عیب ہے قلاشی جیب کی نہیں ذہن کی

محمد مصطفی علی سروری

السلام علیکم جناب!
امید کہ مزاج بخیر ہوں گے۔ عرض کرنا ہے کہ میں اخبار سیاست میں آپ کا ہر اتوار کو کالم پڑھتا ہوں۔ بڑی خوشی کی بات ہے لیکن آپ برا نہ مانیں تو آپ سے عرض کرنا ہے کہ آپ اکثر غیر مسلموں کی کامیابی پر توجہ دیتے ہیں، حالانکہ مسلمانوں میں بھی بہت سارے لوگ محنت کر رہے ہیں اور ترقی بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ابھی گذشتہ ہفتہ کے دوران آپ نے کہیں تریپورہ کے ایک بچے کی کہانی لکھی کہ اس کے ہاتھ نہیں پھر بھی وہ پائوں سے لکھائی پڑھائی کا کام کر رہا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کو کہیں دور کے ہندو بچے تو نظر آجاتے ہیں مگر اپنے قریب کا وہ لڑکا نظر نہیں آتا جو دونوں ہاتھ سے محروم ہے اور اپنے پائوں میں قلم پکڑ کر لکھنا سیکھا ہے۔ صاحب آپ بولتے کہ انگریزی میڈیا مسلمانوں کی خبریں شائع نہیں کرتا تو آپ ایک مسلمان معذور بچے کی کہانی کیوں نہیں لکھتے۔ آپ اگر خود ہی مسلمانوں کی کامیاب پر کچھ نہیں لکھتے تو آپ کو بھی کوئی حق نہیں کہ آپ دوسرے اخباروں کو برا بولیں۔ میرا کام بولنا ہے تو آپ کو بول رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے آپ اس مسلم بچے کو بھی نظر انداز کردیں گے۔ اللہ آپ کو خود نیک توفیق دے۔
قارئین مندرجہ بالا گفتگو دراصل ایک صاحب نے فون پر بات کرتے ہوئے کی اور پھر میری توجہ کاغذ نگر کے ایک 23 سالہ نوجوان ذاکر پاشاہ کی جانب مبذول کروائی۔ قبل اس کے کہ میں ذاکر پاشاہ کی بات کروں میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میری تحریروں کا مقصد بڑا واضح ہے کہ پڑھنے والوں کو تحریک ملے، ترغیب ملے اور وہ اپنے حالات کا خود سامنا کرسکیں۔ مسائل ہر ایک کو ہوتے ہیں اور پریشانیاں ہندو یا مسلمان ہے بول کر الگ الگ نہیں ہوتیں۔ دراصل مسلمانوں کی کامیابی پر جشن منانے والے تو بہت سارے احباب مل جاتے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان عوامل کا پتہ لگاوں جس کے سبب مسلمان ناکام ہورہے ہیں تاکہ مسئلہ اور بیماری کی صحیح تشخیص ہو اور آگے بڑھنے کے راستے نظر آجائیں۔ اور سب سے اہم بات تو یہ کہ ایمانی اور اسلامی نقطہ نظر سے ایک مسلمان کلمہ گو اور غیر مسلم کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ مثالیں صرف بات سمجھانے کے لیے دی جاتی ہیں۔ برابری کے لیے نہیں۔ کیا خود احتسابی کی دعوت دینا غلط بات ہے؟ ذرا غور کیجیے اور پھر فیصلہ ؟
خیر سے شہر حیدرآباد سے تقریباً 360 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع سرپور کاغذ نگر کے ذاکر پاشاہ کا فون نمبر حاصل کر کے جب ہم نے فون پر تفصیلی بات کی تو پتہ چلا کہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جسمانی معذور ی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی مشکل یا رکاوٹ ہے تو وہ منفی سوچ اور پریشانیوں کے آگے ہتھیار ڈال دینا ہے۔ ذاکر پاشاہ کون ہے اور اس کی زندگی سے سیکھنے کے لیے ہم سب کو کیا سبق مل سکتا ہے یہ اور ایسے ہی بہت سارے سوالات لیے ہم نے ذاکر کو فون ملایا۔ ادھر فون کی گھنٹی بج رہی اُدھر ہمارے ذہن میں سو الات ابھر رہے تھے کہ ہاتھوں سے محروم نوجوان موبائل فون کیسے ریسیو کرتا ہوگا۔ بلاکسی تاخیر کے ذاکر پاشاہ نے فون رسیو کرلیا۔ ہم نے تفصیلی بات کی تو پتہ چلا کہ ذاکر کاغذ نگر کا رہنے والا ہے، اس کی عمر 23 سال ہے، اس کے والد شیخ بابا کی عمر تقریباً 45 برس ہے اور وہ آٹو چلاکر اپنے گذارے کا سامان پیدا کرلیتے ہیں۔ شیخ بابا کا آبائی وطن کریم نگر ہے لیکن شادی کے بعد وہ کاغذ نگر میں ہی مقیم ہوگئے۔ ان کی بیوی کا نام معراج بیگم ہے۔ وہ گرہست خاتون ہیں اور بچوں کی تربیت میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
