی تفصیلات اس مضمون میں دی جارہی ہیں۔

غار ہائے اجنتا کی مرمت اور ان کی تصویروں کی حفاظت کے سلسلے میں ریزیڈنٹ نے جولائی 1912ء میں ایک مراسلہ حکومت ریاست حیدرآباد کو لکھا تھا جس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ حکومت ہند کے مراسلے کی نقل بھی منسلک تھی۔ اس مراسلے کے ذریعہ ریزیڈنٹ نے غار ہائے مذکورہ اور ان کی تصویروں کے تحفظ کے لئے ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کی جانب خاص توجہ دلائی تھی۔ اس مراسلے پر ضروری کارروائی کرنے کے بعد حکومت حیدرآباد کی جانب سے ریزیڈنٹ کو اطلاع دی گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ریزیڈنٹ سے یہ استفسار کیا گیا کہ غار ہائے اجنتا اور ان کی تصاویر کی حفاظت کے سلسلے میں حکومت ریاست حیدرآباد کو مشورہ دینے کے لئے یورپ سے کسی ماہر فن کو طلب کرنے کی نسبت ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ کی تجویز کے متعلق آیا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس استفسار پر ابتدائی کارروائی کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ریزیڈنسی سے ایک اور مراسلہ حکومت ریاست حیدرآباد کو وصول ہوا جس میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ نے یہ لکھا ہے کہ ممالک محروسہ سرکار عالی میں آثار قدیمہ، کتبے، تصاویر، نیز دوسری عجائبات کا ایک ذخیرہ موجود ہے لیکن ان کی مرمت کرنے اور ان کی فہرست مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور وہ خود یہ کام اپنا عملہ مختصر ہونے کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتے۔ لہذا ان کی یہ تحریک ہے کہ حکومت حیدرآباد اپنی ریاست میں آثار قدیمہ کا ایک صیغہ جس کے سالانہ خرچ کا اندازہ 9 ہزار 795 روپئے کیا گیا ہے، قائم کرے۔

غار ہائے اجنتا کی تصاویر کی حفاظت کی نسبت مشورہ کرنے کے لئے یورپ سے کسی ماہر فن کو طلب کرنے اور ریاست میں صیغہ آثار قدیمہ کے قیام کے بارے میں ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ حکومت ہند کی تحریک پر ریاست حیدرآباد کے معین المہام (وزیر) فینانس گلانسی نے رائے دی کہ ریاست حیدرآباد میں آثار قدیمہ کا صیغہ قائم کرنے کے بارے میں آثار قدیمہ حکونت ہند کی تجویز نہایت مناسب ہے۔ اجنتا کے غاروں کی تصاویر کی مرمت کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے ماہر فن کو طلب کرنے کی تجویز سے بھی معین المہام فینانس نے اتفاق کیا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اس بارے میں جو اخراجات ہوں گے، وہ گورنمنٹ کی جانب سے ادا کی جائیں کیونکہ یہ چیزیں عام دلچسپی کی ہیں اور سارا عالم اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔

