عید مبارک

میرا کالم سید امتیاز الدین
بقرعید کو گزرے ہوئے چار پانچ دن ہوگئے لیکن لوگوں کے فریج میں بکروں کے باقیات ابھی بھی موجود ہیں، اس لئے ہمارا خیال ہے کہ ابھی بھی آپ کی خدمت میں عید کی مبارکباد پیش کی جاسکتی ہے۔ اس حسنِ یقیں کے ساتھ آپ سب کو عید مبارک ہو۔
ہماری دو عیدیں ہوتی ہیں، عیدالفطر یعنی رمضان کی عید اور عیدالاضحیٰ یعنی بقرعید۔ لیکن اِن دونوں عیدوں کا مزاج بالکل جداگانہ ہے ۔ رمضان کی عید میں روزہ دار مہینے بھر کی عبادت گزاری کے بعد عید اس طرح مناتے ہیں جیسے محنتی طالب علم امتحان کے آخری پرچے کے بعد اطمینان کی سانس لیتے ہیں بلکہ بعض نوجوان فلم دیکھنے کیلئے نکل جاتے ہیں۔ ہم کو یاد ہے کہ دلیپ کمار کی فلم ’آن‘ رمضان کی عید کے موقع پر ریلیز ہوئی تھی اور اُس سال ہم چوتھی جماعت میں شریک ہوئے تھے ۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر عازمین حج کو کافی مشقت اٹھاتے ہیں لیکن جولوگ گھر بیٹھے عید مناتے ہیں، اُن کی محنت مشقت صرف بکروں کی تلاش ، چارے کی خریدی اور قصاب کی جستجو تک محدود رہتی ہے۔ پچھلے سال ہم بہ نفس نفیس بکرے خریدنے کے لئے گئے تھے لیکن ہم سے ایک سنگین غلطی ہوگئی تھی ۔ ہم نے ایسے بکرے خرید لئے تھے جو ہم سے زیادہ طاقتور تھے ۔ بکرا بیچنے والے نے پہلے ہم کو آٹو رکشا میں سوار کرایا اور اُس کے بعد بکروںکو لٹادیا ۔ ابھی ہم بمشکل ایک فرلانگ گئے ہوں گے کہ بکروں نے اپنی رسی تڑالی اور آٹو رکشا سے فرار ہونے کی کوشش کرنے لگے ۔ ہم نے دونوں کبروں کا ایک ایک سینگ مضبوطی سے پکڑلیا تاکہ وہ بھاگنے نہ پائیں لیکن بکرے ہماری گرفت سے آزاد ہونے کے لئے جھٹکے دیین لگے ۔ تھوڑی ہی دیر میں یوں محسوس ہونے لگا جیسے ان مسلسل جھٹکوں سے ہمارے دونوں ہاتھ کندھوں سے علحدہ ہوجائیں گے ۔ اس سال ہم نے بکروں سے زور آزمائی کو اپنی کمزور جسمانی صحت کیلئے مناسب نہیں سمجھا۔ ہم نے اپنے محلے کے قصاب کو بکرے لانے کا کام سپرد کیا اور بکروں کی ہوم ڈیلیوری کروالی لیکن ہمارے قصاب نے ہم سے معافی چاہی کہ وہ پہلے سے ہی مصروف ہے۔ اس لئے کٹائی کا بندوبست ہم خود کرلیں ۔ عید کی نماز کے بعد ہم نے اپنے ایک مخلص دوست کو فون کیا تو انہوں نے خوش خبری سنائی کہ اُن کے پانچ منزلہ کامپلکس میں چھ سات قصاب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور وہ اُن کو لے کر پہنچ رہے ہیں ۔ چنانچہ وہ سات قصابوں کے جم غفیر کو لے کر آگئے ۔ ہم حیرت میں تھے کہ صرف دو بکروں کیلئے سات قصائیوں کی موجودگی غیر ضروری ہوگی لیکن ہماری حیرت بہت جلد دور ہوگئی کیونکہ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ اُن ساتوں قصائیوں میں کوئی بھی یہ کام ٹھیک سے نہیں جانتا تھا۔ یہ قصاب بکرے کاٹنے کی تھیوری سے واقف تھے لیکن اُن کو پریکٹیکل تجربہ ہمارے بکرے سے ہی حاصل ہوا۔ کافی مشکلات سے گزرنے کے بعد تقریباً دو ڈھائی گھنٹوں کے بعد یہ کام ختم ہوا۔
کل ہم کو ایک بہت پرانی بات یاد آئی ۔ ہم نے اپنی پہلی قربانی اس وقت دی تھی جب ہم بی ای کے چوتھے سال میں تھے ۔ ہم کو اسکالرشپ ملی تھی ۔ ہم نے سوچا کہ ہم کو بھی قربانی کرنا چاہئے ۔ عین اسی وقت ایک آدمی بہت سے بکرے لے کر گزر رہا تھا ۔ ہم نے اُس سے ایک بکرا خریدا ۔ یہ شاید 1966 ء کی بات ہے ۔ بکرا ہمیں صرف چالیس روپئے میں مل گیا کٹائی کے صرف پانچ یا دس روپئے ہوئے ۔ آج ان باتوں کو سنیں تو ہنسی آتی ہے لیکن یقین نہیں آتا۔

عید منانے کے طریقے بھی بدل گئے ہیں ۔ پہلے لوگ عید سے پہلے بہت سے عید کارڈ خریدتے تھے اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو پابندی سے بھیجتے تھے ۔ آپسی رابطے کیلئے ڈاک میں واحد ذریعہ تھا ۔ اکثر ڈاکیے عید کارڈ عید سے ایک دن پہلے روک لیتے تھے اور عین عید کے دن لاتے تھے اور انعام لے کر جاتے تھے ۔ آج ای میل کا زمانہ ہے ۔ عید کارڈ کا طریقہ تقریباً ختم ہوگیا ہے ۔ ڈاکیوں کی تنخواہیں بھی بڑھ گئی ہیں اور معمولی انعام کی اُن کے پاس کوئی قدر و قیمت نہیں رہی۔
عید منانے کے طریقوں میں تھوڑی بہت تبدیلیاں ہوئی ہوں گی لیکن آج بھی عید کی نماز کا طریقہ 80 فیصد لوگوںکو یاد نہیں رہتا۔ اِن حضرات میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو نہایت ہشیار ہوتے ہیں۔ یہ حضرات اپنے بازو والے کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اور بہت سلوموشن میں تکبیرات ادا کرتے ہیں ۔ بعض اصحاب جلد بازی میں بے وقت رکوع میں چلے جاتے ہیں اور انہیں قیام کی حالت میں آجانا پڑتا ہے ۔ اب کے ہم نے دیکھا کہ دو جگری دوست بازو بازو نماز پڑھ رہے تھے ۔ ایک صاحب بے وقت رکوع میں چلے گئے تو اُن کے مخلص دوست نے حقِ دوستی نبھاتے ہوئے اُن کو سیدھا کیا اور پھر خود ہاتھ باندھ لئیے۔

اس سال عید کے ایام میں بارش چھائی ہوئی رہی ۔ بارش کی وجہ سے بکروں کی قیمتیں گری ہوئی رہیں اور شاید عید سے ایک رات پہلے یہ تاجر بکروں کو اونے پونے بیچ کر نکل گئے ۔
ایک اور بات تعجب خیز ثابت ہوئی۔ اکثر دینی مدارس اس موقع پر چرم قربانی جمع کرتے ہیں اور اُن کو فروخت کر کے فلاحی کاموں میں لگاتے ہیں لیکن اب کے چمڑوں کی قیمت یں بھی نہایت کم تھیں اور فی چمڑا بمشکل بیس روپئے میں بک رہا تھا ۔ ہم نے ایک صاحب سے چمڑا دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ جب وہ شام کے چار بجے تک بھی نہیں آئے تو ہم نے انہیں یاد دہانی کیلئے فون کیا ۔ کہنے لگے آج تو میں بہت مصروف ہوں ۔ آپ چمڑوں میں نمک بھردیجئے میں کل آکر لے جاؤں گا ۔ ہم نے اُن سے صاف صاف کہہ دیا کہ حضرت ہم سے یہ سب نہیں ہوگا ۔ اُس کے بعد ہم نے چمڑے کسی اور کو دے دیئے۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم کا اصل طر یقہ یہ بتلایا جاتا ہے کہ ایک تہائی مستحقین میں ، ایک تہائی ا پنے لئے اورا یک تہائی عزیز و اقارب میں تقسیم کیا جائے ۔ ہمارا خیال ہے کہ بہت کم لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔ خوشحال لوگ خوشحالوں میں گوشت تقسیم کردیتے ہیں۔ جواب میں دوسری طرف سے بھی گوشت آجاتا ہے اور آپ کا ذخیرہ جوں کا توں رہتا ہے۔
اس سال ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ عید اور گنیش کا تہوار ساتھ ساتھ آئے اور دونوں بخیر و خوبی گزر گئے ۔ ہمارے ایک دوستے ہیں جو کالج میں لکچرر ہیں۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ آپ گنیش کی مورتی کس تالاب میں بہاتے ہیں۔ انہوں نے جواب میں ایک بڑی اچھی بات سنائی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مٹی کی مورتی لاتے ہیں اور جب ڈالنے کا وقت آتا ہے تو وہ ایک بکٹ میں پانی بھر کر اس میں مورتی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ مٹی کی بنی ہوئی ہونے کی وجہ سے وہ بکٹ کے پانی میں گھل جاتی ہے ۔ اُن کے گھر میں چھوٹا سا باغیچہ ہے ۔ اُن پودوں میں وہ اس بکٹ کے پانی کو اُنڈیل دیتے ہیں۔ اس طرح پودوں کی آبیاری بھی ہوجاتی ہے اور ماحولیات کا تحفظ بھی ہوجاتا ہے۔

قربانی ایک بہت بڑی عبادت ہے ۔ عبادت کی روح اس میں ہے کہ اُس میں ریاکاری کا شایبہ بھی نہ ہو ۔ آج سے کوئی چار پانچ سال پہلے ہم نے ایک عجیب تماشا دیکھا تھا ۔ ہمارے محلے سے ذرا فاصلے پر ایک صاحب نے شاید دس بارہ ہزار روپئے میں ایک نہایت طاقتور بکرا خریداتھا جو قد میں تقریباً ان کے برابر تھا ۔ اس بکرے کو پھولوں کا ہار پہناکر کچھ چھوٹے بچوں کو لئے ہوئے گھوم رہے تھے تاکہ تماملوگ انہیں اور ان کے قوی البحثہ بکرے کو دیکھ لیں۔ ان کا چہرہ فخر کے جذبات سے تمتما رہا تھا ، جیسے زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں ’’دیکھ اس طرح کٹاتے ہیں سخنور بکرا‘‘
تو صاحبو ! اس طرح ہماری عید آرام سے گزری۔ عید کا ایک اہم ایٹم بچوں کی عیدی بھی ہوتی ہے ۔ ہم جب بچے تھے تو ہمیں عیدی کے طور پر پانچ یا سات روپئے ملتے تھے اور ہم اُسی میں باغ باغ ہوجاتے تھے ۔ آج عیدی کا نرخ بھی بڑھ گیا ہے ۔ کوئی بچہ سو روپئے سے کم لینے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن یہ سب خوش دلی کے خرچے ہیں جو طبیعت پر بار نہیں گزرتے اور خوشیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