شیخ بابا کہتے ہیں کہ ذاکر ان کی پہلی اولاد ہے اور 1996ء میں اس کی پیدائش پر جتنی خوشی ہوئی اتنی ہی حیرت کے پہلا لڑکا تو ہوا ہے لیکن ہاتھوں سے محروم ہے۔ اب زندگی بھر ہاتھوں سے محروم اس کی زندگی کیسے گذرے گی۔ ان کے مطا بق جسمانی معذوری انسانی زندگی میں مشکلات تو پیدا کرتی ہیں مگر ان مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ ذہن کی منفی سوچ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شیخ بابا کے مطابق میرے لڑکے کو پیدائش کے وقت ہی دونوں ہاتھ کاندھے سے نہیں تھے لیکن ہم نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں لڑکے کی نعمت سے نوازا۔ لڑکا معذور تھا۔ اس کے ہاتھ نہیں تھے لیکن میری بیوی نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے معذور بچے کو اپنے ہاتھوں کی کمی محسوس ہونے نہیں دیں گی۔ ذاکر پاشاہ دنیا کے لیے معذور ہوسکتا ہے لیکن اس کے والدین کے لیے وہ ایک شاہزادہ ہے اور تبھی تو ان لوگوں نے اپنے لڑکے کا نام پاشاہ رکھا۔ اب ذاکر کی ماں نے اس کی پرورش شروع کی تو ذاکر کو جب بھی ہاتھوں کی ضرورت ہوتی تو ماں کے ہاتھ اس کے کام آتے۔
معراج بیگم کو احساس ہو چلا تھا کہ جب ذاکر بڑا ہوگا تب اس کو ایسی تربیت دینا ہے جس میں وہ اپنے ہاتھوں کے بغیر بھی زندگی گزار سکے۔ ذاکر نے ہوش سنبھالا تو اس کی ماں نے اس کے پائوں میں قلم پکڑانے کی کوشش کی اور ان کو حیرت اس بات پر ہوئی کہ ذاکر نے جلد ہی پائوں میں قلم پکڑ کر لکھنا بھی شروع کردیا۔ جب اسکول میں داخلہ کی باری آئی تو تب اسکول والے پس و پیش میں تھے لیکن ذاکر کی ماں نے یقین دلایا کہ میرا بچہ اپنا کام اپنے پائوں سے انجام دے گا۔
اتنا ہی نہیں معراج بیگم نے اپنے بیٹے کو گھر پر اپنی ہی نگرانی میں ناظرہ، عربی کا قاعدہ پڑھایا اور قرآن مجید کا ناظرہ بھی ختم کروایا۔ اسکول کی کتابیں ذاکر خود اپنے طور پر پائوں کی مدد سے پڑھتا تھا جبکہ قرآن پاک کی تلاوت کے لیے ذاکر کی ماں اس کی مدد کرتی تھی۔
قارئین ذاکر پاشاہ کے والد شیخ بابا نے کوئی زیادہ تعلیم تو حاصل نہیں کی، اس لیے انہیں کوئی نوکری بھی نہیں ملی اور وہ آٹو چلاکر اپنے گھر و الوں کے گذارے کا سامان کرلیتے تھے۔ شیخ بابا آٹو چلاکر کماتے تو تب ہی گھر کا خرچہ چلتا، چولہے سے لے کر گھر کا کرایہ اور آٹو کا کرایہ ادا کرنا ممکن ہوپاتا۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ بابا کو ذاکر کے بعد بھی مزید اولاد کی نعمت سے نوازا۔ ان کے ہاں تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جو کہ سب کی سب صحت مند اور ٹھیک تھیں۔ ذاکر کی ایک بہن گریجویشن میں بی ایس سی کمپیوٹرس کر رہی ہیں جبکہ دوسری دو چھوٹی بہنیں ابھی زیر تعلیم ہیں۔
بظاہر تو شیخ بابا کے لیے بڑا اچھا بہانہ تھا کہ بچے کی معذوری کا تماشہ بناکر لوگوں سے پیسے جمع کریں لیکن شیخ بابا کے مطابق ان کی بیوی معراج بیگم نے اپنے بچوں خاص کر ذاکر پاشاہ کی ایک پاشاہ کی طرح تربیت کرنے میں دن رات ایک کردیئے۔ رشتہ داروں، اڑوس پڑوس اور گائوں دیہات کے لوگوں کی منفی باتوں کو بھی سن کر نظر انداز کیا۔ جتنا کچھ انہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا اسی چادر میں اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھا۔ ذاکر نے جب بولنا سیکھا تو اس کو اللہ کا نام بولنا سکھایا اور اللہ کے نام کی برکت ہی کہیے کہ جب میں نے ذاکر سے پوچھا، ذاکر تمہارے اندر ہمت کہاں سے آتی ہے تو ذاکر نے جواب دیا، ’’سر آپ بولیے کہ میں کہاں پر کمزور ہوں۔‘‘
عام بچوں کی طرح انہی کے ایک اسکول بال ودیا مندر سے ہندی میڈیم سے اس نے دسویں کا امتحان 6.5 گریڈ کے ساتھ پاس کیا۔ ذاکر سے جب میں نے پوچھا کہ ذاکر تم دسویں کا امتحان خود لکھے یا رائٹر کی مدد لیے تو ذاکر نے کہا کہ ’’سر دسویں کا امتحان میں نے رائٹر کی مدد سے لکھا لیکن انٹر اور ڈگری میں میں نے انگلش میڈیم سے تعلیم حاصل کی اور اپنے امتحانات خود اپنے پائوں میں قلم پکڑ کر لکھے۔‘‘ MEC سے انٹر کرنے کے بعد ذاکر نے باضابطہ گریجویشن کی تکمیل کی اور اب Distance Modeسے ایم کام کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ ذاکر پاشاہ کو بظاہر حصول تعلیم کے باوجود ابھی ملازمت نہیں ملی ہے۔ ذاکر کے مطابق اس نے ساتویں جماعت سے کمپیوٹر سیکھنا شروع کیا اور اب تو اس کے ہاں PGDCA کا سرٹیفکیٹ ہے۔ اس کے علاوہ شارٹ ہینڈ بھی اس نے باضابطہ سیکھا اب ذاکر کی خواہش ہے کہ وہ جلد سے جلد سرکاری ملازمت حاصل کرے ۔ کیوں اس کے متعلق وہ خود کہتا ہے کہ میرے والد اب ذیابیطس کے عارضہ کا شکار ہوگئے۔ وہ 6 تا 8 گھنٹے سے زیادہ آٹو نہیں چلاسکتے ۔ اس کے علاوہ ہر ہندوستانی کی طرح ان کو بھی یہی فکر کھائی جارہی ہے کہ اب لڑکیاں بڑی ہوگئی ہیں، ان کی شادیاں کیسے ہوں گی۔ ذاکر پاشاہ اپنی والدہ کو یقین دلاتا ہے کہ امی ذرا انتظار کرو۔ مجھے ملازمت مل گئی تو دیکھو ابا کو بھی آٹو چلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جسمانی طور پر معذور ہونے کا سرٹیفکیٹ ذاکر پاشاہ کے ہاں ہے۔ اپنے کھانے سے لے کر اپنی زندگی کے ننانوے فیصدی کام خود کرنے والا ذاکر کہتا ہے کہ ’’اجی سر میں اپنا کھانا کھانے سے لے کر گاڑی چلانے تک اور گھر کے جتنے کام ایسے ہیں جس میں میں والد کا ہاتھ بٹاسکتا ہوں تو وہ سارے کام میں ہی کرتا ہوں۔‘‘
ذاکر کو جب پوچھا گیا کہ تم کیا کھانا پسند کرتے ہو تو اس نے فوری طور پر جواب دیا، ’’سر مجھے حیدرآباد کی بریانی اصل میں پسند ہے۔ ذاکر کہتا ہے کہ وہ باہر جاکر نہیں کھاتا ہے، ہاں مہینے دو مہینے میں جب بھی اس کی امی بریانی بنالیتی ہیں وہی کھاکر خوش ہولیتا ہے۔‘‘ ذاکر اردو، ہندی، انگریزی کے علاوہ تلگو زبان پر خاصہ عبور رکھتا ہے۔ ابھی 11؍ اپریل کو الیکشن کے دوران ذاکر نے پہلی فرصت میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ اپنے قریبی دوستوں کے متعلق ذاکر پاشاہ نے بتلایا کہ انیل کمار اس کا اچھا دوست ہے اور انیل نے ہی اس کا ایک ویڈیو بنایا جس میں وہ اپنے پیروں سے ایک تین پہیوں والی ٹو وھیلر گاڑی چلارہا ہے۔
ذاکر سے اس کی شادی کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے خود کہا کہ سرکیسی بات کر رہے ہیں پہلے میرے بہنوں کی شادی ہوجائے اور مجھے کوئی اچھی نوکری مل جائے تو کچھ بات بنے گی۔
ذاکر پاشاہ کی زندگی کی جدو جہد بہت سارے صحت مند نوجوانوں کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے جو اپنے دونوں ہاتھ اور مکمل صحت رکھنے کے باوجود والدین سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں کہ انہوں نے اتنا بینک بیالنس نہیں جمع کیا کہ وہ آرام سے رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ذاکر پاشاہ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور صحت مند نوجوانوں کو ذہنی معذوری کے ہر عارضہ سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com