مدار المہام (صدر اعظم) سالار جنگ سوم نے ایک عرض داشت مورخہ 28 شوال 1331ھ م 30 ستمبر 1913ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس میں اس کارروائی کی تفصیلات اور معین المہام فینانس کی رائے درج کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ معین المہام فینانس کی رائے سے انہیں پورا اتفاق ہے۔ آصف سابع نے اس عرض داشت کی سفارشات کو منظور کیا اور حسب ذیل فرمان جاری ہوا۔ ’’تمہاری و معین المہام فینانس کی رائے معروضہ کے مطابق ممالک محروسہ میں آثار قدیمہ کا صیغہ بالفصل تین سال کے لئے قائم کیا جائے جس کے سالانہ خرچ کا اندازہ 9 ہزار 795 روپئے بتایا گیا ہے اور غار ہائے اجنتا کی تصاویر کی حفاظت کا خرچ منجانب سرکار ادا کیا جائے اور اس بارے میں مشورہ لینے کے واسطے کوئی ماہر فن طلب کیا جائے‘‘۔
اس فرمان کے صادر ہونے کے بعد حکومت ریاست حیدرآباد نے 5 اکتوبر 1913ء کو بتوسط ریزیڈنسی سرجان مارشل، ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ حکومت ہند کو اس امر کی اجازت دی کہ اجنتا کی تصاویر کی درستی و حفاظت کی غرض سے وہ کسی ماہر کا انتخاب کریں چنانچہ سرجان مارشل رخصت پر ولایت گئے تھے تو انہوں نے یوروپ کے ماہرین کے مشوروں اور برطانوی سفیر متعینہ اٹلی کے تعاون سے ایک اطالوی ماہر پروفیسر سچونی کا انتخاب کیا جو تصاویر کی مرمت میں مہارت رکھتے تھے۔ پروفیسر سچونی حسب ذیل شرائط پر اجنتا آنے کے لئے تیار تھے۔
(1) آٹھ ماہ کی تنخواہ (بشمول دو ماہ برائے آمد ورفت) تین ہزار 200 پاؤنڈ
(2) کرایہ آمدورفت اور آٹھ ماہ کے دوران کے اخراجات خوراک علیحدہ ادا کرنے ہوں گے۔
(3) تنخواہ کی رقم آٹھ اقساط میں ادا کرنی ہوگی۔

(4) ان کے ہمراہ ان کا ایک شاگرد بھی ان کی مدد کے لئے آئے گا جس کے لئے جہاز کا کرایہ اور کھانے کے اخراجات علیحدہ ادا کرنے ہوں گے۔
جب حکومت ریاست حیدرآباد کو اس بارے میں اطلاع دی گئی تو صدر اعظم نے مذکورہ بالا تفصیلات ایک عرض داشت مورخہ 14 ستمبر 1920ء میں درج کرتے ہوئے لکھا کہ اجنتا کی تصاویر کی خوبیوں کے تحفظ کی ضرورت محتاج بیان نہیں۔ یہ بیش بہا تصاویر ایشیا بلکہ دنیا کے فن نقاشی میں ایک بے مثل رتبہ رکھتی ہیں۔ صدر اعظم نے لکھا کہ صدر المہام (وزیر) فینانس کو اجنتا کی تصاویر کی مرمت اور حفاظت کے سلسلے میں اطالوی ماہر فن کو حیدرآباد کو بلانے کی تجویز سے اتفاق ہے اور وہ خود بھی اس تجویز سے اتفاق رکھتے ہیں۔

عرض داشت میں پیش کردہ سفارش کو آصف سابع نے منظور کیا اور اس بارے میں جو فرمان مورخہ 3 اکتوبر 1920ء کو صادر ہوا تھا، اس کا متن درج ذیل ہے۔ ’’صدراعظم و صدر المہام فینانس کی رائے مناسب ہے۔ حسبہ، تصاویر مذکور کی درستگی و تحفظ سے متعلق تجاویز پیش کرنے کے لئے اٹلی کے ماہر فن پروفیسر سچونی بشروط محولہ عرض داشت 8 ماہ کیلئے طلب کئے جائیں‘‘۔
مذکورہ بالا فرمان کی تعمیل میں اطالوی ماہر پروفیسر سچونی اور ان کے شاگرد طلب کئے گئے جنہوں نے اجنتا کی تصاویر کی مرمت اور تحفظ کے لئے کام انجام دیا۔ پروفیسر سچونی کی ابتداء میں ڈسمبر 1921ء اور جنوری 1922ء کا معاوضہ اور اجنتا آنے کے اخراجات ادا کئے گئے اور اس کے بعد فروری تا مئی 1922ء کا معاوضہ 1600 پاؤنڈ بشرح 400 پاؤنڈ ماہانہ اور واپسی کے کرایہ جہاز کے 200 پاؤنڈ اس طرح جملہ 1800 پاؤنڈ ادا کئے گئے۔ چونکہ یہ ماہرین اٹلی سے آئے تھے اور کام کی انجام دہی کے بعد انہیں فوراً وطن لوٹنا تھا، اس لئے بہ توقع منظوری انہیں یہ رقم ادا کردی گئی۔ بعدازاں نائب صدراعظم نے ایک عرض داشت آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس پر بذریعہ فرمان 1800 پاؤنڈ کی منظوری دی گئی۔

غار ہائے اجنتا کی تصاویر کی مرمت اور تحفظ کے بعد ناظم آثار قدیمہ نے تجویز پیش کی کہ ان کی سہ رنگی عکسی تصاویر حکومت کی جانب سے تیار کرائی جائیں کیونکہ اجنتا کی تصاویر کو ہندوستان اور یورپ کے جن ماہرین نے دیکھا ان کی رائے تھی کہ یہ تصاویر کمال فن کے لحاظ سے عدیم المثال ہیں۔ چونکہ یہ تصاویر بہت پرانی ہیں، اس لئے تحفظ کے باوجود ان میں کہنگی اور خرابی پیدا ہوئی ہے۔ اور ایک دن یہ ضائع ہوجائیں گی۔ ان تصاویر کی یادگار قائم رکھنے کی صرف ایک تدبیر ہوسکتی ہے اور وہ ہے۔ ان کی سہ رنگی تصاویر۔ چنانچہ اس سلسلے میں جان مارشل سے مشورہ کیا گیا اور رنگین فوٹو گرافی کے کسی ماہر سے بااُجرت یہ کام لینے کی تجویز ہوئی۔ اس کام کے لئے اے ایل والسے ماہر رنگین فوٹوگرافی کو بیرون ہند سے طلب کیا گیا جنہوں نے چار ماہ کے قیام کی مدت میں اجنتا کی تقریباً تمام تصاویر کے عکس تیار کئے جن کی تعداد تقریباً 100 تھی۔ باب حکومت (کابینہ) کی سفارش پر آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 3 اکتوبر 1926ء اس کام کے اخراجات کی منظوری دی۔

ان رنگین تصاویر کے تیار ہوجانے کے بعد ناظم آثار قدیمہ نے ان تصاویر کو ایک کتاب کی شکل میں شائع کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے اپنی تجویز میں لکھا ان تصاویر کی اشاعت سے حکومت ریاست حیدرآباد کی علمی سرپرستی کے اظہار کے علاوہ سراسر مالی فائدہ ہے۔ اس لئے اس کام میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ معتمد آثار قدیمہ نے اس تجویز کی سفارش کرتے ہوئے لکھا کہ ماہرین فن کی یہ رائے ہے کہ ان تصاویر کی اشاعت سے اس عہد کی علمی سرپرستی کی ایک زبردست یادگار قائم ہوجائے گی اور آنے والی نسلیں آصف سابع کی ممنون احسان رہیں گی۔ صدر المہام فینانس نے اس تجویز کے بارے میں تحریر کیا کہ غلام یزدانی ناظم آثار قدیمہ کی اس توقع کے پورا ہونے میں انہیں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ان تصاویر کی خاطر خواہ فروخت رقم صرف شدہ کی وصولی کا باعث ہوگی۔ انہوں نے سفارش کی کہ پہلی جلد کے لئے 2,000 پاؤنڈ اور ہر جلد کے لئے 1,000 پاؤنڈ بطور پیشگی ادا کئے جائیں۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد صدراعظم نے عرض داشت مورخہ یکم اکتوبر 1927ء میں ناظم آثار قدیمہ کی تجویز اور اس پر معتمد آثار قدیمہ اور صدر المہام فینانس کی آراء تفصیلی طور پر درج کرتے ہوئے لکھا کہ انہیں صدر المہام فینانس کی رائے سے اتفاق ہے۔ آصف سابع نے صدر المہام فینانس اور صدر اعظم کی رائے سے اتفاق کیا۔ اس سلسلے میں ان کا جو فرمان صادر ہوا تھا، اس کا متن درج دیل ہے:
’’صدر اعظم کی رائے مناسب ہے۔ حسبہ، پہلی جلد کیلئے پیشگی 2,000 پاؤنڈ اور بعد کی ہر جلد کیلئے ایک ہزار پاؤنڈ اس شرط سے ایصال کئے جائیں کہ یہ رقم ہر جلد کی اشاعت کے تین سال کے اندر وصول ہونی چاہئے۔

مذکورہ بالا فرمان کی تعمیل میں فوراً محکمہ فینانس سے احکام جاری ہوئے۔ کتاب ’’اجنتا‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں ملک اور بیرون ملک کے ماہرین فن اور ممتاز شخصیتوں کی جانب سے بے حد اشتیاق کا اظہار کیا جارہا تھا اور بعض حضرات نے کتاب کے لئے پیشگی آرڈر روانہ کئے تھے۔ اس کتاب کی جلد اول 1931ء میں شائع ہوئی اور اس کے نسخے جارج ششم شاہ انگلستان، ایمزے میکڈانلڈ وزیراعظم برطانیہ اور لارڈ اردن وائسرائے ہند کو بھیجے گئے۔

پہلی جلد کے شائع ہونے کے تقریباً 2 سال بعد دوسری جلد کی اشاعت کے بارے میں ناظم آثار قدیمہ کی درخواست اور تجاویز پر جو عرض داشت مورخہ 24 مئی 1934ء مہاراجہ سرکشن پرشاد نے آصف سابع کے ملاحظے اور احکام کے پیش کی تھی، اس پر آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 3 ستمبر 1934ء دوسری جلد کی اشاعت کے لئے مزید 39 ہزار 619 روپئے کلدار کی منظوری دی۔ دوسری جلد شائع ہونے کے بعد مزید دو جلدوں کی اشاعت کے لئے بذریعہ فرمان مورخہ 27 جون 1937ء 1,500 پاؤنڈ پیشگی فی جلد آثار قدیمہ کو ایصال کرنے کے احکام جاری ہوئے۔ ابتداء میں تیسری جلد کے لئے جو رقم منظور کی گئی تھی۔ وہ اس کی اشاعت کے لئے ناکافی ہوئی اور جب مزید رقمی منظوری کے لئے عرض داشت آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی گئی تو بذریعہ فرمان مورخہ 22 اپریل 1943ء تیسری جلد کی طباعت کے لئے مزید 1500 پاؤنڈ کی منظوری عطا کی گئی۔اس طرح حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے انگریزی کتاب ’’اجنتا‘‘ کی تین جلدیں شائع کی گئیں جس کی ہر جلد دو علیحدہ کتابوں پر مشتمل ہے۔ ایک میں اجنتا کی تصاویر اور دوسری کتاب میں غلام یزدانی کے وضاحتی نوٹس شامل ہیں جو بلند پایہ علمی تحقیق کا درجہ رکھتے ہیں۔ کتاب ’’اجنتا‘‘ کے شائع ہونے پر ملک اور بیرون ملک کے ممتاز علمی و فنی جرائد اور صف اول کے اخبارات نے اعلیٰ درجے کے تبصرے شائع کئے تھے جن میں آصف سابع کی فراخ دلانہ سرپرستی، سر اکبر حیدری کی دلچسپی اور دور اندیشی اور غلام یزدانی کے علمی کام کو بے حد سراہا گیا تھا۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ آج بھی کچھ لوگ آصف سابع اور ان کی حکومت کو تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں اور آصف سابع کی شخصیت اور کردار کی حقیقی تصویر کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں۔ غار ہائے اجنتا کو دنیائے تہذیب و فن سے روشناس کرنے والا تنہا ایک کارنامہ ہی ان لوگوں کو جھٹلاے کے لئے کافی ہے۔ اگر آصف سابع بنیاد پرست ہوتے اور مذہبی اعتبار سے ان میں کٹرپن ہوتا تو وہ رنگوں اور تصویروں کے نادر نمونوں کی طرف سے آنکھیں پھیرلیتے لیکن اس حکمران اور اس کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ ان غاروں اور ان میں خوابیدہ، مصوری اور حسن کاری پر سے تہہ در تہہ جمی ہوئی صدیوں کی دھول ہٹائی بلکہ اپنے وقت کے بہترین صناعوں اور ماہرین کی خدمات سے استفادہ کرکے نقاشی کے ان نادر نمونوں کو نئی زندگی عطا کی۔ یہی نہیں بلکہ انہیں حسن و فن کے شیدائیوں کی زیارت گاہ میں تبدیل کیا۔