عہدآفرین شاعر حضرت امیر خسروؔ دہلوی

ڈاکٹر امیر علی
حضرت امیر خسروؔ کو اس براعظم کے اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ دیگر بزرگانِ دین کے مرتبے سے مختلف ایک الگ نوعیت کا حامل ہے۔ حضرت امیر خسروؔ نے زبان و بیان کے ایسے دریا بہائے ہیں جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہورہا ہے۔ حضرت امیر خسروؔ کی ایک سب سے اہم اور بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جہاں پر بہت بڑے درویش تھے وہیں اپنے زمانے کے سب سے بڑے اور ممتاز اہلِ قلم اور اُردو، فارسی اور ہندی کے مایہ ناز شاعر و مفکربھی تھے۔ آپ کی علمی استعداد و قابلیت اور صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت شیخ سعدی ؒ کو اس امر پر بڑا فخر و ناز تھا کہ ان کے ہمعصروں میں حضرت امیر خسروؔ جیسا پختہ کار اہلِ قلم اور مفکر موجود ہے۔ حالانکہ حضرت سعدی ؒ کے عہدِ پیری میں حضرت امیر خسروؔ بالکل نوجوان تھے۔ ہندوستان اور برصغیر میں حضرت امیر خسروؔ کو اس اعتبار سے بھی بڑی عظمت اور برتری حاصل ہے کہ آپ ہی نے اس براعظم میں سب سے پہلے اُردو یعنی ہندوستانی زبان کا سنگ بنیاد رکھا۔ چنانچہ آپ ہی کی برکت سے یہ زبان ہندوستان اور براعظم میں ایسی پھلی پھولی اور بارآور ہوئی کہ اس نے چند ہی صدیوں کے اندر ہزاروں برس کی پرانی زبانوں کو شیرینی و لطافت، فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
حضرت امیر خسروؔ  ترکی انسل تھے۔ اُن کے والد حضرت امیر سیف الدین محمود ہزارہ بلخ کے امراء میں شمار ہوتے تھے۔ چنگیز خان کے حملوں سے تنگ آکر سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں ہندوستان تشریف لائے اور موضع …… ایٹہ میں آکر آباد ہوئے۔ بعض محققین کے مطابق حضرت امیر سیف الدین محمود ایٹہ سے دلی آئے تو اپنے خاندانی اوصاف، خداداد صلاحیتوں، اعلیٰ اخلاق اور غیر معمولی استعداد و لیاقت کی بناء پر بادشاہ کے مقربین میں شامل کئے گئے۔ دلی آنے کے بعد آپ کی شادی دلی ہی کے ایک مشہور امیر عمادالملک کی صاحبزادی سے انجام پائی۔ یہ صاحبزادی اعلیٰ اخلاق اور علم و فضل میں خاص درجے کی مالک تھیں۔ ان کے بطن سے امیر سیف الدین کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے۔ اعزاز الدین علی شاہ سب سے بڑے تھے، حسام الدین دوسرے اور حضرت امیر خسروؔ سب میں چھوٹے تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت 1253ء کو دلی میں ہوئی۔ پیدائش کے بعد آپ کا نام ابوالحسن رکھا گیا لیکن آپ کا اصل نام ’’ خسروؔ ‘‘ کے تخلص میں دب گیا۔ چنانچہ دنیا بھر میں آپ ’’ حضرت امیر خسروؔ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے اور شہرت پائی۔ حضرت امیر خسروؔ کی ابتدائی تعلیم والد اور بھائیوں کی زیر نگرانی ہورہی تھی اور آپ عمر رواں کی نویں منزل میں گامزن تھے کہ آپ کے والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت اور پرورش آپ کے شفیق ناناعمادالملک کے زیر نگرانی ہوتی رہی۔عمادالملک نے اپنے ہونہار نواسے کو فقہ، حدیث، منطق اور دیگر علوم و فنون میں اعلیٰ تعلیم اور تربیت سے آراستہ کیا، اور یہاں تک کہ نہایت کم عمر و کمسنی ہی میں حضرت امیر خسروؔ کا شمار کامل ادیبوں میں ہونے لگا۔ آپ کو ابتدائی عمر سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھا اور انھوں نے شاعری میں ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل کیا۔

علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ کو باطنی علوم کی جانب رغبت و توجہ ہوئی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ سارے ہندوستان میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ( محبوب الٰہی ؒ ) کے باطنی کمالات کا چرچا تھا۔ حضرت محبوب الٰہی ؒ نے حضرت امیر خسروؔ کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کی شخصیت سے متاثر ہوکر آپ کو حلقہ مریدین میں شامل کرلیا۔ محبوب الٰہیؒ ) جیسے عظیم رہنما کی زیر نگرانی میں حضرت امیر خسروؔ  نے راہِ سلوک کی منازل بڑی تیزی سے طئے کرنی شروع کردیں۔ آپ عبادات و ریاضت میں سخت محنت کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ آپ ہمیشہ رات کے اوقات میں یاد الٰہیؒ ) میں اسی طرح مشغول ہوجاتے تھے کہ آپ پر بقاء و فناء کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ’’ نمی دانم چہ منزل بود شب جائیسہ من بودم ۔بہر سو رقص بسمل بود و شب جائیکہ من بودم ‘‘۔ حضرت محبوب الٰہیؒ سے حضرت امیر خسروؔ کو خاص لگاؤ تھا اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دن حضرت نظام الدین اولیاء ( محبوب الٰہیؒ ) نے آپ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ اے ترک میں سب سے تنگ آجاتا ہوں، یہاں تک کہ خود اپنے آپ سے بھی، مگر تم سے کبھی تنگ نہیں ہوتا۔ ‘‘ حضرت امیر خسروؔ کا شمار حضرت محبوب الٰہیؒ کے خاص مریدوں میں ہوتا ہے۔

اُردو بولنے والے اصحاب جانتے ہیں کہ ہماری اُردو زبان کی ماں برج بھاشا ہے جو ہندوستان میں اسلام آنے سے قبل شمالی ہند میں بولی جاتی تھی۔ جو مسلمان ہندوستان میں آئے تھے وہ فارسی بولتے تھے جس میں عربی اور ترکی کے الفاظ بکثرت موجود تھے۔ بروقت ایک ہی جگہ رہنے بسنے اور آپسی میل جول سے ایک تیسری زبان وجود میں آئی۔حضرت امیر خسروؔ کی اختراعی طبعیت نے اس میں بہت کچھ جوہر دکھائے یعنی برج بھاشا کی زمین میں فارسی کا بیج بودیا۔ حضرت امیر خسروؔ کا شمار فارسی کے مشہور اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اہلِ ایران بھی اُن کا لوہا مانتے ہیں۔ چودھویں صدی عیسوی کا اُردو نمونۂ کلام حضرت امیر خسروؔ کا عمدہ اور بہترین کلام ہے۔ دلی کے بازاروں اور گلیوں میں بولی جانے والی ریختہ زبان کو حضرت امیر خسروؔ ہندوی اور زبان دہلوی کہتے ہیں۔ اور آپ اس زبان کے پہلے شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ آپ نے شاعری میں ایسے بے شمار اشعار تخلیق کئے ہیں جو اُردو بھی سمجھے جاسکتے ہیں اور فارسی بھی اور آپ نے ایسے بھی شعر کہے ہیں جن کا ایک ٹکڑا یا مصرع فارسی ہے اور دوسرا اُردو میں ہے جس کو ریختہ کہتے ہیں۔ حضرت امیر خسروؔ کی ایک مشہور غزل جو فارسی اور اُردو کا حسین سنگم ہے جو ریختہ میں ہے، جس میں ہندی فارسی کلام کی چھاپ موجود ہے۔ ملاحظہ ہوں:

زحال مسکیں مکن تغافل دو راہ نیناں بنائے بتیاں
جو تاب ہجراں ندارم ایجاں نہ لیوگا ہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف زماں وصلت چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک ازدل دو چشم جادو بصد فریہم سیرو تسکین
کے پڑی ہے کہ جاسناوے پیارے پی سے ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں چوذرہ حیراں ہمیشہ گریاں بعیش آں مہ
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجے بتیاں
محق اں مہ کہ روزِ محشر بدرد مارا فریب خسروؔ
پست من کی دوراہے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
حضرت امیر خسروؔ اپنے زمانے کے مشہور شاعر و مفکر اور درویش شخص ہیں۔ ان کے ہمہ جہت اور متنوع کارناموں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ سب ایک مکمل اور مربوط شخصیت کا جزو ہیں۔ تاریخ میں ایسے بہت سی مشہور ہستیاں گزری ہیں جن کی زندگیوں کو درخشاں اور تابناک بنانے میں والدہ کی محبت اور شفقت کا بڑا نمایاں رول رہا۔ والد کی وفات کے بعد حضرت امیر خسروؔ کی پرورش و پرداخت ان کے نانا اور والدہ کی زیر نگرانی ہوئی اور اُس کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء ( محبوب الٰہیؒ ) کی رہنمائی نے حضرت امیر خسروؔ کی زندگی ہی بدل ڈالی۔ حضرت امیر خسروؔ کو اُردو، عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور سنسکرت زبانوں پر کافی مہارت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستانی اور ایرانی موسیقی میں آپ کی مہارتِ خداداد تھی۔ ہندی اور ایرانی راگوں کے میل سے آپ نے کئی راگنیاں ایجاد کی تھیں۔ سِتار اُن ہی کی ایجاد ہے اور قوالی بھی آپ کی دین ہے۔ شعر و شاعری سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ اعلیٰ اخلاق، خدمت خلق اور عبادات و ریاضت آپ کے خاص جوہر تھے۔ علم تصوف سے آپ کو خاص شغف حاصل تھا۔

حضرت امیر خسروؔ نے تصوف کو عقیدے اور عمل کے طور پر اپنی شاعری میں اپنایا ہے جس کا پوری اُردو شاعری میں جواب نہیں ہے۔ آپ کے کلام کی شہرت آ ج بھی موجود ہے اور آئیندہ بھی برقرار رہے گی چنانچہ امیر خسروؔ ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں  ’’ پھول سو ہر دوں میں بھی پوشیدہ ہو تو اپنی خوشبو کی وجہ سے پوشیدہ نہیں رہتا۔‘‘ سیرالاولیاء میں درج ہے کہ حضرت امیر خسروؔ اپنا عارفانہ کلام اپنے پیر و مرشِد حضرت نظام الدین اولیاء ( محبوب الٰہیؒ ) کی نذر کرتے تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن سے لیکر سلطان محمد شاہ تغلق تک یعنی 664ھ تا 725 ھ ) تک تمام سلاطین وقت امراء و ارباب اقتدار سبھی حضرت امیر خسرو کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے اور آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بادشاہ اور امراء و سلاطین وقت بڑے بڑے تحائف اور انعام و اکرام سے آپ کو نوازتے تھے۔ حضرت امیر خسروؔ نے اپنے دور میں گیارہ (11) بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور آپ سات(7) بادشاہوںکی ملازمت میں رہے، سلاطین و امراء کی جھوٹی تعریفیں لکھنا اور اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جھوٹے قصیدے کہنا قطعی ناپسند فرماتے تھے بلکہ اکثر و بیشتر اُن کو اخلاقی انتظامی تعلیمات میں حضرت شیخ سعدیؒ کی طرح حق و صداقت پسندانہ رہنمائی کا درس دیتے تھے۔

حضرت امیر خسروؔ کو ’’ ہندو مسلم اتحاد ‘‘ بہت عزیز تھا وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کی دو بڑی قوم ’’ ہندو اور مسلمان ‘‘ اپنے باہمی اختلافات کو فراموش کرکے آپس میں اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہیں۔ حضرت امیر خسروؔ کی تعلیمات کا مقصد بھی ہندوستان کے دو عظیم فرقوں ’’ ہندواور مسلمان ‘‘ کو وسیع انسانی برادری کے حلقہ میں باہم شیر و شکر کرنا تھا جس میں آپ کامیاب ہوئے جس کی تابناک علامات آج بھی برقرار ہے۔  آپ نے ہمیشہ آدمیت کو انسانیت کا درس دیا ہے۔ آج زبان و ادب کی ترقی میں جو اُجلے نقوش ہیں آپ ہی کی کوششوں اور برکتوں کی دین ہے۔ حضرت امیر خسروؔ کا عظیم المرتبت کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے زبان، شاعری اور موسیقی ہی نہیں بلکہ عام تہذیبی زندگی کو بھی بڑا متاثر کیاہے۔ آپ نے سماجی زندگی میں مشترکہ روایات اور جذباتی ہم آہنگی کی بنیاد ڈالی اور اس کو تقویت بخشی۔ حضرت امیر خسروؔ کو نظم و نثر دونوں اصناف پر یکساں عبور و کمال اور قدرت حاصل تھی۔ آپ کی صرف منظوم تصانیف (99 ) بیان کی جاتی ہیں اور اشعار کی تعداد ( علاوہ ہندی کلام کے ) چار تا پانچ لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ نظم و نسق میں گویا آپ نے کتب خانہ تصنیف کردیا ہے۔ حضرت امیر خسروؔ کا کلام جتنا فارسی زبان میں ہے تقریباً اتنا ہی برج بھاشا ( اردو )  میں موجود ہے۔ آپ کی شعری تصانیف ایک ضخیم کلیات پر مشتمل ہے اور آپ کی شاعری پر تصوف کی گہری چھاپ موجود ہے۔ چودھویں صدی کا اُردو نمونہ کلام حضرت امیر خسروؔ کا بہترین سرمایہ ہے جو امیر خسروؔ اپنا کلام آپ کے محبوب پیرو مرشِد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ( محبوب الٰہیؒ) کی خدمت میں پیش کرتے اور داد و تحسین پاتے تھے۔ حضرت امیر خسروؔ نے ہمیشہ اپنے پیر و مرشِد کی تعظیم میں اپنے قلم و روح کی گہرائی سے اُن پر عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں جس کا سلسلہ آخری دم تک قائم و دائم رہا۔

حضرت امیر خسروؔ دہلوی کی قدر و منزلت ہندوستان کے ہر طبقے کے عوام میں یکساں ہوتی رہی اور آج بھی لوگ بلا تفریق مذہب و ملت رنگ و نسل آپ کی شخصیت اور شاعری کے پرستار و مداح ہیں۔ حضرت خسروؔ علم و فضل، اوصافِ حمیدہ، اعلیٰ اخلاق، زہد و تقویٰ ، عبادات و ریاضت، سادگی اور خودداری ، خدمتِ خلق، صداقت پسندی اور ملنساری میں یکتائے زمانہ تھے۔ آپ ایک عالم باعمل اور درویش باکمال ہیں۔ حضرت امیر خسروؔ بڑے خوددار انسان تھے وہ اپنی ساری زندگی خودداری اور تقیری میں گزاردی اور اس زندگی کا لطف اسی فقیری اور خودداری میں ہے جس کا مظاہرہ حضرت امیر خسروؔ نے کیا ہے جس کا جواب نہیں ہے۔
حضرت امیر خسروؔ کو ’’ شہید محبت ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے ثبوت میں یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت امیر خسروؔ سلطان غیاث الدین تغلق کے ہمراہ بنگال کی مہم پر تشریف لے گئے تھے اور وہیں آپ کو آپ کے محبوب پیر و مرشِد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ( محبوب الٰہی ؒ ) کی علالت کی خبر ملی تو آپ بے چین ہوگئے اور فوراً ملازمت سے مستعفی ہوکر دلی لوٹ آئے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اپنے پیر و مرشِد کے مزار مبارک پر اُنھوں نے اپنے درد و غم اور اپنے پیر و مرشِد کی جُدائی میں بڑا ہی پُرسوز دوہا کہا ہے۔ دوہے کے بول جو آپ کے لبوں پر آئے وہ ایسی زبان کے تھے جسے انھوں نے اپنالیا تھا اور شاید اس زبان کے سب سے زیادہ اثر انگیز الفاظ ہیں:
گوری سوئے سیج پر مکھن پر ڈارے کیس
چل خسروؔ گھر آپنے سانج بھئی چوندیس
اگثر کُتب میں درج ہے کہ حضرت امیر خسروؔ اپنا مذکورہ شعر چھ (6)ماہ تک دہراتے رہے۔ اور اپنے پیرو مرشِد کے مزار مبارک پر جاروب کشی فرماتے رہے اور آپ نے اسی عالم میں 27ستمبر 1325ء کو اپنی جان، جانِ آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور آپ کی آخری آرام گاہ اپنے محبوب پیرو مرشِد کے مزارِ مبارک کی آرام گاہ کے قریب دلی میں واقع ہے۔
مت سہل اُنھیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں